تاج مغل کاحملہ اور سوملک کا قیدہونا
جاوید احمد
کہتے ہیں کہ سوملک کی ایک بہن کی شادی یاسین کے ایک حکمران فرمائش سے ہوئی تھی اور جب تاج مغل نے یاسین پر حملہ کیا تو فرمائش خان نے سوملک سے امداد طلب کیا توسوملک خود فوج لے کر یاسین پہنچ گیا اورتاج مغل کے فوج سے مقابلہ ہوا دونوں میں خوب گھمسان کی ر ن پڑی آخر کار بدخشانی فوج بھاگنے میں عافیت سمجھی اور سوملک اپنے تلفار یا تلی فار گھوڑے کے ساتھ ان کا پیچھا کرتا ہوا درکوت کے دربند کے قریب تک پہنچا تو و ہ خود بھی زخمی تھا اور اسکا گھوڑا تلفار بھی زخم سے چور ہو کر گر گیا تو دشمنوں نے پلٹ کر حملہ کیا اور اُسے گرفتار کر کے ساتھ لے گئے، لیکن مولوی حشمت اللہ اپنی کتاب تاریخ جموں کشمیر کے صفحہ نمبر 684 پر لکھتا ہے اس سے میں یہ معنی لیتا ہوں کہ سو ملک کوشکست ہوئی اور وہ قیدی بنایا جاکر بدخشان لے جایاگیا اور مزید لکھتا ہے وہ دو سال تک بدخشانیوں کے باورچی خانے میں لکڑیاں بہم پہنچانے کا کام کرتا رہا لیکن اسے گھوڑوں کی پہچان تھی جس کی وجہ سے اسے شاہی اصطبل کا داروغہ بنایا گیا اس نے ایک گھوڑے تلفار کا انتخاب کیا اور اس پر سوارہوکر بھاگ گیا اسکے تعاقب میں لوگ آگئے لیکن نہ پکڑ سکے،لیکن یاسین کے لوگوں سے روایت ہے کہ یہ کوئی رئیس شہزادہ تھا جو کہ بدخشانیوں کے تعاقب میں درکوت کے کوتل کے نزدیک دربند تک پہنچا مگر گھوڑا جو کہ تلفار تھا زخمی ہونے کی وجہ سے مر گیا اور وہ خود بھی زخمی حالت میں گرفتار ہو ا اور ساتھ بدخشان لے گئے اور انھوں نے اس کے گھوڑے کے بارے میں استفسار کیا تو اس نے بتا یا کہ اس کا گھوڑا تلفار تھا جس کی پرورش اس نے خود کی تھی اس بات پر اسے میر اخور یادوسرے الفاظ میں شاہی اصطبل کا داروغہ مقرر کیا گیا اور وہ گھوڑوں کی پر ورش پر مامورہوا اور ایک تلفارگھوڑے کاانتخاب کیا اور اس کی دیکھ بھال خودکر نے لگا اور جب وہ جوان ہو ا تو وہ کئی دنوں تک حکام کو ٹر خا تا رہا کہ میں دور دور تک اس گھوڑے کو دوڑاکر آزماونگا کہ کیایہ میرے گھوڑے کے برابر کاہو اہے کہ نہیں،پھر ایک دن واپس جانے کی بجائے وہ کوتل درکو ت سے فرارہو کر درکوت پہنچا اور پھر اپنے بہنوی کے گھر پہنچا لیکن بقول مولو ی حشمت اللہ، وہ گلگت چلاگیا
دوسری روایت میں یہ کہاجاتا ہے کہ جب وہ واپس یاسین آیا تو یاسین پر کسی دوسرے راجے کی حکومت تھی جب اس نے اس شہزادے کی کہانی سنی اور اسکے گھوڑے کو دیکھا تو اسکو یاسین کے حکمران نے اپنے شاہی اصطبل کاداروغہ بنایا اور پھر اس کے اولاد بھی یہ کا م کر تی رہی اور یاسین کی ایک قوم اس بات کی دعویٰ کرتی ہے کہ وہ رئیس ذادے ہیں لیکن اس واقع کے بعد وہ میر اخور مقرر کئے گئے اور لوگ ان کو مراخور کہتے ہیں (واللہ عالم بالصواؓ)
چونکہ وہ زمانہ ظلم و جبر کا تھا مفتوحہ علاقے کے لوگوں کو غلام بنایاجاتا تھا،فروخت کیا جاتا تھا اور ہو سکتا ہے کہ واقع ہی اس رئیس شہزادے کے ساتھ بھی ایساہی ہوگیاہو گا۔یہا ں ایک بات قابل توجہ ہے کہ شاہ رئیس خان راجہ نے جو تاریخ گلگت کے نام سے صرف اپنے آبا و اجداد کی تعریفیں لکھی ہے کا کہنا ہے کہ چترال میں جن رئیسوں کی حکومت تھی وہ بھی ان کے ابا و اجداد میں سے تھے اور اس نے با با ایوب جو کہ امیر تیمور صاحب قران کی اولاد میں سے تھا کی اولاد کو بھی برا بھلا لکھا ہے لیکن دوسر ی طرف چترال کے تاریخوں میں رئیس حکمرانوں کو بدخشانی یا ترکی النسل لکھا گیا ہے جو بد خشان سے حملہ کر کے چترال پر قبضہ کیا اور اپنی حکومت قائم کی اور پھر ان سے با با ایوب کے پوتے محمد بیگ کی اولاد نے حکومت چھین لی اور راجہ گی نظام کے اختتام تک حکومت کیا ان کی بعد میں تین شاخیں کٹورے، خوش وقتے اور برشے کے طور پر چترال سے چیلاس، اور چقن سرائے تک اور یاسین سے واخان تک مختلف ادوار میں حکومت کی لیکن 1939 ء میں راجہ میر باز خان کے خلاف یاسین کے لوگوں کی بغاوت کے بعد راجہ محبوب ولی خان نگری یاسین کا حکمران مقرر ہوا اور 1968 ء میں اپنی موت تک حکومت کرتا رہا اور اس کے موت کے بعد یاسین کے لوگوں نے چھ ماہ تک ہڑتال کیا اور نوہ بش (نوہ پل) پر ہتھیاروں سے لیس ڈیوٹی دیتے رہے کہ کسی راجے کو یاسین پر مسلط کیا گیا تو یاسین کے لوگ اس کو علاقے میں داخل نہیں ہو نے دیں گے سوائے راجہ غلام دستگیر خوش وقتیہ کے کوئی دوسر ا راجہ انھیں قبول نہیں اور پھر آ خر کار حکومت مجبور ہو کر یاسین سے راجگی نظام کا بساط لپیٹ کر پہلا تحصیلدار یاسین میں مقرر کیا اور اس طرح یہ تاریخ اپنی انجام کو پہنچا۔لیکن باقی پورے گلگت بلتستان سے راجہ گی نظام کو ذولفقار علی بھٹو نے 1974 ء میں ختم کیا لیکن ساتھ ہی ہماری شناخت گلگت بلتستان کو چھین کر شمالی علاقہ جات کانام دیا اور یہاں کے مکینوں کو گندم کی سب سڈی دے کر بھکا ری بنایا