اہم ترین

گلگت بلتستان کی آئینی بے چینی کا حل سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات ہیں، پارلیمانی کمیٹی

اسلام آباد: وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی زیر صدارت پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس  اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں گلگت بلتستان کے آئینی،انتظامی اور ترقیاتی امور کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئیاور اہم فیصلے کئے گئے،

اجلاس میں سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی فدا محمد ناشاد،ڈپٹی سپیکر جعفر اللہ خان گلگت بلتستان کی صوبائی کا بینہ کے اراکین اور کونسل کے اراکین موجود تھے۔

اجلاس میں گلگت بلتستان حکومت،پارٹی اور کونسل کی چار سالہ کارکردگی پر اطمنیان کا اظہار کیا کیا گیا اجلاس میں کہا گیا کہ گلگت بلتستان میں  تیز تر ترقی کے اہداف کا حصول مشترکہ کاوشوں سے ممکن ہوا،حکومت کی باقی مدت کے لئے اہداف کے تعین کے حوالے سے بھی فیصلے ہوئے اور آمدہ انتخابات کے صاف اور شفاف  انعقاد  کے حوالے سے صوبائی حکومت کی آئینی اور سیاسی ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی۔

اجلاس میں وزیر اعلی حافظ حفیظ الرحمن  نے پارلیمانی کمیٹی  کے ممبران کو آگاہ کیا کہ گلگت بلتستان کے ترقیاتی،آئینی اور انتظامی مسائل کے حوالے سے ایک مفصل خط وزیر اعظم پاکستان کو ارسال کیا ہے جس میں وزیر اعظم کے دورہ گلگت کے دوران کئے گئے فیصلوں پر عمل در آمد اور دیگر مسائل کے حوالے سے گزارشات کی ہیں کہ وفاق  کی  طرف سے صوبے کے مسائل حل کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کیا جائے گلگت بلتستان کو موجودہ درپیش چند چیلنجز سے وفاق کو آگاہ کیا ہے جس میں آئینی،عدالتی،ترقیاتی اور  انتظامی  معاملات فوری توجہ کے حامل ہیں،ترقیاتی منصوبے جو گزشتہ مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کی جانب  سے پی ایس ڈی پی میں شامل کردہ منصوبوں پر کام کی رفتار میں کمی اور کچھ منصوبوں کو پی ایس ڈی پی سے خارج کرنے پر صوبے کو شدید مشکلات درپیش ہیں۔

اجلاس میں کہا گیا کہ آئینی حوالوں سے گلگت بلتستان میں جو بے چینی پائی جاتی ہے اس کے لئے سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات بہترین حل ہے،اجلاس میں متفقہ طور پر اس بات کااعادہ کیا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ ن سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کو ہی قابل عمل تصور کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے آئینی مسائل کے حل کے لئے بہترین آپشن قرار دیتی ہے کیونکہ یہ سفاشات تمام سٹیک ہولڈر سے مشاورت کے بعد مرتب کی گئیں تھیں،اجلاس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے اور آرڈر 2019کے چند نکات پر وفاق اور گلگت بلتستان حکومت کی مشاورت ہوئی تھی،اجلاس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے ٖفیصلے پر عمل کرنا کلی طور پر وفاق کی ذمہ داری تھی جو کہ ایک سال گزرنے کے باوجودالتوا کاشکار ہے جس کی وجہ سے شدید آئینی،انتظامی اور عدالتی دشواریوں کا سامنا ہے،اس حوالے سے گلگت بلتستان حکومت اپنے حصے کا کام کر چکی ہے لیکن وفاق کے زمے جو کام تھے اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے،صوبائی حکومت نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر عمل  درآمد،صوبائی اسمبلی کی قراردادوں کو وفاق کے زرئعے عمل درآمد کی استدعا کی تھی جس کا زکر سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی کیا گیا ہے۔

اجلاس میں گلگت بلتستان میں پیدا شدہ عدالتی بحران پر بھی غورو خوص ہوا،اجلاس میں کہا گیا کہ صوبائی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں بھی عدالتی بحران اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے متفقہ قرارداد میں وفاق کو سفارشات ارسال کی گئیں ہیں۔

