کالمز

سلطان شاہ، چترال کی سحر انگیز شخصیات میں سے ایک

شمس الحق قمر

میری اور سلطان شاہ صاحب کی ملاقات ایک اتفاق تھی۔  ہمارے بیچ 30 سالوں کا فاصلہ حائل رہا تھا  اس کے با وجود بھی اُن کا دل لُبھانے والاخط و خال میرے ذہن کےنہاں خانے میں محفوظ تھا ۔ میری 30 سالوں کے بعد جب اُن سے ملاقات ہوئی تو  آپ ایک خوفناک جیب حادثے سے بال بال  بچنے کے بعد ایک ٹانگ کی فطری تزلزل میں تھوڑے سے فتور پر خراماں خراماں چلنےلگے  تھے  جسکا مجھے علم نہیں تھا – موصوف کبھی کبھار احتیاط کے طور پر چھڑی کا استعمال کرتے ہیں ۔ یہ چھڑی اگرچہ حفاظتی اقدام کے طورپر ساتھ رکھتے ہیں لیکن اس سے آپ کی شخصیت اور بھی نکھری نکھری معلوم ہوتی ہے ۔ سرو کی مانند اُنچا مگر تعظیماً خمدار قد کاٹھ ،بیضوی چہرہ، قدرے طویل ناک ، رخساروں پر مسکان کی چھوڑی ہوئی ہلکی سلوٹیں  جوکہ گلاب کی پنکھڑی کے نرم نازک رگوں کی طرح آنکھوں کے حلقوں سے ٹھوڑی کی جانب جھکی  ہوئیں  ، کشادہ ماتھا ،  کمان دار آبروسیاہی سے سفیدی کی جانب رو بہ سفر بال جن کے اوپر چترالی اُونی ٹوپی کی سجاوٹ ۔  مصافحہ فرمائےتو اُن کے ہاتھوں کے  لمس سے پھوٹنے والی محبت کی لہریں آپ کے رگوں سے دوڑتے ہوئے دل میں پیوست ہو جائیں ۔ گفتگو فرمائے تو گل افشانی کا گمان ہو  تو سمجھ لیں کہ وہ سلطان شاہ بھائی ہیں ۔ آپ سے ملنا اور آپ کا مہمان بننا زندگی کا ایک ان مٹ خوشگوار تجربہ بن کے یادوں کی تہہ خانے میں ہمشہ کےلئے امر ہو جاتا ہے ۔  دوست تو دوست ہیں لیکن یہ اجنبیوں سے بھی کچھ اس ادا سے  پیش آتے ہیں کہ ہر  ملنے والا آپ کی محبتوں کا مقروض بن  کر رہ جاتا ہے۔ مشکل یہ کہ آپ اُن کی دی ہوئیں محبتوں کا شکریہ بھی ادا نہیں کر سکتے۔ وہ کہتے ہیں شکریہ تو مجھے آپ کا ادا کرنا چاہئے جو آپ نے  اس نفسا نفسی کے عالم میں ہمیں یاد کیا اور وقت دیا۔ مختصر بات  یہ کہ سلطان بھائی کے یہاں مہمان ٹھہر نے کے بعد سوچنا پڑتا ہے اصل انسانیت  میں بڑا حسن ہوتا ہے ۔ سلطان شاہ بھائی اپنے آپ کو بہت ہی عام آدمی سمجھتے ہیں لیکن گاؤں کے  لوگوں کی محبت اور حلقہ احباب کی وسعت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ  خاموش سمندر ہےجس میں گرنے کے بعد ہم جیسے ناتواں قطروں کو معلوم ہوتا ہے کہ ظرف کس چیز کا نام ہے۔ آپ کے گاؤں کے لوگوں نے آپ کو بھاری تعداد میں ووٹ دیکر اپنے لئے راہبر مقرر کیا پھر آپ کو ڈسٹرکٹ اسبملی کے اسپیکر کا عہدہ ملا ۔ آپ کی سیاسی  سوچ اور دیگر سیاست دانوں کی سوچ کا موازنہ  کرتے ہوئے آپ کواُسی کسوٹی پر پرکھنا آپکی سحر انگیز شخصیت کے ساتھ نا انصافی ہے ۔ کیوں کہ یہ عوام کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کو ترقی کا زینہ سمجھتے ہیں اور باقی لوگ جائز و ناجائز ذرائع سے اپنے پیٹ کو پالنے کو سیاست کے میزان میں تولتے ہیں ۔  یہاں ہمارا مقصد آپ کی سیاست سے زیادہ آپ کی شخصیت ہے ۔ میری جب ملاقات ہوئی تو میں مجھے اُن سے گفتگو کی سعادت بھی حاصل رہی ۔ اس گفگتو میں ہم نے آپ کی زندگی کے چند واقعات سنے جن کا تعلق آپ کے بچپن سے تھا ۔

