اب کے ہم بچھڑے تو شاید کھبی خوابوں میں ملیں
رشید ارشد
یکم فرور ی دو ہزار بیس کا وہ منظر آ نکھوں میں بس سا گیا ہے کہ جناح ہسپتال کے وارڈ 6 اور بیڈ نمبر 25 پر میرے بڑے بھائی سالار صحافت حبیب الرحمن لیٹے ہوئے ہیں، گھڑی کی سوئیاں دن کا ڈیڑھ بجا رہی تھیں،میرے ہاتھ کی انگلیاں بھائی کے ہاتھ کے گرد گھوم رہی تھیں،میں محسوس کر رہا تھا کہ آج کے بعد شاید میرے ہاتھوں کو بھائی کی زندگی کی گرم سانسوں کی حرارت محسوس نہ ہو،میری آنکھوں کو بھائی کا نورانی چہرہ جس پر ہمیشہ مسکراہٹیں سجی تھے وہ نظر نہ آئے،جیسے جیسے گھڑی کی سیکنڈوں کی سوئی ٹک ٹک کرتی آگے بڑھ رہی تھیں ایسے ایسے بھائی کی حالت دیکھ کر میرا دل ڈوبتا محسوس ہو رہا تھا،
اچانک بھائی کے چہرے کی طرف میری نظر گئی تو دیکھا کہ جو ہونٹ چار دن سے نہیں ہل رہے تھے وہ ہل رہے ہیں اور بھائی کچھ پڑھ رہے ہیں، شاید وہ کلمہ پڑھ رہے تھے،پھر دائیں ٹانگ میں حرکت ہونے لگی جو چار دن سے بے جان تھی،میرے بہنوئی مولانا نصر اللہ جو میرے ساتھ تھے وہ کلمے کا ورد شروع کر چکے تھے،ایک منٹ کی جویہ کیفیت تھی، نیک روحوں کے اجسام کی جان کنی سے ناواقف لوگ سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید مریض کا حال اچھا ہے،دراصل یہ وقت دنیا سے رخصتی کا ہوتا ہے،اس کیفیت کو دیکھتے ہوئے میرا دل ڈوب رہا تھا،آنکھیں چھلکنے لگی تھیں، دل چاہ رہا تھا کہ زور زور سے رونا شروع کروں لیکن اپنے اوپرظبط کی کیفیت سوار کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگا،سوچا کہ میں رونے لگوں اور حوصلہ ہا ردوں تو بھائی کے بیٹے عثمان حبیب،علی حبیب، حسنین حبیب جو ابھی ہسپتال کے قریب پہنچے ہیں ان کا کیا حال ہوگا،اتنے میں دیکھا تو ڈاکٹر دل کی دھڑکنیں اور زندگی کی رمق ماپنے کی مشین لے کر آئے،مشین سے بھی حبیب بھائی کی زندگی کی سانسوں نے کہہ دیا کہ،اب کے ہم بچھڑے تو شاید خوابوں میں ملیں۔
میں فورا ہسپتال سے باہر کی طرف دوڑنے لگا،باہر آکر ایک دیوار کے ساتھ لگ کر ہچکیاں بھر بھر کر روتے ہوئے اپنے بھائی عبد البشیر کو کال ملائی،دوسری طرف سے بھائی کی آواز آئی،السلام علیکم،میری زبان سے بس اتنے ہی الفاظ ادا ہوئے،انا للہ و انا الہہ راجعون،فون کاٹ دیا سامنے دیکھا تو بھائی کے بیٹے پہنچ چکے تھے،اس لئے جو آنسو آنکھوں سے چھلک رہے تھے ان کا رخ دل کی طرف کر دیا،اور آنسووں سے کہہ دیا اب اندر اندر ہی بہنا شروع کرو،میں نے بھائی کے بیٹوں اور بھابی کو بھی حوصلہ دینا ہے،بھائی کے جسد خاکی کو اسلام آباد پہنچانا ہے۔اتنے میں ہسپتال کے وارڑ سے میرے بہنوئی مولانا نصراللہ آئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ ڈاکٹر آپ کو بلا رہے ہیں،
ڈاکٹر نے میرے سامنے بھائی کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر دستخط کے لیے ایک کاغذ اور پین آگے سرکایا۔ میں ترچھی نظروں سے ہسپتال کے اس بیڈ کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں، شاید وہ کوئی کروٹ لے لیں۔ شاید کہ میری زندگی میں پھر بہار آئے۔کچھ دیر تک میں اس سرکاری کاغذ کو دیکھتا رہا۔ ڈاکٹر کو بھی جلدی نہ تھی۔ پھر وہ خود ہی بولنے لگے کہ ہم نے کوشش پوری کی،لیکن موت کے آگے ہم سب بے بس ہیں،
میں نے کاغذ سے آنکھیں اُٹھا کر ڈاکٹر کو دیکھا جس نے اپنے تئیں انہیں بچانے کی کوشش کی تھی۔ پھر نظریں بیڈ کی طرف اُٹھ گئیں۔ مجھ سے اس کاغذ پر چند لکیریں نہیں کھینچی جارہی تھیں۔ شاید کہیں کوئی امید ابھی تھی۔ ہاتھ کاغذ کی طرف بڑھتا اور رک جاتا۔ میں نے آخری بار بیڈ کی طرف دیکھا جہاں حبیب بھائی کا بے جان جسم پڑا تھا۔ پھر امید بھری نظروں سے ڈاکٹر کو دیکھا، ڈاکٹر نے دھیرے سے نفی میں سر ہلایا۔ میں نے چپکے سے چند لکیریں ڈیٹھ سرٹیفکیٹ پر کھینچ دیں۔
