کالمز

چترال اوربلتستان کے روابط

تحریر: ڈاکٹرعنایت اللہ فیضیؔ 

چترال کی معلوم تاریخ تین ہزارسالوں پرمحیط ہے۔آثارقدیمہ کی کھدائی اوردیگرشواہدکی روشنی میں محققین نے رائے دی ہے کہ ساڑھے چارہزار سالوں سے چترال میں انسانی آبادی کے ثبوت ملتے ہیں ۔گندم کی قدیم ترین قسم اورآریاؤں کی قدیم تریں قبریں چترال سے ملی ہیں ۔بلتستان کی تاریخ بھی کم وبیش 4500سالوں پرمحیط ہے۔کیسرداستان دنیاکی قدیم داستانوں میں شمارہوتی ہے ۔یہ داستان بلتی زبان میں ہے۔بلتستان کاعلاقہ پاکستان کے شمال مشرق میں سیاچن،کارگل ،لداخ اورکشمیرکی سرحدپرواقع ہے جبکہ چترال کاعلاقہ شمال مغرب میں افغانستان کے صوبہ جات بدخشان ،کنڑاورنورستان کی سرحدوں سے متصل ہے۔دونوں کے درمیاں تنگ پہاڑی گھاٹیوں سے گذرتی ہوئی سڑک کافاصلہ620کلومیٹرہے۔

زمانہ قدیم میں بلتستان پربھی راجوں کی حکومت رہی ،چترال بھی قدیم ریاست تھی جس کاحکمران میتارکہلاتاتھا۔بعض آن لائن اخبارات اور رسائل خصوصاََماہنامہ شندورشمارہ 37،اکتوبر2014ء میں بزرگ ادیب،محقق اوردانشورسیدمحمدعباس کاظمی کامضمون نظرسے گذرا۔موصوف نے بعض حلقوں کے منفی پروپیگنڈے سے متاثرہوکرچندتاریخی حقائق کومسخ کیاہے۔اس لیے ریکارڈکی درستگی کے لیے اصل حقائق کوقارئین کے سامنے رکھناضروری سمجھتاہوں۔ مصنف نے یہ غلط مفروضہ پیش کیاہے کہ بلتستان کے راجوں نے گلگت اورچترال پرحکومت کی ۔حقیقت یہ ہے کہ 1843ء میں بلتستان کاعلاقہ کشمیرکے ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ آنے تک ایساکوئی واقعہ نہیں ہوا۔ڈوگرہ راج کے دوران انگریزوں کی مددسے بلتستان کے کچھ نامورلوگ گلگت اورغذرمیں مختلف عہدوں پرفائزہوئے۔گوپس کے گورنرراجہ مرادخان ان میں سے ایک تھے ۔ان کابیٹاراجہ حسین علی خان بھی اس منصب پرفائزرہا۔وہ علاقے میں باباجان کے نام سے مشہورتھا۔1843ء سے پہلے کبھی ایسانہیں ہواکہ بلتستان کاکوئی شخص اس علاقے کے کسی اہم عہدے پرفائزرہاہو۔

عنایت اللہ فیضی
عنایت اللہ فیضی

مصنف نے لکھاہے کہ بلتستان کے حکمران علی شیرخان انچن نے 1615ء سے 1620ء تک چترال پرحکومت کی۔دروش میں چنارکاپودالگایا،اس میں چکی کاپاٹ پرودیا۔ثبوت کے طورپرحشمت اللہ خان کاحوالہ دیاہے حالانکہ انہوں نے علی شیرخان انچن کاذکرنہیں کیا۔حشمت اللہ خان نے چترال کی تاریخ نہیں لکھی ۔سال بہ سال حکمرانوں کاحال نہیں لکھااگرحشمت اللہ خان نے 1615ء سے 1620ء تک کسی حکمران کانام نہیں لکھا۔تواس کامطلب یہ ہرگزنہیں کہ علی شیرخان انچن آیاتھااوراس نے فتح کیاتھا۔حشمت اللہ خان 1580ء سے 1595ء تک کاحال بھی نہیں لکھا۔انہوں نے 1680ء سے 1770ء تک کاحال بھی نہیں لکھا۔اس کامطلب یہ نہیں ہوسکتاکہ یہ بھی علی شیرخان انچن کے ادوارتھے۔انہوں نے 1770ء کے بعدبھی 200سالوں کوحذف کیاہے۔ہم یہ سارے سال علی شیرخان انچن کونہیں دے سکتے ۔تاریخ میں سکندراعظم ،امیرتیموراورظہیرالدین بابرکے حملوں کاذکر موجودہے۔ان میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں لکھاکہ یہ نامورفاتح چترال سے گذرے البتہ وقائع نویسوں اورسوانح عمری لکھنے والوں نے اردگردواقع علاقوں کے حالات میں چترال کاذکرکیاہے۔اس کے قدیم نام قاشقار اورچوُ ی کاذکرکیاہے۔چترال کی لوک روایات میں مشہورحملہ آوروں اورجنگوں کے تذکرے ملتے ہیں۔کاوسین ،گاؤلانکی،قلماق اورتاژی کے حملوں کاذکرموجودہے داربند،اورموُ ،بونی اوربریکوٹ کی جنگ کاذکرموجودہے۔کھوارزبان میں جنگ کو’’لام ‘ ‘ کہتے ہیں ۔فوج کشی کو’’بول ‘‘ کہتے ہیں۔