 یہ سن 70 کی دہائی کی بات ہے جب موصوف نے کریم آباد کے گورنمںٹ پرائمری سکول سے پانچیں جماعتیں پاس کیں ۔ اُس زمانے میں کریم آباد میں پرائری سے آگے تعلیم  کی کوئی گنجائش موجود نہیں تھی ۔ یہاں سے پرائمری پاس کرنے کے بعد بچوں کو مڈل کی تعلیم کےلیے گرم چشمہ لے جایا جاتا تھا ۔ لہذا سلطان بھائی کے والد محترم نے اپنے بیٹے کو گرم چشمہ مڈل سکول میں داخل کیا۔ اور اوچھٔین لشٹ اویریک میں چاچی کے گھر رہائش اختییار کی ۔   مہینوں تک یہاں پڑ ھنے کے بعد چھٹیو پر جب گھر آئے  تو گاؤں کے ایک آدمی سے ملاقات ہوئی انہوں نے سلطان شاہ کی تعلیم کے بارے میں پوچھ کچھ کے بعد  فوری طور پر کراچی جانے کا مشورہ دیا ۔ اُن کی کراچی جا کر پڑھنے کی نصیحت دل پر یوں پیوست ہوئی کہ موصوف نے  آؤ دیکھا نہ تاؤ سب  چھوڑ چھاڑ کے کراچی جانے کی ٹھان لی ۔ صورت حال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے  چاچا زاد بھائی شکرت بیگ ( مرحوم ) نے  یہاں تک کہا کہ  تمہاری تمام کفالت کی میں زمہ داری اُٹھاؤں گا لیکن تم کراچی جانے کی ضد سے باز آنا  لیکن سلطان بھائی نے دل میں مصمم ارادہ کرلیا تھا دورسی بات یہ تھی  کہ اُن کی ڈکشنری میں واپسی کا کوئی لفظ موجود نہیں تھا  جو سوچتے تھے وہ  کر گزرتے تھے ۔  جب سلطان راہی شہر کراچی ہو کر کچھ دوستوں کے ہمراہ  پیدل شوغور  سے ہوتے  ہوئے  چترال شہر کی طرف نکلے تو یہ وہ زمانہ تھا جب چترال معاشی بد حالی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا  ۔  نشیبی چترال میں ایک رات گزارنے کے بعد سن چالیس کے  ماڈل کی ایک جیب کے پیچھے پورا دن کھڑے سفر کر کے دیر پہنچے۔ دیر میں بھی ایک رات بہر حال گزر گئی ۔ صبح  یہاں سے ایک سرکاری بس (جی – ٹی –ا یس ) میں سوار ہوئے جوکہ اجنبی مسافروں سے کچھا کچھ بھری ہوئی تھی سواریوں میں ننگے اور ادھا ستر ڈھانپے انسانوں کے علاوہ بھیڑ بکریاں ، مرغیویں کے علاوہ جانوروں کو راستے میں ڈالنےکےلیےچارہ بھی موجود تھا ۔ مسافروں کا جو حلیہ تھا وہ آج دنیا کے کسی بھی کونے میں نہں ملتا۔ کسی کا گریبان غائب تھا ، کسی کی قمیض آسین سے عاری تھی، کسی کا دامن نہیں تھا اور کوئی کپڑے کے ٹوٹوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ٹانک کے جسم چھپایا ہوا تھا ۔ یہ  بس ایسی ہی سواریوں کے ٹولے کو آٹھا کر روزانہ  تالاش کی پہاڑیوں کو چیرتی ہوئی نکلتی تھی ۔ چڑھائی چڑھتے ہوئے مرد اور جوان  مسافروں کو اُتارا جاتا اور میدانی علاقوں میں تمام مسافر مرغیوں کی طرح واپس اُسی ڈربے میں جاکے  بیٹھ جاتے ۔ اُس بس سے جو بدبو اُس وقت آتی تھی وہ آجکل ہمارے مویشی خانوں سے بھی سر زد نہیں ہوتی  لیکن ہم ہر لحظہ اللہ کا شکر ادا کرتے تھے کہ ہم  بس میں بیٹھے ہیں ایسا لگتا تھا کہ ہم سے زیاد عیش اور کون کر سکتا ہے زندگی تمام مصیبت اور الام سے خالی معلوم ہو رہی تھی ۔ بلکہ یوں کہیے کہ

؎  نے تیر کماں میں ہے نہ صیاد کمیں میں. گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے

