حکمران اور لیڈر میں فرق
تحریر ! زیب آر میر
زیب ارٹس اینڈ کرافٹس
دس جنوری 2020 جمعہ کی شام کو عمان کے فضا میں عجیب ہی اداسی چھائ ہوئ تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کوئ طوفان آنے والا ہے۔ رات کو بہت دیر تک ویسے ہی جاگتی رہی ۔بے چینی ہو رہی تھی اور دل گھبرا رہا تھا۔نیند انکھوں سے کوسوں دور تھی۔سوچ رہی تھی اج کیوں ایسا محسوس کر رہی ہوں۔ بظا ہر کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی تھی ۔آدھی رات کو طوفانی بارش کےساتھ بہت تیز ہوائیں چلنی شروع ہوئیں۔ با رش اور اندھی اسی طرح جا ری تھی دعائیں پڑھتے ہوِے نہ جا نے کب آنکھ لگ گئی ۔اورفجر کے وقت جو ں ہی انکھ کھلی اور مو با ئیل پہ نظر پڑی تو دل و د ما غ کو زبر دست جھٹکا لگاارجنٹ میسیجس تھے کہ بابا از نو مور ۔عمان میں احتراما سلطا ن کو کبھی کبھی بابا پکا را جا تا ہے ۔میں نے جیسے ہی نیوز کھولا ہر طرف اہ و بکا تھی۔زمین والوں کے ساتھ اسمان اور ہوائیں سب ملکر بین کر رہے تھے۔اور روتے بھی کیوں نہیں ۔زمین سے اپنے قوم کو اٹھا کر اسمان تک لے جانے والا رہنما آج سب سے جدا ہو چکا تھا۔ نہ صرف عمانی بلکہ عمان میں رہنے والےغیر عما نی بھی اپنے آپ کو یتیم اوربے سہارہ محسو س کر رہے تھے ۔ سلطان کا سایہ سر پہ نہیں رہا تھا۔ جیسے ان کے سرسے آسمان سرک چکا تھا
سلطان قا بو س صرف ایک حکمران نہیں تھے وہ ایک رہبرایک سر پرست اورا یک شفیق با پ کے ما نند تھے ۔سلطان قابوس بن سعید ال سعید المعظم نے برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حا صل کی تھی اور29 سال کی عمر میں 1970 میں تخت نشین ہوئے تھے۔۔سلطا ن قا بو س کی تخت نشینی سے پہلے عما ن بہت پسما ندہ تھا ۔ تیل کے محدود ذخا ئر کی دریا فت کے با وجود عما ن کی حالت میں کو ئی تبدیلی نہیں آئی تھی ۔علاج نہ تعلیم نہ سڑکیں نہ بجلی و پانی کچھ بھی میسر نہیں تھا ۔اور لوگ گھو ڑوں اونٹوں اور گدھوں پر سواری کرتے تھے۔ صرف دس کلو میٹر کی پکی سڑک تھی ۔اور باہر کہ دنیا سے رابطہ بھی محدود تھا ۔ان کے والد ایک رو ا ئتی سخت مزا ج با دشا ہ تھے وہ شا ئد تعلیم اور تر قی کو اپنی با د شا ہت کے لئے خطرہ سمجھتے تھے ۔ سلطا ن قا بو س کےخیا لا ت اپنے والد کے با لکل بر عکس تھے۔ وہ اعلئ تعلیم یا فتہ تھے ۔ انہوں نے مختلف ممالک کا دورہ کرکے وہاں کے طرز حکمرانی کا مشاہدہ کیا تھا ۔اور اس کے ساتھ اپنے ملک کا موازنہ کیاتھا ۔ وہ اپنے سلطنت کو جد ید خطوط پراستوار کرنا چا ہتے تھے ۔ اپنی قوم کو دنیا کی ترقی یا فتہ قومو ں کی صف میں کھڑا کرنا چا ہتے تھے ۔ وہ اپنے لو گو ں کی حا لت بہتر بنا نا چا ہتے تھے ۔یوں ا نہو ں نے اپنے والدسے اپنے ملک اور قوم کو پسماندہ رکھنے پر احتجاج کیا۔ اور نظا م حکو مت میں تبد یلی کی تجا ویز پیش کئے ۔والد محترم اپنے ضد پر اڑے رہے اور نو جوان شہزا دے کی کوئی با ت نہیں ما نی تو مجبوراً شہزا دے کو انتہا ئی قدم اٹھا نا پڑا ۔ بلا خر وہ اپنے والد کو معزول کرکے خود تخت نشین ہوئے ۔اور پھر اپنے حکمرانی میں ملک و ملت کو اس مقام تک پنچایا کہ دنیا حیران رہ گئی
