اچھی خبریں
قبا ئلی علا قوں کے ضم شدہ اضلاع سے ا بھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ تا زہ اخبار کی دو خبریں دامن ِ دل کو کھینچ لیتی ہیں۔
ایک خبر یہ ہے کہ حکام نے 8سا لہ طا لب علم کی معصو مانہ خوا ہش اور تمنا پوری کرتے ہوئے اُن کو سر کاری گاڑی میں غلام خان کے مقام پر پا ک افغان سر حد کی چو کی کا دورہ کرا یا اور بخرو عافیت واپس ان کے گھر پہنچا یا۔ ایک اور خبر فر مت اثر یہ ہے کہ کہ بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجو کیشن پشاور نے پہلی بار وا دی تیراہ میں میڑک کے امتحا ن کا مر کز کھو لنے کی اجا زت دی۔ علا قے کے 500طلباء جمرود آنے کے بجائے تیراہ کے امتحا نی مر کز میں نویں اور دسویں جماعت کا امتحا ن دینگے۔ گو یا ہر روز 200سے لیکر 250کی تعداد کی تعداد تک نو نہال طلباء کو تیراہ سے جمرود آنا پڑ تا تھا اور خیبر ایجنسی کو جب تک ضلع کا درجہ نہیں دیا گیا تب تک اس قسم کی رعایت دینا محا ل اور نا ممکن تھا۔ ان علا قوں پر قبائلی علا جا ت یا فاٹا کا لیبل لگا کر فرض کر لیا گیا تھا کہ ان علا قوں میں کوئی علمی یا تعلیمی سر گر می نہیں ہو سکتیہے۔ سکو لوں میں بندوقوں کے سایے تلے پڑھنے والے نو نہالوں کو اگر امتحا نی مر کز دیدیا گیا تو زلزلہ آئے گا، طوفان اُٹھے گا اور قیا مت بر پا ہو گی۔
یہ رپورٹیں پو لٹیکل دفتر کے محّرر کی طرف سے بھیجی جا تی تھیں اور پشاور میں بیٹھے ہوئے حکام با لا ایسی رپورٹیں پڑھ کر ڈرتے سہم جا تے تھے اپنے پیچھے دروا زہ بند کرکے باہر مسلح گارڈ بٹھا کر فون پر دوستوں کو بتاتے تھے کہ ہم انتہائی خطرناک حا لات میں کام کر رہے ہیں حا لانکہ مال روڈ، فورٹ روڈ یا ورسک روڈ پشاور میں واقع دفتر کا نقشہ ایسا ہر گز نہ تھا جو دکھا یا جا تا تھا ویسے ایسا نقشہ تیرا ہ کی وادی کا بھی ہر گز نہ تھا جو کاغذوں میں باہر سے آنے والوں کو ڈرانے کے لئے دکھا یا جا تا تھا۔
انگریزوں کے زمانے میں سکندر مر زا پشاور میں بڑے عہدے پر فائز تھے۔ خیبر ایجنسی ان کی عملداری میں تھا۔ 50ہزار روپے فنڈ کا آڈٹ کرنے کے لئے دو انگریز آڈیٹر آگئے۔ سکندر مر زا نے دونوں کو اغوا کروا یا۔ وائسرائے ہند کو رپورٹ دی گئی وہاں سے حکم ہوا مغویوں کو ہر حا ل میں باز یاب کراؤ۔ 3دن بعد مغویوں کو آزاد کروایا گیا اور رپورٹ دی گئی کہ اغوا کاروں کو 50ہزار روپے کا بھتہ دینا پڑا۔ انگریز نے فنڈ کا آڈٹ رکوا دیا جہاں جان کے لا لے پڑتے ہوں وہاں آڈٹ کے کیا معنی ہوئے؟
اُسی دور میں پشاور سے لنڈی کو تل طورخم تک ریل کی پٹڑی بچھا ئی گئی جس دن ریل کا انجن پٹڑی پر ڈالا گیا اُس دن جمرود سے شاگئی اور لواڑ گئی تک پٹڑی پر رکا وٹیں ڈالکر راستہ بند کیا گیا۔ قبائل کا کہنا تھا کہ ہم نے پٹڑی بچھا نے کی اجا زت دی تھی انجن چلا نے کی اجا زت نہیں دی چنا نچہ انجن چلا نے کے لئے دوبارہ معا ہدہ کیا گیا یہ بھی قبائلی ملکوں کی پا لیسی نہیں تھی انگریزوں کے لئے کام کرنے والے کا لے افیسروں کی پا لیسی تھی اس لئے قبائل کے لئے بنا ئے گئے ہر قانون کو کا لا قا نون کہا جا تا تھا۔
