استور: زلزے اور شدیدبرف باری سے متاثرہ حالات و حکومتی اقدامات
تحریر: عبدالوہاب ربانی ناصر
2020 کے شروع ہونے سے دو دن قبل رات 14: 10منٹ پر زلزے کا ایک بڑا جھٹکا آیا۔۔۔جس کی شدت 5.6 بتایا جا رہاہے ۔۔۔۔ اس جھٹکے نے ملک کے دیگر شہروں سمت گلگت بلتستان سمت بالخصوص ضلع استور کو ہلا کر رکھ دیا ۔۔۔ پر سکون ماحول میں بیٹھے لوگوں کا سکون بھی چھین لیا اور بعض مقامات پر نقصان کا سبب بھی بنا ۔۔۔۔۔۔ عید گاہ و دیگر گاوں کے لوگ گھروں سے باہر آٸے اوررات کا پرُ فضا ماحول میں آزانوں کی آوازوں سے گونج اٹھا ۔۔اور پوری رات کٸی لوگ مذید زلروں کی ڈر سے باہر ر ہنے پر مجبور ہوٸے اور کٸی خاندان اکٹھے ایک جگے میں بیٹھ کر رات بھر عبادات کرتے رہے۔۔۔۔۔۔زلزے کے اس رات کے جھٹکوں سے جسمیں سب سے زیادہ گاوں شلتر ، ڈوئیاں ، بونجی اور دشکن متاثر ہوا ہے ۔۔ ۔۔۔۔سیکنڑوں مکانات منہدم ہوئے اور کٸی مکانات کو جزوی نقصان پہنچا۔۔لاکھوں کا مال مویشی سمت استوری مارخور بھی نقصان ہوٸے۔۔۔۔۔ لیکن اللہ کا فضل و کرم سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔۔۔۔۔اللہﷻ کا شکر ہے اگر یہ زلزہ رات کو آیا ۔۔۔یعقینن واقعے مارنے والا سے بچانا والا بڑا ہوتا ہے ۔۔۔۔خدانخواستہ اگر دن اوقات میں یہ زلزہ آتا تو جس طرح استور ویلی روڈ تباہ ہوا اس حساب سے پورا استور لپیٹ میں آجا تا لیکن اللہ کا رحم و کرم ہو ا۔۔۔۔کیو نکہ دن کے اوقات میں استور ویلی روڈ سے سینکڑوں گاڈیوں کا آمد ورفت ہوتا۔۔۔۔استوری قوم پر یہ رحم و کرم ہواور خوش قسمتی یہ ہوٸی اس رات کو روزانہ کے حساب سے آمد ورفت بھی نہیں ہوئی اس رات کو صرف چند گاڈیوں کا روڈ پر گزرنا ہوا ۔۔۔۔۔زلزے کے دوران ایک گاڈی استور سے گلگت دوسری گاڈی جو گلگت سے استور کیطرف آرہی تھی ۔۔۔۔استور سے گلگت جانے والی گاڈی زلزے کے ٹائم سے پہلے تھلچی پل کراس کر چکی تھی۔ جبکہ گلگت سے استور آنے والی تین سے چار مسافر پر سوار کار دشکن کے مقام پر پہنچی ہی تھی تو اچانک زلزے کے جھٹکےآنے پر روڈ پر پتھروں اچانک گرنے سے فوری گاڈی کو روک کر اپنے آپ کو محفوظ کر نے میں کامیاب ہوٸے ۔۔۔۔۔۔۔ڈوٸیاں پولیس چوکی میں ڈیوٹی دینے والے پولیس اہکار نے بھی اپنے آپ کو بچا کر محفوظ جگے پر منتقل ہوٸے ۔۔۔۔زلزے کی تباہی سے استور ویلی روڈ ایک ہفتے سے زیادہ دن بند بھی ہوا ۔۔۔۔۔۔پاک آرمی اور ضلعی انتظامیہ نے ملکر کر متاثرین روڈ کی بحالی اور امداد ی سامان پہنچانے پر کلیدی کرادر ادا کیا اور ویلی روڈ کو کٸی دنوں بعد کھولنے میں کامیاب ہوئے ۔۔۔۔روڈ بند ہونے کی وجہ سے استوری عوام کو کٸ مشکالات میں اضافہ ہوا تھا ۔۔۔۔۔ کمونیکشن نظام برُی طرح متاثر ہوا اور آج بھی نیٹ ورک کی خرابی سے صارفین ڈسٹرب ہیں ۔۔۔۔۔لیکن آج بھی زلزے سے متاثر ایریاز کے لوگ اس شدید برف باری اور خون جما دینے والی سردی میں باہر کھلے آسمان تلے ٹینٹوں کے اندر رہنے پر مجبور ہیں ۔۔۔۔۔حکومت نے جو امدادی سامان ان متاثرین تک تو پہنچایا لیکن اس سے پورے متاثرین مستفید نہیں ہوئے ہیں ۔۔۔