۔وہ ایک حکمران نہیں بلکہ ایک مخلص لیڈر تھے ۔حکمران صرف اپنے لوگوں پر حکمرانی کرتا ہے اسے صرف اپنی کرسی اور اپنے ذاتی مفا دا ت کی فکر ہو تی ہے ۔مگر لیڈر کواپنی قوم اور ملک کی فکر ہو تی ہے ۔اوراس کی ترقی کی فکرہوتی ہے ۔ اپنی قوم کی صحت تعلیم اورتحفظ کی فکر ہو تی ہے ۔ لیڈرکو یہ فکر ہو تی ہے کہ صحرا کے کسی کو نے یا پہاڑ کے کس چو ٹی پہ بھی کو ئی مصیبت میں تو نہیں ۔لیڈر شفیق باپ اور دا نا استاد کی طر ح ہو تا ہے ۔ اسلئے عمان کے بادشاہ اور باقی ممالک کے حکمرانوں میں یہی فرق تھا ۔ سلطا ن قا بوس نے اپنے ملک اور قوم کےلئے ایک شفق باپ ایک عظیم رہبر اور ایک دانا استاد کا کردار اد کیا ۔ انہوں نے نہ صرف اپنی قو م کو غربت اور جہا لت کی اند ھیر وں سے نکا لا بلکہ اپنی قوم کی زبردست تر بیت بھی کی ۔ ملک کے وسائل کو لوگوں کے معیار زندگی بلند کرنے پر لگادئے جس میں تعلیم،صحت،کے ساتھ ساتھ انفراسٹکچر شامل تھی۔تعلیم اور صحت سب کے لئے مفت اور اعلیٰ تعلیم کے لئے سکالرشپ سب کو میسر ہوا ۔ہو نہار طلبا کو اعلئ تعلیم کے لئے مغرب کی یو نیو سٹیوں میں بھیجا تا کہ وہ وا پس آ کر ملک کی خد مت کر سکے اور مستقبل کو سنبھال سکے۔ ملک میں بین اقوامی معیا رکی ایک بہتر ین یو نیو رسٹی قا ئم کی ۔ جگہ جگہ ہسپتا لو ں کی جال بچھا ئی ۔بنیا دی صحت کا معیار ا تنا ابلند کیا کہ آج عالمی ادارہ صحت کی پر ائمری ھیلتھ کی درجہ بندی میں عما ن کاشمار دنیا کے دس بہترین مما لک میں ہو تا ہے ۔ ملک کے کونے کونے تک شا ہر اہوں اور سڑکو ں کی ایسی جال بچھا ئی کہ یہا ں کی سڑ کیں دنیا کی کئی تر قی یا فتہ مما لک کی سڑکوں سے بہتر ہیں۔ خوا تین کی تعلیم کو عام کیا اور ہر محکمے میں میرٹ کی بنیاد پر نو کر یو ں کا بندو بست کیا ۔ بے روز گا روں کے لئے وظیفہ مقر کیا ۔نو جوا نو ں کو ہنر سیکھنے کےے لئے دوسرے مما لک بیھجا ۔اور اپنے ملک میں ٹیکنیکل ادارے قا ئم کیے ۔ اور پچاس سال کے عرصے میں وہ جا دو کر دیکھا یا جو کہیں اور شا ئد ہی ممکن ہو سکے ۔ وہ عمان جہا ں ہر شعبے میں بیروں ملک سے ائے ہو ے افرادی قو ت پر انحصار کیا جا تا تھا آج عما نی نو جواں ہر چھو ٹے بڑ ے شعبے میں نظرآتے ہیں ۔ کئی شعبو ں میں افرادی قوت کے حساب سے ملک خود کفیل ہو چکا ہے ۔تعلیم اور ترقی کے علا وہ سلطان نے اپنی قوم کی اخلا قی تہذ یبی نفسیا تی اور ہر طر ح کی تر بیت بھی کی ۔آج عمان کے لوگ انتہا ئی مخلص دیانت دار اور ایماندار لوگ ہیں ۔غیر ضروری جھگڑے سے دور رہتے ہیں ۔ بد تمیز ی گا لی گلو چ کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ انہو ں نے اپنی قوم کو ایک تہذییب یا فتہ قوم بنا یا
۔سلطا ن قا بو س نہ صرف اپنے ملک کو مثا لی تر قی دینے میں کا میا ب ہو ئے بلکہ ا یک بین اقوامی لیڈر اور امن کے سفیر کی حثیت سے اپنی پہچان بنا ئی ۔ انہو ں نے نہ صرف خلیجی مما لک کی تعا ون کو نسل کی بنیاد ڈالی بلکہ تمام علا قا ئی تنا زات کی ثا لثی اورحل کے لئیے بھی دنیا انہی کی طرف دیکھنے لگی ۔ وہ امن کے سفیر ک طور پر جا نے جا تےتھے ۔خلیج اور مشرق وسطیٰ جیسے تنا زعات سے بھرے ہوے علا قے میں رہنے کے باو جود بھی وہ کس تنا زعہ کا حصہ نہیں بنے بلکہ ہر تنا زعے کو حل کر نے میں مدد کی ۔ عراق جنگ ہو یا شام کا مسئلہ یمن سعودیہ کا تنا زعہ ہو یا کسی اور خلیجی ملک میں چپقلش یا امریکہ اور ایران کے جوہری معاہدات کا معاملہ ہو سلطان نے ہمیشہ ایک بہترین سہولت کار اور ثالث کا کردار اد کیا۔ سلطان زیادہ خو د نما ئی کے قا ئل نہیں تھے بلکہ خاموشی سے ہر مسلے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے تھے۔ اور اقوام متحدہ سمت پورے دنیا کے حکمران ان پر بھروسہ کرتے تھے۔یہ مقام دنیا میں شاید ہی کسی حکمران کو نصیب ہو۔