اب کا لے قوانین کا سلسلہ ختم ہوا تو وادی تیراہ میں روشنی کی کرن نظر آگئی۔ 500طلباء کو ان کے گھر کے قریب پُر امن اور پر سکون ما حول میں امتحا نی سنٹر مل گیا اب قبائلی عوام اور با لائی حکام کے درمیان جھو ٹی رپورٹیں دینے والے حا ئل نہیں رہے شما لی وزیر ستان سے آنے وا لی خبر بھی تا زہ ہوا کے جھو نکے سے کم نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب فقیر ایپی اور ملا پاوندہ کے نا موں کا ڈنکا بچتا تھا۔ دونوں انگریزوں کے خلاف لڑنے والے مجا ہد تھے۔ وہ دور گزر گیا لیکن بنوں سے آگے سفر کرنے والوں کو اب بھی ڈرایا جا تا تھاکہ آگے خطر نا ک جگہ ہے۔ میر علی، میرانشاہ، دتہ خیل، غلام خان سے خدا بچائے ان علا قوں کا سفر دشمن کو بھی پیش نہ ہو۔ میر علی سے دتہ خیل تک وزیر، داوڈ اور محسود قبائل کے شیر دل بچوں کو ڈرا یا جاتا تھا کہ گھر سے با ہر نکلو گے تو زندہ واپس نہیں آوگے۔ اس طرح کے خوف اور دہشت کی جگہ اب محبت اورشفقت کا ایسا زما نہ آگیا کہ شمالی وزیر ستان کی تحصیل دتہ خیل کے مقام کوزمدا خیل کے 8سا لہ طا لب علم نے سکول کا دورہ کرنے والے افیسر کے سامنے معصومانہ خواہش کا اظہار کیا کہ مجھے غلام خان پر واقع سر حدی چو کی کا دورہ کرایا جائے۔ افیسر نے کہا بسرو چشم! اگلے روز پو لیس افیسر اور فو جی حکام نے سر کاری گاڑی میں لا ئق منا ن کو غلا م خان بارڈر پر سر حدی چو کی کا دورہ کرایا اُس کے سوا لات کے جواب دیئے اور نقشوں کی مدد سے بچے کو بتا یا کہ دو ملکوں کی سرحدی چو کیاں کیسی ہو تی ہیں سیکیورٹی اقدامات کیسے ہوتے ہیں سرحدی جھڑپ کی صورت میں کیا تدا بیر اختیار کی جا تی ہیں اور جنگ کی صورت میں کیا اقدامات ہو اکرتے ہیں۔ لا ئق منان اگر چہ پرائمیری سکول کی ابتدائی جما عتوں میں بیٹھتا ہے تا ہم اس کی ذہا نت اور قابلیت مثا لی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ 8سال کی عمر میں مو لا نا طارق جمیل اور ڈاکٹر عا مر لیا قت حسین کی طرح متا ثر کرنے وا لامقرر ہے۔ دوسروں کو تر غیب دینے والا مقرر اور خطیب ہے۔ محدود ذخیرہ الفاظ اور محدود مطا لعے کے با و جود جب وہ معزز سامعین کہہ کر اپنا خطاب شروع کرتا ہے تو سب کو حیراں کردیتاہے۔ پو لٹیکل ایجنٹ کا دفتر ایسے طلباء کو بولنے کی اجا زت نہیں دیتا تھا۔ اُس دور میں لیفٹنٹ جنرل علی محمد جان اورکزئی نے گورنر کی حیثیت سے سکولوں اور کا لجوں کے طلباء کی حو صلہ افزائی کے لئے قلم اور کتاب بھی تقسیم کئے۔ وہ جر گہ میں آنے والے نا خواندہ ملکوں کو بھی قلم کا تحفہ دیتے تھے اور کہتے تھے ”اپنے بچوں کو پڑھا ؤ یہ قلم کا زمانہ ہے“۔
لا ئق منان کی عمر اور اس عمر میں اُس کی صلا حیت و قابلیت کے بارے میں آنے والی خبر پڑھ کر دل چا ہتا ہے کہ 50سال پہلے وزیر ستان میں پو لٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے ڈیو ٹی دینے والے محقق اور سکا لر ڈاکٹر اکبر ایس احمد کی کتاب میژ (Migh) کا تحفہ اس نونہال کو پیش کیا جائے ہونہار بردا کے چکنے چکنے پات کا مقولہ ایسے نو نہا لوں پر صادق آتا ہے۔