مذید امداد کے لیے حکومت اپنی تمام وساٸل کو بروکار لاتے ہوٸے اپنی سرگرمیوں میں جار ی ہے ۔۔۔ لیکن استور ضلعی انتظامیہ کے پا س وہ وساٸل موجود نہیں جو ضلع کے اندر موجود ہونا چاٸیں ۔۔جسمیں سب اہم کرادر محکمہ ڈیزاسٹر کا ہے۔۔۔۔سعودی عرب کے بادشاہ سلمان کیجانب سے سٹیٹ ڈویلپمنٹ آرگناٸزیشن پاکستان کے تھرو، پاک آرمی محکمہ ڈیزاسٹر ، ضلعی انتظامیہ و دیگر کیجانب سے متاثرہ خاندان کو ریلف بھی دیا گیا ۔۔۔متاثرہ لوگوں کا کہنا ہے کہاابھی تک زلزوں کے جھٹکے مین متاثرہ آیریا میں جاری ہیں ۔۔۔۔۔۔۔زلزے سے استور ویلی روڈ بند ہونے کی وجہ سے پاک آرمی نے تین دن تک ہیلی کاپٹر ریسکو سروس مہیا کیا جسمیں مریض ، ملازم و دیگر کو محفظوظ مقام تک پہنچانے میں بہتر خدمات سر انجام دیا ۔۔۔۔ناظرین ا ب آپ کا بتا تا چلوں اس قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے کٸی سالوں سے ہلال احمر کا ادارہ گلگت بلتستان سمت ضلع استور میں بھی کام کر رہا تھا ۔۔۔لیکن سوال یہ اٹھاتا ہے ۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔ ہلال احمر کا دوسال قبل استور میں ضلعی آفس بھی ہو ا کرتا تھا جسمیں ایک DMO باقاعدہ طور پر مراعات کے ساتھ اپنی خدمات سر انجام دے رہا تھا ۔۔۔۔؟ دو سال سے زیادہ کا عرصہ بید گیا ۔۔استور سے ہلال احمر (PRCS)کے محکمہ کو ختم کیا گیالیکن تاحال دوبارہ استور میں اس کا وجود تک نہیں ۔۔۔۔۔؟ استور میں ہلال ا حمر گلگت بلتستان کا ضلع استور میں آفس تو دور کی بات ہے ابھی تک کوئی بندہ تک موجود نہیں جو اس طرح کے ہنگامی حالات میں رپورٹ کر سکیں ۔۔۔۔ صوبائی حکومت فوری طور پر اس ایمرجنسی حالا ت میں ہلال احمر کو استور میں بحال کر نے کے لیے فوری اقدامات کرنا چائیں ۔۔۔۔۔؟۔۔۔اور اس کے لیے منتخب ممبران کو بہتر کرادر ادا کرنا ہو گا ۔۔۔ کئی سالوں سے استور میں رن آفس کو اچانک استور سے سب سٹم کو کیو بند کر کے ختم کر دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔کیا استور میں رہنے والے لوگ انسان نہیں ۔۔۔یا۔۔۔ پھر کسی سیاسی کا ہاتھ تو نہیں آفس کو ختم کرنے میں ۔۔ گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ قدرتی آفات کا ضلع استور کی عوام کو سامنہ کرنا پڑتا ہے ۔۔۔؟۔۔۔اس طرح کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ڈیزاسٹر سے منسلک اس طرح کے اہم اداروں کے آفسس ضلع کے اندر موجود ہونا لازم ہے ۔۔۔قائرین بتاتا چلو اس کی واضع مثال موجودہ حالات ہیں ۔۔۔۔۔ناظرین اس طرح کے ہنگامی حالت میں استور میں اس محکمے کے اندر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے امدادی سامان کا ایک بہت بڑا اسٹاک موجود ہوتا تھا۔۔۔۔لیکن وہ اسٹاک کہاں غائب ہوا۔۔۔۔۔کیا وہ اسٹاک کے اندر موجود ایٹمز کرپشن کا شکار ہوا کیا ۔۔۔۔ اگر کرپشن کا شکار نہیں ہوا تو وہ ضلع میں موجود اسٹاک کا سامان صوبائی مرکزی آفس میں موجود ہونا چاہیٸے۔۔۔۔یا پھر۔۔۔۔؟ ضلع استور آفت ذدہ ضلع ہونے کے باوجود کیو اس اہم ادارہ کا آفس کو یہاں سے ختم کر دیا گیا اس طرح کے مختلف سوالات عوام کی زہنوں میں گردش کرتی ہیں ۔۔۔۔۔صوباٸی حکومت فوری طور پر آفس کے قیام کے لیے جلد اقدامات کریں ۔۔۔۔زلزے سے متاثر ہونے کے بعد استورویلی روڈ سمت دیگر مساٸل میڈیا، حکومتی ادارے ، سیاسی و سماجی شخصیات سمت سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ سمت دیگر نے وقتاً فوقتاً قاٸرین کو اگاہ کرتے رہے ۔استور ویلی روڈ کو جو ہی ٹریفک کے لیے بحال کر دیا اور زلزے سے متاثر ین کو حکومت نے اپنے تمام وساٸل کو بروکار لاتے ہوٸے امداد ی سامان کم یا زیادہ پہنچانے میں کامیاب ہوٸے ۔۔۔۔استور ویلی روڈ جو ہی ٹریفک کے لیے بحال کیا اس کے 3 سے 4 دن بعد ایک اور امتحان سے گزرنا پڑا وہ قدرتی امتحان شدید اور ریکارڈ برف باری ہے ۔۔۔۔ لوگ پہلے سے زلزوں کی ضد سے پرشیان تھےلیکن بدلتاہواموسم نے اچانک مزید عوام کو
مساٸل کا شکار بنایا ۔۔اس شدید اور ریکارڈ برف کی وجہ سے لوگ گھروں تک محصور ہو کر رہے گٸے ہیں ۔۔ نظام زندگی برُی طرح مفلوج ہو گٸی ۔۔۔۔ شدید برف باری اور برفانی تودوں کا گرنے سے جانی و مالی نقصان بھی ہوا ۔۔۔۔ جس میں استور منی مرگ تھلی پر جانی نقصان ہوا اور پاک آرمی کے نوجوان نے ملک کے سرحدوں کی حفاظت کر تے ہوٸے ڈھمبو کے مقام پر برفانی تودے کی زد میں آکر اپنی جانون کا وطن اور قوم کی حفاظت کرتے ہوٸے جام شہادت نوش کیا ۔۔۔زلزے سے کوٸی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن مالی نقصان ضرور ہوا ہے ۔۔۔لیکن شدید برف باری کی وجہ سے جانی و مالی دنوں کا نقصان ہوا ۔۔۔۔۔برف باری کے بعد خون جما دینے والی سردی کی شدت میں مذید اضافہ ہوا جسکی وجہ سے متاثرین زلزہ زدگان کے لوگ اور استوری عوام کو مزید پرشیانی اور مساٸل کا سامنے کرنا پڑا ۔۔۔۔۔شدید برف کی و جہ سے گورنمنٹ نے سونو ایمرجنسی بھی نافذکیا ۔۔۔؟۔۔۔ لیکن سونو ایمرجینسی کےنافذ کرنے کے فواٸد و نقصانا ت کی تفصیل مذید اس چھوٹی سی تحریر میں ملاخط فرماٸینگے ۔۔۔برف باری کی وجہ سے استور کے بالائی علاقوں سمت استور ویلی روڈ کا زمینی رابطہ ملک کے دیگر شہروں سے منقطع ہوا ۔۔۔اور لوگ گھروں تک محصور ہو کر رہے گئے ہیں ۔۔۔۔برف کی وجہ سے بالائی علاقوں کے زمینی رابطے ، کمونیکشن نظام و دیگر مساٸل کی وجہ سے نظام زندگی مفلوج ہو کر رہے گٸی ۔۔۔ ابھی تک بونجی اور ڈوٸیاں کے مقام پر زلزوں کے جھٹکے جاری ہیں۔۔۔لو گوں کو مسائل کا سامنہ ۔۔۔۔اب آپ کو بتا تا چلوں گورنمنٹ نے سونو ایمر جینسی تو نافذ کیا ۔۔۔۔لیکن اس حکومتی سونو ایمر جینسی کا نافظ کرنے سے کیا فاٸدہ ہو سکتا ہے ۔اس حوالے سے بھی قاٸرین کو اگاہ کرینگے ۔۔۔۔۔سونو ایمرجینسی کامقصد خدا نہ کریں کسی بھی ناخوشگوار واقع پیش آنے کی صورت میں حکومت کا کام ہے وہ فوری ریسکیو آپرشین شروع کر ے گی اور متاثر جگے کے لوگوں کو محفوظ مقام منتقل کرنا و دیگر سہولیات فراہم کرنا زمہ داری ہے ۔۔۔