اٹھارویں صدی کے عالم ،مؤرخ اورشاعر مرزامحمدسےئرؔ نے منظوم شاہنامہ فارسی میں لکھاتھا۔اس میں پندرھویں صدی سے لیکرانیسویں صدی کے نصف اول تک کے اہم واقعات کوجزئیات کے ساتھ لکھاہے۔وہ میرجہاندارشاہ کے حملے کاذکرتفصیل سے کرتاہے۔سوات کے پٹھان لشکرکاذکرتفصیل سے کیاہے۔ یہ1868ء اور1660ء کے واقعات ہیں۔اگرعلی شیرخان انچن چترال آتاتوشاہنامہ چترال میں اس کاذکرضرورہوتا۔یہ کیسے ہوسکتاہے کہ علی شیرخان انچن اوربلتی فوج کولوک کہانیوں،روایتوں والے بھی بھول گیے اورمرزامحمدسےئربھی بھول گیا۔یہ بات قرین قیاس نہیں ہے ۔گلگت اورچترال کی تاریخ کاپوراریکارڈاس واقعے سے یکسرخالی ہے۔

مصنف نے آخری بات بڑے معرکے کی لکھی ہے اوراس بات کولکھ کرانہوں نے اپنے پورے مؤقف کوبے نقاب کیاہے ۔مصنف لکھتاہے کہ ’’1948ء کے جہادکشمیرمیں چترال باڈیگارڈاوران کے کمانڈنٹ کرنل مطاع الملک نے کھرپچوُ کاقلعہ فتح کرکے سکردومیں پاکستان کاپرچم نہیں لہرایا۔ انہوں نے توپ کے چندگولے برسائے تھے۔ کھرپچوُ کاقلعہ خودبخودفتح ہوگیا۔ چترال کے مجاہدین نے ڈکیتی کی اورزناکاری میں ملوث ہوئے ۔سکردوپر پاکستانی پرچم نہ جانے کن لوگوں نے لہرایا۔‘‘یہ وہ الزمات ہیں جولیفٹیننٹ کرنل تھاپااورکیپٹن گنگاسنگھ کے ہمدردوں نے چترال کے مجاہدوں پرلگائے تھے۔یہ وہ الزمات ہیں جن کواس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہرلال نہرونے دہرایاتھا۔

سکردو بلتستان میں اُ س وقت سے اب تک بھارتی لابی کے لیے کام کرنے والوں کاطاقتورگروہ موجودہے۔سیاسی جماعتوں میں دانشوروں میں ،مذہبی جماعتوں میں ،سرکاری افیسروں میں اورخصوصاََ غیرسرکاری تنظیموں میں اس گروہ کے لوگ موجودہیں۔جب بھی قدیم قلعوں کی تعمیرنوکاذکرآتاہے یہ گروہ سرگرم عمل ہوتاہے ۔ایسے قلعوں کی تعمیرنوکرنے نہیں دیتاجن قلعوں کوڈوگروں سے چھڑایاگیاتھایاجن قلعوں کے مالکان نے ڈوگروں کے خلاف جہادکیاتھا۔ ڈورکھان یاسین کاقلعہ گوہرامان کی ملکیت میں تھا۔جنہوں نے ڈوگروں کے خلاف طویل جنگیں لڑیں ۔گلگت کے تاریخی قلعے سے ڈوگرہ گورنرگھنساراسنگھ کو نکالاگیا۔کھرپچوُ کے قلعے کوڈوگرہ فوج سے آزادکرکے اس پرپاکستان کاپرچم لہرایاگیا۔اس لیے ان قلعوں کی تعمیرنوروک دیاجاتاہے۔ایسے قلعوں کی تعمیرنوکی جاتی ہے جہاں ڈوگروں کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔التت کولے لیں ۔بلتت کولے لیں ،شگرکولے لیں ۔خپلوکولے لیں ۔ان قلعوں کے معلومات کتابچے اٹھاکرپڑھیں ۔ان میں آپ کوڈوگروں کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوئی روایت نظرنہیں آئے گی۔کھرپچوُ کے قلعے کی اگرتعمیرنوکی گئی تواس کے کتابچے میں ڈوگرہ راج کے خلاف مجاہدین کی یلغارکاذکرآئیگا۔کیپٹن گنگاسنگھ کے قتل کاحوالہ آئیگا۔لیفٹیننٹ کرنل تھاپا کی گرفتاری کاذکرآئیگا۔ڈوگرہ فوج کی شکست کاذکرآئیگا۔سیاحوں کے قافلوں کوپتہ لگے گا،گلگت بلتستان اورسکردوکے بچوں کوپتہ لگے گاکہ ہمارے مجاہدین نے یہ قلعہ فتح کیاتھا۔سیدمحمدعباس کاظمی نے بادل ناخواستہ ،ناچاہتے ہوئے اورنادانستہ طورپراس گروہ کی زبان مستعارلیاہے۔جوایک منصوبے کے تحت مجاہدین کوبدنام کرکے ڈوگرہ فوج کومظلوم ثابت کرناچاہتاہے۔بغدادکے علمائے ظاہر نے حسین بن منصورحلاجؒ کوسزائے موت سنائی ۔شہرکے لوگوں نے ان پرپتھربرسائے ،حضرت جنیدبغدادیؒ نے پتھرکی جگہ پھول ان کی طرف پھینکاجوان کوجالگا۔رات خواب میں آئے ،جنیدبغدادی ؒ نے پوچھا’’تم نے کیسامحسوس کیا‘‘۔حسین بن منصورحلاجؒ نے جواب دیا،بغدادکے لوگوں نے جوپتھرمارے ۔ان سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی لیکن آپ نے جوپھول دے مارا۔اس کادرداب بھی محسوس ہورہاہے۔سیدمحمدعباس کاظمی بڑے پائے کے دانشورہیں ۔اُن کوغیروں کی زبان میں نہیں لکھنی چاہئے۔

؂ بدم گفتی وخرسندم عفاک اللہ نکوگفتی
جواب تلخ می زیبدلبِ لعلِ شکر خارا

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button