عما نیو ں کے علا وہ انہو ں نے عمان میں رہنے والے غیر عما نیو ں کی بھی سر پرستی کی ۔
اج عمان میں پو ری دنیا سے آ ۓ ہو ے ھر رنگ نسل اور مذ ہب کے لوگ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق امن و سکون کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ عما ن میں میں ڈھا ئی لاکھ پا کستا نی رہتے ہیں ا ور زر مبا دلہ کما کر پا کستان بھیجتے ہیں ۔گلگت بلتستان اور چترال سے آئے ہو ے افراد کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہیں۔جو عزت و احترام اور سکون ہمیں یہاں کےبادشاہ کی مہربانی سے میسر ہے وہ شاید ہمارے اپنے ملک میں بھی میسر نہیں۔ہم اپنے عمانی بہن بھائیوں کے اس دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور دعا کرتے ہیں.اللہّ رب العزت اس قوم اور ملک پر ہمیشہ اپنا کرم رکھے اسے شادواباد رکھے امین۔
اس مشکل گھڑی میں اس قوم نے جو صبر،حوصلہ اور تحمل کا مظاہرہ کیا وہ شاید ہی کو ئی کرسکے۔غم کا پہاڑ سر پر اٹھا کر بھی نہ توکسی نےتوڑ پھو ڑ کی نہ املاک کو نقصان پہنچا یا ۔اور نہ ہی غیر عمانیوں کے لئے مشکلات پیدا کئے۔اپنے سوگ کے دوران بھی باہر کے لوگوں کی آ سا نی کے لئے مارکیٹس کھول دیے۔اور ان کا خیال رکھا۔ یہ اسں عظیم لیڈر کی تر بیت کا ہی نتیجہ ہے ۔اور اس کا کریڈٹ یہاں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جاتا ہے جنہھوں نے کمال مہارت سے تمام حالات کو قابو میں رکھ کر نہ صرف اپنے سلطان کو الوداع کہا بلکہ وصیت کے مطابق نئے بادشاہ کو بھی عزت و احترام سے تخت پر بیٹھا دیا ۔اور اپنے غم سے نڈھال قوم کے زخموں پر بھی مرہم رکھ دیا ۔یہ ا س لیڈر کی تربیت سے ہی ممکن ہوا۔جس نے نہ صرف ملکی اور خارجہ امور پر ہی توجہ مرکوز کیا بلکہ اپنے قوم کی اخلاقی اور تعمیری تربیت بھی کی۔ہم ان کی اس ثابت قدمی اور صبر اور تحمل پر اس قوم کو سلام پیش کرتے ہیں۔اور اب ان کو ترقی و خوشحالی سے کوئ نہیں دور کرسکتا۔ دوسرے تر قی پذیر مما لک بشمو ل پا کستا ن کے لیڈر اور عوام اس قوم اور ان کےلیڈر سے بہت کچھ سیکھ سکتےہیں ۔ یہ سمجھنا کہ شا ئد تیل کی دولت کی وجہ سے یہ ملک ترقی کر گیا سچ نہیں ۔کیو نکہ دوسرے ممالک جیس عراق لیبیا نا ئجیر یامیں تیل کی دولت عما ن سےکئی گنا زیا دہ ہے ۔ مگر ان ملکو ں کے حکمرا نوں نے ہمیشہ اپنے اقتدا ر اور ذا تی مفا د کو تر جیح دی ۔ آ ج نہ اقتدار رہا نہ ان کی ذات اور ان مما لک کی حا لت سب کے سا منے ہے ۔اللہّ پاک عمان کے نئے سلطان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ملک کے باگ ڈور کو مزید بہتر انداز میں چلانے میں مدد اور طاقت عطا فرمائیں۔اس قوم کو حاصلہ و طاقت عطا فرمائے تاکہ وہ اپنے محبوب لیڈر کے خواب کی تعبیر بن سکے۔امین یا رب العالمیںن