کیو نکہ حکومتی اداروں میں لاکھوں ملازم کو تنخواہیں مراعات اس بات پر ملتی ہے ۔۔ دوسری جانب کوٸی بھی ناخوشگورا واقع کی فوری اطلاع کے لیے ڈپٹی کمشنر آفس میں اطلاع کے لیے کنٹرول روم بھی قاٸم کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔خدا نخواستہ اگر ایسا کوٸی واقع جہاں کمونیکشن نظام ہی نہیں وہاں پیش آیا تو بروقت اطلا ع دینے کے لیےلوگوں کو پرشیانی کا سامنہ بھی ہے ۔۔۔نا خوشگوار واقع پیش آنے کی صورت میں ضلعی انتظامیہ کے پاس وہ وساٸل موجود نہیں جو فوری طور پر ریسکیو کریں۔۔۔۔۔۔ اس کی واضع مثال موجودہ شدید برف میں سے استور کے زمینی رابطے منقطع ہوٸے جس کی بحالی کے لیے ضلعی انتظامیہ نے کٸی دنوں بعد استور ویلی روڈ ، اور بالاٸی علاقوں کے رابطہ سٹرکیں رٹو اور گدٸی تک کھولنے میں کامیاب ہوٸے ۔۔۔۔لیکن وہ بھی ون ساٸیڈ برف کو ہٹا کر 4×4 کی مخصوص گاڈی جس میں ویگن اور جیب گاڈی کے لٸے بحال کر دیا گیا ہے ۔۔۔۔ لیکن زیادہ تر جگوں میں دنوں اطراف سے گاڈیوں کا گزرانا ہو ا تو مخاطب سمت سے آنے والی گاڈی کو ساٸیڈ کراس کے لیے گاڈی سے اتر کر تکلیف کا سامنہ کرنا پڑتا اور وقت کاضاٸع اور ایمر جینسی کوٸی مرض اگر گاڈی میں موجود ہوا تو زندگی کی بازی ہارنے کا سبب بن سکتا ہے ۔۔اس لیے جلد روڈ کو ڈبل وے بنایا جاٸیں ۔۔۔گدٸی سے چلم ، رٹو ایریا کے دور دراز علاقے گاوں میرملک ،مرمٸ ، کالاپانی و دیگر کٸی گاوں کے رابطہ سڑکیں تا حا ل بحال نہیں ہو سکی ۔۔۔۔اکثر ایریا کی عوام نے اپنی مدد آپ کٸی میل روڈ بحال کیا ۔۔۔ضلعی ہیڈ کوارٹر سے دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگ زمینی رابطہ تاحال بحال نہ کرنے پر ضلعی انتظامیہ پر برہمی کا اظہار ۔۔۔۔ سونو بونڈ اور دور افتادہ ایریاز میں بسنے والی عوام کا ان حالات میں مساٸل کا سا منہ کرنا پڑتا ۔۔۔جسکی وجہ سے ان کا حق بنتا و حکومت کو تنقید کا نشانہ بناٸے ۔۔ان حالت کے علاوہ اس جدید دور میں بھی بنیادی سہولیات تعلیم،صحت روڈ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔۔سونو بونڈ ایر یا ز میں بسنے والے لوگوں کو ایمرجینسی حالات میں مریض کو کٸی میلوں کی مصافت پر چار پاٸی میں اٹھا کر لانے پر بھی مجبور ہیں ۔۔۔جس میں سب سے زیادہ مساٸل حاملہ خواتین کو سامنہ کرنا پڑتا ۔۔۔ ماضی میں بھی کٸی مقامات پر حاملہ خواتین کو محفوظ مقام پر زمینی رابطہ منقطع ہونے کی وجہ سے نہیں پہنچا سیکں جس کی وجہ سے کٸی خواتین زندگی اور موت کی کشمکش میں اس دنیا فانی سے رخصت ہوٸی ۔۔۔سالانہ خواتین کا شرح اموات میں اضافہ ہوتا ۔۔۔ ضلع استور میں حلقہ نمبر 1 کے لوگوں کو سب سے زیادہ مساٸل کا سامنہ کرنا پڑتا ۔۔۔۔استور حلقہ نمبر 1 تحصیل شونٹر میں صرف آفس میں کاغذ ی کارواٸی اور رپورٹس پر کام کے علاوہ اس طرح قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیٸے کوٸی مشینر ی موجو د تک موجود نہیں ۔۔۔تحصیل شونٹر ان حالات میں ہیڈ کوارٹر سے روڈ بحالی اور مشینری کا انتظار کرتے کٸی دن گزر جاتے ہیں ۔۔