اجلاس میں گلگت بلتستان میں سٹریجیک اہمیت کے حامل سکردو کارگل روڈ کے حوالے سے سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی فدا محمد ناشاد نے کہا کہ کرتار پور راہداری کی طرح یہاں کی چار ہزار منقسم خاندانوں کی دوریاں ختم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے،اجلاس میں کہا گیا کہ وفاقی پی ایس ڈی پی کے منصوبے،جگلوٹ سکردو روڈ،نلتر ایکسپریس وے،کینسر ہسپتال،کارڈیک ہسپتال،ہینزل،پاور منصوبہ،نلتر،غواڈی،شغرتھنگ،ہرپو اور تھک پاور منصوبے کے لئے وفاق کی طرف سے فنڈ میں کمی کی گئی ہے جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کے لئے اہمیت کے حامل یہ منصوبے مقررہ مدت میں پورے نہیں ہوئے جس کی وجہ سے عوام مشکلات کا شکار ہیں،جبکہ گلگت چترال شاہراہ،کارگاہ شاہراہ بٹو گاہ شاہراہ،وومن یونیورسٹی،ٹیکنیکل کالج،گلگت سیوریج منصوبے کو مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت نے پی ایس ڈی پی میں شامل کیا تھا موجودہ وفاقی حکومت نے وفاقی پی ایس ڈی پی سے خارج کیا ہے،اجلاس میں کہا گیا کہ ایک سال سے سپریم اپلیٹ کورٹ اور چیف کورٹ میں ججز کی آسامیاں خالی ہیں وفاق کی طرف سے تقرریاں نہ ہونے کی وجہ سے عدالتی نظام عملا مفلوج ہو چکا ہے جس کی وجہ سے عوام بروقت انصاف کے حصول سے محروم ہیں،وفاق فوری طور پر ججز کی خالی آسامیاں پر کرے۔

اجلاس میں کہا گیا کہ وفاق کی طرف سے صوبائی حکومت کے انتظامی اختیارات میں مداخلت اور اہم انتطامی مسائل پر عدام مشاورت کی وجہ سے  عوامی مسائل کے حل میں دشواریاں سامنے آرہی ہیں  اس  پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا گیا کہ اس حوالے سے وفاق کو تحریری طور پر آگاہ کیا جائے گا، جس کا تفصیل سے زکر وزیر اعظم کے دورہ گلگت کے دورے کے موقعہ پر کابینہ بھی کر چکی ہے،وفاق کی طرف سے صوبائی اختیارات میں مداخلت اور عدام مشاورت سے اس امر کا عندیہ مل رہا ہے کہ جیسے گلگت بلتستان حکومت متعین کردہ اختیارات استعمال کرنے میں آزاد نہیں،وفاق سے گلگت بلتستان کے لئے جو تدریجا حاصل کیا گیا آئینی اور انتظامی سفر نہ صرف رک رہا ہے بلکہ صوبے کے تعین شدہ آئینی اور انتظامی اختیارات سے روکا جا رہا ہے جبکہ صوبے کے لئے متعین شدہ آئینی اور انتظامی اختیارات کے تحت  چار نئے اضلاع بنائے گئے،اضلاع کے نام شامل کرنے کے لئے وفاق کی طرف سے  غیر ضروری سرد مہری اور مختلف حیلے اور بہانے سامنے آرہے ہیں جو سراسر گلگت بلتستان کی عوام کے ساتھ نا انصافی ہے،اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ وزیر اعلی گلگت بلتستان کی طرف سے گلگت بلتستان کے مذکورہ مسائل کے حل کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان کو جو خط لکھا گیا ہے اس پر عمل در آمد کے لئے فروری کے وسط تک انتظار کیا جائے گا۔وفاق کی طرف سے یہ مسائل حل نہ کئے گئے تو تو صوبے کے لئے آئینی طور پر متعین خود مختاری کو سامنے رکھتے ہوئے وفاقی سطح پر فیصلہ ساز اداروں،قومی میڈیا اور قانونی طور پر دستیاب تمام دروازوں کو کھٹکٹایا جائے گا اور اس ضمن میں ضرورت پڑنے پر گلگت بلتستان کی صوبائی کابینہ کا اجلاس پندرہ سے بیس فروری  کے درمیان ڈی چوک اسلام آباد میں آخری آپشن ہوگا کہا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت آپنے آئینی اور سیاسی حق اور عوامی مسائل کے حل کے لئے قانونی اور سیاسی طور پر آواز بلند کرنے کا حق رکھتی ہے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button