 یہ ڈربہ میرے لئے ایک وسیع و عریض اور چلنے والی دنیا کی مثال تھی ۔ بہر حال وقت گزرتا رہا اور بس چلتی رہی  آخر کار  ہم نے  پشاور میں "سرائے ” میں رات گزاری ۔  سرائے پشاور میں ہوا کرتا تھا تمام چترالی مسافر یہاں پڑاؤ ڈالتے تھے اور پھر اپنی روزی روزگار کی تلاش میں نکلتے تھے ۔ سلطان یہاں سے ریل گاڑی میں کراچی وارد ہوئے ۔ ریل گاڑی کے اسٹیشن پہنچنا بھی ایک انوکھی یاد تھی ۔ یہاں بچلی تھی ، پنکھے گھوم رہے تھے  ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس جگہے سے بڑھ کر زندگی کی تمام سہولتوں سے مزئین  دنیا میں اور کوئی  جگہ نہیں ہوگی ۔ اللہ نے اس جگہے کو اپنی تمام تر نعمتوں سے نوازا ہوا تھا ۔ خیر دنیا کی بہت ساری رنگ رلیوں کو دیکھتے ہوئے کراچی پہچنے تو کراچی کی وسعت  میرے لئے ایک لا متناہی کائینات سے کم نہ تھی ۔ یہ حشر کا عجیب میدان تھا۔ یہاں زندہ رہنا ایک معجزہ تھا اور یہ معجزہ اُس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا جب تک کہ کوئی نو وارد  زندہ رہنے کے لئے زریعہ معاش تلاش نہ کرے اور یہاں موصوف کا ذریعہ معاش اور غم روز گار کا علاج صرف اور صرف  کسی کے گھر میں کام کر کے ، برتن مانجھ کے اور کپڑے دھوکے زندہ  رہنے  تک محدود تھا ۔یہاں آکر تعلیم کی سوچ یکدم غارت ہوجاتی ہے  کیوں کہ تعلیم حاصل کرنے کےلئے پہلے زندہ رہنا ضروری ہے ۔

کراچی پلیٹنم کالونی میں یاسین کا ایک باسی رہتا تھا جن کے اُس کالونی کے مقامی لوگوں سےمظبوط مراسم تھے   اور یہ آدمی گویا ہمارے لئے نوکری  کا بہترین ذریعہ تھے ۔ اُن کے پاس لوگوں کے گھروں میں ملازمتوں کے حوالے سے  بڑی معلومات تھیں ۔ مجھے بھی اُن کے پاس لے جایا گیا ۔ قصہ مختصر یہ کہ مجھے ایک گھر میں ملازمت مل ہی گئی ۔ اُس گھر میں ایک انوکھی بات یہ تھی کہ ایک صندوقچہ تھا جس کے اندر ایک اور دنیا آباد تھی ۔ یہ اُس زمانے کا  بلیک اینڈ وائٹ 14 انچ کا ٹیلی وژن تھا ۔ جو کہ لکڑی کے ایک چھوٹے سے صندوق میں  پابند سلاسل  تھا دو چھوٹے کیواڑوں کے دروازوں کو ملا کر قفل لگا ہوا تھا  اور دوپہر چار بجے گھر کا مالک صندوق کے دروازے  کے دونوں کواڑ احتیاط سے  وا کر تے اور  ٹیلی وژن چل پڑتا اور مجھے لگتا کہ اس سے بڑی عیاشی دنیا میں اور کہیں موجود نہیں ہوگی۔   یوں جوہڑ کے منڈک کے دن اور راتیں گزرنی شروع ہوئیں ۔  دن کو گھر کے اندر ہلکا پھلکا مگر مناسب  کام کاج کرتا اور جب تھکاوٹ ہوتی تو  چار  بجے کے بعد ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھ کر وقت گزار دیا جاتا ۔ لیکن راتیں قیامت بن گر بیت جاتیں ۔ کبھی گھر کے کسی کونے پر اور کبھی کسی  سیڑھی کے نیچے میرا بستر ہوا کرتا تھا اور میں سوچوں کی وادی میں گم سم ہوجایا کرتا اور یوں  پو پھٹی  تھی ۔ یہ تھی میری زندگی لیکن "رب کے دربار میں دیر ہے اندھیر نہیں” اس جملے سے بڑا سچ دنیا میں اور کوئی نہیں ۔  ایک مہینہ گزرنے کے بعد میری ملاقات میرے ایک اور ہم جماعت مراد ، جو کہ اجکل فوکس میں کام کر رہے ہیں ، جو سوسوم سے میرا ہم مشرب و ہم  رکاب رہا تھا اور مجھ سے کچھ پہلے کراچی آیا ہوا تھا ، سے ہوئی ( دوستوں کے ذکر سے یاد آیا کہ وادی لوٹ کوہ کی سو اور عظیم شخصیات موصوف کے جگری دوستوں میں شامل ہیں  ڈاکٹر قیوم اور مرحوم اکرام شاہ  ۔ سلطان شاہ بھائی جب بھی ان دوستوں کے حولے سے بات کرتے ہیں تو  مرحوم اکرم شاہ کا ذکر چھڑتے ہیں ان کے صبر کا پیمانہ بھر آتا ہے ”  ۔ میں اور مراد  مل کے اتنے روئے کہ ہمارے دامن تر ہو گئے ۔ خوب روکے جب دل ہلکے کیے  تو انہوں نے کہا کہ گارڈن میں ایک جگہ ہے جہاں ایک نائٹ سکول ہے جس میں مفت پڑھائی ہوتی ہے اور ہمارے علاقے کے بچوں کے وہاں جانے کی خبریں  عام ہیں لہذا ہم کیوں نہ اُدھر کا رخ کریں  ہو سکتا ہے کہ قسمت جاگ اُٹھے ۔ یہ اسماعیلیوں کا جماعت خانہ تھا جہاں شام کے وقت مفت پڑھائی ہوتی تھی ۔ ہم گئے اور ہماری پڑھائی شروع ہو گئی ۔ کچھ دنوں بعد ہماری اندورنی صلاحیتیں آشکار ہوئیں اور ہمارے اساتذہ نے کہا کہ وہ ہمیں بورڈنگ میں داخل کریں گے جہاں سونا ، کھانا سب مفت ہوگا لیکن پڑھائی سخت  کوشی سےکرنی ہوگی دوسری  شرط یہ کہ بورڈنگ میں داخلے کےلئے ایک ٹسٹ سے گزرنا پڑے گا ۔ ہمیں  یہ شرط بھی منظور تھی ۔ امتحان میں بیٹھے اور  مضون آیا  ” تریچمیر ایک تاریخی چوٹی ہے ، اپنے خیالات کا اظہار کیجئے”  مضون آسان تھا لیکن پوچنھے کا انداز خوفناک۔ میں نے لکھنا شروع کیا ۔ مجھے آج کی طرح یاد ہے کہ میرا خط انتا  ترچھا تھا  کہ  کاغذ کی دائیں جانب پہلے سطر شروع کی اور جب جملہ ختم ہوا تو میں کاغذ کے آخر میں بائیں کونے کے کنارے پر پہنچا ہوا تا ۔ یہی انداز رسم الخط رہا اور مضمون پورا ہوا ۔ ترچمیر پر خوب اظہار خیال ہوا کیوں کہ میں ہی تھا جس کا جھونپڑا اسی فلک بوس چوٹی  کے دامن پر واقع تھا ۔

