مقصدِ حیات- اخوان الصفا کی نظر میں
تحریر: کریم مدد
تاریخِ انسانی کے ہر دور میں جس سوال نے بڑے بڑے اذہان کو جواب تلاشنے پہ مجبور کیا وہ یہ ہے کہ دنیا میں انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ سوچنے والوں نے اپنے اپنے انداز سے اس سوال کو سلجھانے کی کوشش کی ہے. مذہبی گروؤں اور فلسفیوں کے لیے خاص طور پر یہ سوال اہم رہاہے
اسلامی دنیا میں مذہب اور فلسفے کے درمیان مفاہمت کی بنیاد ڈالنے والی جماعت اخوان الصفا نے اس اہم سوال کا نہ صرف جواب تلاش کیا بلکہ اس جواب کے نتیجے میں متعین مقصدِ حیات کو پانے کے لیے ایک مربوط اور قابلِ عمل نظام اپنے مشہور و معروف رسائل میں پیش کر دیا ہے.
اخوان الصفا کا خیال ہے کہ جس طرح شعاعوں کا ماخذ سورج ہے, عدد ایک (1) سے عدد دو (2) اور عدد دو سے عدد تین (3) اخذ ہوتا ہے اسی اصول کے تحت یہ دنیا بھی اپنے تخلیق کار ” الباری” سے وجود میں آئی ہے. اپنے اصل سے وجود میں آنے کے اس اصول کو اخوان نے "فیض” کا نام دیا ہے. وہ کہتے ہیں کہ واجب الحکمت کا تقاضا ہے کہ "الباری” اپنے فیوض کا اظہار مختلف درجات میں کرتا ہے. اسی فیاضی کے نتیجے میں عقلِ کُلّی, نفسِ کُلّی اور ہیولا اُولیٰ وجود میں آئے. ہیولا اُولٰی کا اظہار الطبیعات (اصولات فطرت), جسمِ مطلق, افلاک, ارکان ( جس میں چار عناصر ہوا, پانی آگ اور مٹی شامل ہیں), دنیا اور اس میں موجود اشیا یعنی, حیوانان, نباتات اور جمادات کی صورت میں ہوتا ہے.
جمادات تخلیق کا سب سے نچلا درجہ ہے. ان جمادات میں سب سے بلند درجے پہ فائز شے نباتات کے سب سے نچلے درجے پہ موجود شے کے ساتھ متصل ہوتی ہے. (جیسے کورل ایک معدن ہے جو پودے کی طرح اگتی ہے) نباتات میں سب سے اونچے درجے پر موجود پودہ حیوانات کے سب سے نچلے درجے پہ موجود جانور کے ساتھ اتصال میں آتا ہے. اسی طرح حیوانات میں بلند ترین درجے پر موجود باالآخر نفس جزویہ کا حامل انسان کا درجہ پاتا ہے جو دراصل منطقی ذہن ہے. انسانیت مرشدِ زمانہ کی صورت اپنے عروج کو پا لیتی ہے جو کامل انسان ہے اور جو اس روئے زمین پر اللہ کا خلیفہ اور نمائندہ ہوتا ہے. یہی کامل انسان عالمِ قدس کی روحانی مخلوق ملائک سے رابطے میں ہوتا ہے.
انسانی زندگی کا عظیم ترین مقصد اس جزوی روح کا اس کے اصل کے ساتھ دوبارہ شامل ہونا ہے. یہ مقصد مختلف درجات میں حاصل ہوتا ہے.
رسالۂ عشق میں اخوان الصفا لکھتے ہیں کہ اس مقصدِ عظیم کو حاصل کرنے کے عمل میں عنایتِ الہی تمام مخلوقات کے ساتھ ایک خاص نظام کے تحت جڑی ہوئی ہے.اس نظام کے مطابق بلند درجے پر موجود ہر مخلوق نچلے درجے پر موجود مخلوق کو اپنی جانب اوپر کھینچتی ہے. تمام مخلوقات اپنی ذات میں عِلّت و معلول (Cause and Effect) کی حامل ہوتی ہیں. ہر مخلوق اپنے سے نچلے درجے کی مخلوق سے تعلق کی بنا پر علت اور اپنے سے اونچے درجے پر موجود مخلوق سے تعلق کی بنیاد پر معلول ہے. مثال کے طور پر والدین اپنی اولاد کے لیے علت ہیں اور اولاد والدین کے لیے معلول لیکن یہی اولاد جب والدین کے درجے پہ آئیں گی تو اپنی اولاد کے لیے علت ہوں گی. معلول ہمیشہ علت پر انحصار کرتا ہے اور علت کے لیے ایک خاص قسم کی کشش اور احساس رکھتا ہے جو عشق کہلاتا ہے جواباً علت معلول کے لیے رحم اور مہربانی کے احساسات رکھتی ہے. ایک دوسرے پر انحصار اور باہمی ضرورت ہی اس نظام کو جاری و ساری رکھنے کی وجہ ہے.
علت, معلول کو اپنے درجے تک اوپر اس لیے کھینچتی ہے تاکہ وہ خود یعنی علت وہاں سے بلند درجے تک رسا ہو سکے. پودے, جمادات کو جذب کر کے اپنے وجود کا حصہ بناتے ہیں. پودے جانوروں کی خوراک کی شکل میں ان کے وجود کا حصہ بنتے ہیں جب کہ انسان جانوروں کو اپنی غذا بنا کر اپنے وجود کا حصہ بنا لیتے ہیں. یوں بلند درجے پہ موجود مخلوق نچلے درجے کی مخلوق کو اوپر ک جاتی ہے اور اشیا اپنے درجے سے بلند شے کے وجود کا حصہ بنتی جاتی ہیں یہاں تک کہ وہ انسانی وجود کا حصہ بنے. اور انسان وہ مخلوق ہے جس کو عقل عنایت کی گئی ہے, جس کو یہ قوت ودیعت کی گئی ہے کہ وہ مرشدِزمان کے ذریعے دنیا میں رائج اللہ کی دعوت قبول کر سکے اور جس میں یہ خصوصیت ہے کہ وہ اپنے اصل میں واصل ہو..
نوٹ: رسائل اخوان الصفا اور فلاسفی آف اخوان الصفا اس مضمون کے بنیادی ماخذ ہیں