میرا جسم میری مرضی
تحریر: ڈاکٹر محمد اقبال
وزیر تعمیرات گلگت بلتستان
پانچ سو سال قبل مسیح جب ایرانی بادشاہ دار یوش نے یونان جہاں سے مغربی تہذیب کا آغاز ہوا تھا پر حملہ کیا تو ایک خوف و ہراس پھیل گیا، خوف اس بات کا نہیں تھا کہ دار یوش ان کو قتل کریگا بلکہ ایرانیوں کو خواتین کو حقوق نہ دینے کی وجہ سے جاہل اور پسماندہ سمجھا جاتا تھا اور خوف تھا کہ مشرق سے آنے والے حملہ آور ان کے خواتین پر ظلم و تشدد کرینگے، پھر یونان کے مرد و زن نے مل کر داریوش کو جنگ میں شکست دیدی، اسی طرح مشرق وسطیٰ کے دیگر علاقوں میں جہاں اب عرب ممالک ہیں اپنی بیٹیوں کو زندگہ درگور کیا کرتے تھے، جنگ کے بعد خواتین کو کنیز بنا کر انکے جسم کا جائز و ناجائز استعمال اپنا حق سمجھتے تھے۔۔
گزشتہ چند روز سے ٹیلی ویژن پر عورت مارچ کے حوالے سے بحث و مباحثہ اور بعض مردوں کی جانب سے بد تمیزی دیکھ کر اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ ہم کیوں آج بھی عورت کے حقوق کے حوالے سے خوف اور تذبذب کا شکار ہیں۔۔؟ ایک طرف کہتے ہیں کہ مذہب نے عورت کو تمام حقوق دئیے ہیں او ردوسری سانس میں ہی مذہب کے نام پر عورت کے اوپر ہر طرح کی پابندیاں عائد کرنے کی بات کرتے ہیں، کیا عورت کو مرد کے برابر حقوق دینے سے مرد کے حقوق میں کوئی کمی واقع ہوجاتی ہے۔۔؟
میرے نزدیک عورت کو مرد کے برابر حقوق دینے سے نہ ہی مذہب کا اور نہ ہی ثقافت کا کوئی تعلق ہے بلکہ اس کے پیچھے مرد کا وہی ذہن کار فرما ہے جو زمانہ جاہلیت یعنی قبل مسیح میں مشرقی ممالک میں پایا جاتا تھا، مشرقی مرد، عورت کو اپنی پراپرٹی سمجھتا ہے اور اس کا ہر طرح کا استحصال کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے، آخر صرف اسلامی ممالک میں ہی عورت کے حقوق کے حوالے سے یہ خوف و ہراس کیوں پایا جاتا ہے۔۔؟ ظاہر ہے اس کے پیچھے اس طاقت اور بالادستی کے چھن جانے کا خوف ہے جو مشرقی معاشرے نے مرد کو عطا کی ہے اور خاص طور پر پاکستانی مرد کتنا غیر محفوظ اور خوفزدہ ہے کہ اپنی اس بالادستی کو بر قرار رکھنے کیلئے کبھی مذہب اور کبھی اقدار کا حوالہ دے کر عورت کو خاموش کرانے کی کوشش کرتا ہیا ور جو لوگ خواتین پر ہر طرح کی پابندی لگانے کی بات کرتے ہیں در اصل وہ ان کے اندر کا خوفزدہ انسان ہے جو عورت کو ضعیف اور کمزور کرکے اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے۔۔
دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات اظہر من الشمس کی طرح عیاں ہے کہ صرف ان معاشروں نے تعلیمی،اخلاقی، تہذیبی اور معاشی لحاظ سے ترقی کی ہے، جنہوں نے عورتوں کو مردوں کے برابر کھڑا کیا ہے اور اکثر مسلم ممالک آج اگر پسماندگی کا شزکار ہیں تو اس کے پیچھے خواتین کے حوالے سے یہی منفی سوچ کار فرما ہے، سوائے چند اسلامی ممالک جن میں ترکی، ملیشیاء اور اب بنگلہ دیش خواتین کو مردوں کے برابر لا کر ترقی کی راہ پرگامزن ہو چکے ہیں جبکہ وسری طرف مشرق وسطیٰ کے اکثر عرب ممالک اس جنسی نا ہمواری ( Gender Inbalance) کی وجہ سے تیل کی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود پسماندہ ہی کہلاتے ہیں، کوئی بھی عورت اپنی مرضی سے عورت پیدا نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مرد کو پیدا کیا ہے اسی طرح عورت کو بھی پیدا کیا ہے اور وہ اپنے وجود کے ساتھ وہ تمام انسانی حقوق بھی رکھتی ہے جو ایک مرد کو حاصل ہیں اور جس طرح ایک مرد کو اس دنیا میں اپنی صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ حاسل کرنے کا حق ہے اسی طرح عورت کو اپنے وجود کو بر قرار رکھنے کا پورا حق حاصل ہے۔۔