میں اپنی ایک تجویز دینا چاہتا ہوں ۔۔۔ضلعی انتظامیہ کو چاہیٸے تحصیل شونٹر کے اندر جی ڈی ایم اے آفس یا پالیسی کے تحت کسی اور ادارہ کا قیام عمل میں لانا چاہیٸے اور تحصیل شونٹر میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے الگ مشینری کا انتظام کے لیے کوٸی اقدام کرنا چاٸیں ۔جس کے لیے صوباٸی حکومت کو اپنی سنجیدگی دیکھانا پڑے گا اور بالخصوص سیاسی نماٸندے اور منتخب ممبر کو بہتر رول پلے کی ضرورت ہیں ۔۔تاکہ استور کے دنوں حلقے کے لوگ متاثر نہ ہو ۔۔ضلع استور میں اب تک روڈ بحال کرنے میں سب زیادہ کرادر محکمہ ڈیزاسٹر محکمہ ورکس کی مشینری ہے ۔۔موجودہ حالات میں استور ویلی روڈ پر کام کرنے والے تمام عملہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہو ں جہنوں خطرے کی حالت میں بھی روڈ بحالی کے لیے اہم کرادر ادا کیا ۔۔اور میونسپل ٹریکٹر کی کار کردگی بھی قابل تعریف ہے ۔۔۔۔عوام کو یہ بتا تا چلوں ضلعی انتتظامیہ کے پاس ہیوی مشینری موجود نہیں ۔۔۔ محکمہ ورکس اور محکمہ ڈیزاسٹر کا ڈوزر اور ٹریکٹر سے روڈ بحالی کا کام کیا جاتا ۔۔۔لیکن استور ہیڈ کوارٹر سے دور دراز علاقوں کے روڈ میں سفر کرنا چڑھاٸی ہی چڑھاٸی کا سامنہ ہے ۔۔۔دوران کام چڑھاٸی کی وجہ سے میشنری کا بار بار پھسلنا وقت کا ضاٸع ہے۔۔اور گھنٹو ں کی جگے میں دن لگتے ہیں ۔۔ اور کٸی جگوں میں ڈوزرکوپھسلنے کی وجہ سے ٹریکٹر کا سہارا لے کر
کام کرنا پڑا ۔۔۔۔ضلعی انتظامیہ کے پاس بھاری مشین اور ہیوٸی مشینری موجود ہوناچاٸیے ۔۔ضلعی انتظامیہ کے جو مشینری ہے وہ صرف استور ویلی روڈ ، حلقہ نمبر 2 کے لیے کام کریگی یا حلقہ ون کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر دنوں حلقے میں کام کرینگے تو روڈوں کی بحالی کے لیے کٸی دن لگ جاتے ہیں ۔۔۔جسمیں حلقہ ون تحصیل شونٹر کے پاس الگ مشینری کا موجود ہونا اہم ضرورت ہے ۔۔۔۔تاکہ روڈ کی بحالی اور ہنگامی حالت میں انتظامیہ کو پرشیانی کا سامنہ بھی نہ ہو ۔۔۔عوام کو یہ بتا تا چلوں انتظامیہ کے اپنے تمام وساٸل بروکار لاتے بھر پور کوشش کر رہی لیکن وساٸل کا شکار ہونے کی وجہ سے کٸی دن اس طرح کے حالات میں برف کو روڈ سے ہٹانے میں لگتےہیں ۔۔۔۔صوباٸی حکومت استور میں مذید ہوی مشینر ی کے لیے اقدامات کریں ۔۔۔موجودہ بدلتے ہوٸے ماحولیاتی نظام میں مزید بھی آگے مساٸل کا سامنہ نہ کرنا پڑیں ۔۔۔۔ استور ضلع میں یہ کوٸی پہلی برف باری نہیں ضلع استور زیادہ تر سونو بونڈ ایریا پر مشتمل ہے ۔۔۔سوا ل یہ اٹھاتا حکومت سالانہ اس طرح کا حالات کا سامنہ کرنے کے باوجود مذید اقدام کیوں نہیں کر رہی ہیں ۔۔ عوام کا وزیر اعلی گلگت بلتستان ، فورس کمانڈر FCNA ، چیف سیکرٹری کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی اپیل اور جن علاقوں کے زمینی رابطے منقطع ہے اس کے لیے حکومت ہیلی کاپٹر ریلف سروس دے کر ایمرجینسی مریضوں کو محفوظ مقام پہنچانے کے لیے اقدامات کی ضروت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