زندگی امتحان لیتی ہے لیکن کچھ امتحان تو جسم میں صرف سانسیں چھوڑ کر تمام رعنائیاں چھین لیتی ہیں۔آج چالیس سے زیادہ دن گزرے ہیں مگر دل اور آنکھیں اسی جناح ہسپتال کے بیڈ نمبر پچیس کے ارد گرد گھوم رہے ہیں جہاں میری کل کائنات میرے باپ کی طرح کے بڑے بھائی سالار صحافت سینئر صحافی حبیب الرحمن جنہوں نے مجھے چلنے کا سلیقہ سکھایا زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔۔29جنوری کی رات بارہ بجے جب ایر پورٹ سے جناح ہسپتال پہنچا تو میری کائنات میرا سایا مجھ سے دور جانے کے لئے تیار تھا شاید میری ملاقات کا منتظر تھا۔سرہانے جاکر جب میں نے آواز دی۔ککا۔میں رشید ہوں۔ککا میں رشید ہوں۔ککا میں رشید ہوں۔ککا نے لب ہلانے کی کوشش کی لیکن ہلا نہ سکے آنکھوں سے دو آنسو گرائے۔۔۔ دو آنسو اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ مجھ سے میری کائنات کی جدائی کا وقت آ پہنچا ہے اور یہ زندگی کی آخری ملاقات ہے۔
وقت کے آئینے میں جھانک کر دیکھتا ہوں تو مجھے آج بھی حبیب بھائی کی جدو جہد نظر آرہی ہے،میں نے ایک دفعہ بھائی سے کہا تھا بھائی آپ جتنی جدو جہداپنی قوم کے لئے کر رہے ہو اس کا ایک حصہ بھی اپنے لئے اور اپنے بچوں کیلئے کرو گے تو آپ کی سات نسلیں آباد ہوں گی،یہ کیا ہے کہ،سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے،کے مصداق قوم کے کل کی فکر تو ہے لیکن اپنی زات اور ا پنے خاندان کی نہیں تو انہوں نے جو جواب دیا وہ میری زندگی بدلنے کا موجب بنا،کہا میرے بھائی دنیا میں اربوں لوگ آتے ہیں اربوں جاتے ہیں لیکن بہت دیر تک وہی زندہ رہتے ہیں جو انسانیت کے لئے کچھ دے کر جاتے ہیں،مجھے خبر ہے کہ میرے قلم کی جدو جہد کا صلہ شاید مجھے میری زندگی میں نہیں ملے لیکن میری قلمی جدو جہد میری قوم کا کل ضرور سنوارے گی۔
حبیب الرحمن بھائی کی ز ندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی لیکن انہوں نے اپنی تمام تر جدو جہد کا مرکز و محور اپنی زات اور خاندان کو نہیں رکھا بلکہ قوم کے کل کے لئے آپنا آج قربان کیا،یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں اور بالخصوص گلگت بلتستان میں اپنے فکری شاگردوں کی ایک بڑی تعداد میدان عمل میں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں،ان کی صحافتی جدو جہد تو روز روشن کی طرح عیاں ہے، انہیں گلگت بلتستان میں جدید صحافت کا بانی مانا جاتا ہے لیکن گلگت بلتستان کے سیاسی مستقبل کے لئے ان کی رکھی ہوئی پہلی اینٹ بعد میں آنے والوں کے لئے بنیاد فراہم کر گئی،آج تو جدید میڈیا نے فاصلے مٹا دئے،لیکن آج سے پچیس برس قبل صورتحال یکسر مختلف تھی،حبیب الرحمن بھائی نے گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1996میں پہلی مرتبہ گلگت بلتستان کا آئینی مستقبل اور مسئلہ کشمیر کے عنوان سے ایک ایسی کانفرنس کا انعقاد اسلام آباد میں کیا جس میں مقبوضہ کشمیر،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت پہلی مرتبہ ایک میز کے ارد گرد جمع ہوئی،یہ کانفرنس گلگت بلتستان کی آئنی جدو جہد کے لئے سنگ میل کا کردار ادا کر گئی،حبیب الرحمن بھائی کی زندگی عدی اعتبار سے اگرچہ محض 48برس پر محیط ہے لیکن اس مختصر قیام میں انہوں نے 48صدیوں جیسا کام کیا ہے،ان کی زندگی کی جدو جہد اور کارناموں پر مشتمل کتاب میں تفصیل سے زکر ہوگا،بس اتنا کہوں گا کہ ایک ادارۂ،صحافت کی ایک یونیورسٹی اور عملی جدو جہد کا ایک باب بند ہو گیا،حبیب الرحمن بھائی کا جسم اگرچہ اسلام آباد کے ایچ الیون قبرستان میں آرام فرما رہے لیکن ان کی فکر سوچ اور نظریہ زندہ ہے اور انشا اللہ ان کے مشن کی تکمیل کے لئے ہم میدان عمل میں موجود ہیں،انشا اللہ،