 ٹسٹ دیا اور کراچی کی فضأ نے اپنا تیور دکھاناشروع کیا اور میری صحت بگڑ گئی تو سیدھا سوسوم پہنچا ۔ یہاں کچھ دن گزارنے کے بعد  نواز بھائی کراچی سے یہ نوید لیکر پہنچے کہ ترچمیر  کی چوٹی مجھ پر مہربان  ہو گئی ہے ۔ لہذا میں  بھاگم بھاگ دوبارہ کراچی پہنچ گیا ۔ اس وقت سلطان بھائی کا بورڈنگ میں داخلہ ہوا تھا ۔

 ایس ایم ایس سکول سے   میٹرک کے بعد جب ایف ایس سی امتیازی نمبروں سے پاس کی تو  میڈیکل کالج میں داخلہ کےلیے ایک ہزار روپے کی ضرورت پڑی ۔ اس ایک ہزار روپے کی اطلاع سوسوم میں والد صاحب تک پہنچنے اور پھر وہاں سے ایک ہزار روپے کے کراچی پہنچنے تک شاید چھے مہینوں سے زیادہ  وقت گزر جاتا اور میڈیکل کالج میں فیس جمع کرنے کےلئے صرف ایک ہفتے کی مفلت تھی  ۔ سللطان شاہ بھائی کہتے ہیں کہ اسی کا نام وقت ہے وقت پر کام ہو تو قسمت بدل سکتی ہے ۔ لہذا سلطان شاہ کو صرف ایک ہزار روپے وقت پر نہ ملنے کی وجہ سے اپنا کیرئیر بدلنا پڑا ۔ کامرس کالج میں داخلہ لیا اور اچھے نمبروں سے بی – کام بھی مکمل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے سلطان شاہ صاحب سے صرف دس منٹ کی گفتگو کی درخواست کی کی کیوں کہ  صبح 8 بجکر 20 منٹ پر مجھے آغا خان ہائی سکول  سوسوم پہنچنا تھا ۔ ہم یہیں رک گئے اور میں نے وعدہ کیا کہ مئی 2020 تک اگر زندگی نے ہم دونوں کو مفلت دی تو بہت ساری  باتیں ہوں گیں ۔  اللہ سلطان شاہ بھائی کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button