چند سال قبل ضلع غذر میں ایک ہی مہینے میں 12خواتین کی طرف سے خود کشی کی خبریں چھپ گئیں جس پر گلگت بلتستان اسمبلی نے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جسکے چیئرمین کی حیثیت سے میں نے پاکستان سے محققین کو دعوت دی اور ان سے حالات کا تذکرہ کیا اور دریافت کیا کہ آخر کار پڑھی لکھی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین نے خود کشی کا راستہ کیوں اپنا یا، وہ ماہرین تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ جس سوسائٹی میں خواتین کو تعلیم تو دی جائے مگر معاشرے میں ان پر پابندیاں لگاکر جگہ نہ دی جائے تو حقوق سے آگاہ پڑھی لکھی خواتین کے پاس خود کشی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا ہے، چونکہ غذر میں خواتین کو اعلیٰ تعلیم تو دی گئی مگر معاشرے میں ان کے وجود کو بحیثیت ایک آزاد انسان کے قبول نہیں کیا گیا، اس واقعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ انکو سوسائٹی کے اندر مرد کے برابر مقام دینے کی بھی ضرورت ہے اور اس کیلئے ہمارے معاشرے کی سوچ بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔۔
آج ہم جن معاشرتی بیماریوں کا شکار ہیں جن میں غربت، جہالت، تشدد، عدم برداشت، انتہا پسندی، بچوں سے جنسی زیادتی اور خاص کر خواتین کا غیرت کے نام پر قتل جس میں صرف گلگت بلتستان میں ہی 2000ء سے اب تک 200خواتین کی زندگیوں کا چراغ گل کر دیا گیا ہے اور ماشاء اللہ ان مولوی حضرات نے جو فرقوں کے نام پر قتل جیسے موضوع پر لب کشائی کرنے کی زحمت نہیں فرمائی ہے، انہیں سجھنا ہوگا کہ مندرجہ بالا تمام بیماریوں کا علاج صرف اور صرف عورت کو مردوں کے برابر حقوق دینے میں ہی مضمر ہے۔۔۔
گلگت بلتستان کے محکمہ ترقیات نے گزشتہ سالوں میں جی بی کے دس اضلاع میں ایک سروے کیا ہے جسکو ”MICS“ سروے بھی کہا جاتا ہے جس کے تحت گھریلو آمدنی، نومولود بچوں کی شرح اموات، زچگی کے دوران ادغام ہونے والی اموات اور آبادی میں شرح اضافہ شامل ہیں، اگر اس سروے کے نتائج پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ضلع ہنزہ اور ضلع دیامر میں بہت بڑا فرق ہے اور اس فرق کی اصل وجہ خواتین کی تعلیم ہے، اگر گھر میں خواتین تعلیم یافتہ ہوں تو نہ صرف مختلف قسم کی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے بلکہ آبادی پر بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے جبکہ گھریلو تشدد اور انتہا پسندی جیسی بیماریوں پر بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے جس کیلئے سنجیدہ اقدامات او کوششوں کی ضرورت ہے اور خاص طور پر خواتین کے اندر تعلیم کے ساتھ خود اعتمادی ضروری ہے اور ایک پر اعتماد ماں ہی اپنے بچوں کے ذہن میں مثبت سوچ کو اجاگر کر سکتی ہے اور ہم بہت سارے مسائل جو منفی سوچ کی وجہ سے جنم لیتے ہیں سے بھی بچ سکتے ہیں۔۔۔
”میرا جسم میری مرضی“کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ عورت جسم فروشی ہی کرنا چاہتی ہے بلکہ اس کا مقصد جس طرح مرد کو اپنے جسم کے اوپر پورا پورا اختیار حاصل ہے اسی طرح خواتین کو بھی اپنے وجود کے حوالے سے تمام فیصلے جن میں تعلیم، شادی، روزگار اور بچوں کے پیدائش وغیرہ شامل ہیں کے حوالے سے پورا اختیار حاصل ہے اور اس نعرے پر صرف وہی لوگ سیخ پا ہوتے ہیں جن کی اپنی سوچ مثبت نہ ہو اور وہ ہمیشہ سے منفی انداز میں ہی سوچتے ہیں تاکہ خواتین معاشرے میں کمزور اور پسماندہ رہیں اور خواتین کا ہر طرح کا استحصال جاری رہے۔۔
خلاصہ یہ ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی مردوں کوچاہئیے کہ وہ کو تخیلاتی دنیا سے نکل کر زندگی کے حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے خواتین کو بھی مردوں کے برابر لایئیں تاکہ ہمارے معاشرے میں بھی حقیقی معنوں میں ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے اور ہم بھی اقوام عالم میں اپنا مقام حاصل کر سکیں۔۔