کالمز

نئی پیکنگ میں سیاسی چورن

رشید ارشد

انتخابات کے قریب آتے ہی گلگت بلتستان میں حکومتی جماعت کے علاوہ سب جماعتوں نے اپنا اپنا سیاسی چورن تیار کرنے کی تگ و دو شروع کر رکھی ہے۔ سیاسی فیکٹریوں میں پکینگ کا کام جاری ہے،یہ الگ بات ہے کہ اس دفعہ سیاسی چورن اچھا اور اثر دار بنانے کے لئے اجزا دستیاب نہیں،پانچ برسوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے،مذہبی چورن جس کو بیچ کر وہ لوگ بھی سیاست میں کامیابی حاصل کر رہے تھے جن کو مذہب کی الف ب سے بھی آگاہی نہیں تھی، ان کے لئے اب پریشانی یہ ہے کہ مذہب و مسلک کا چورن گلگت بلتستان کی سیاسی مارکیٹ میں مفقود ہو چکا ہے،

مذہب و مسلک کے بعد سب سے کامیاب چورن گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کا ہے،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس چورن پر ہی گلگت بلتستان کی عوام کو ستر برسوں سے ہمارے سیاسی امریش پوریوں نے ٹرک کی بتی تو کیا بڑے کنٹینر کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے،ہر پانچ برس کے بعد آئینی حقوق کا چورن نئی خوبصورت پیکنگ میں پیش کیا جاتا ہے،ستم یہ کہ ستر برس سے قوم یہ جعلی چورن کھا رہی ہے اسے معلوم بھی ہے کہ یہ چورن جعلی اور ملاوٹ شدہ ہے اس کے باوجود کھائے جا رہی ہے۔نہ معلوم کب تلک آئینی حقوق کا چورن فروخت کرنے والوں کی سیاسی لاٹری نکلتی رہے گی؟

حکومتی جماعت نے اب تک ایسا کوئی دعوی نہیں کیا ہے کہ گلگت بلتستان کو پانچواں آئینی صوبہ بنائیں گے،پانچواں آئینی صوبہ مسلہ کشمیر کے حل ہونے سے قبل کسی بھی طرح ممکن نہیں،دل کے بہلانے کو غالب خیال اچھا ہے،کے مصداق سیاسی امریش پوری قوم کا دل بہلا رہے ہیں۔حقیقت سے دور کا بھی تعلق اس نعرے کا نہیں۔اب اس آئینی حقوق کے چورن کو تحریک انصاف جس کے گلگت بلتستان میں گروپ گنتی میں نہیں آرہے ہیں نے نئی پیکنگ میں پیش کر دیا ہے،پی ٹی آئی صدر سید جعفر شاہ نے کافی عرصہ پہلے آئینی حقوق کے حصول کے حوالے سے قوم کو امید دلائی ہے،شاہ صاحب کی بات اپنی جگہ درست لیکن مسئلہ کشمیر کے حل تک کسی بھی طور ممکن نہیں کہ گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنایا جائے،اور اگر کسی معجزے کی شکل میں ایسا ممکن بھی ہو تو کم از کم جب تک مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت ہے ایسا ہونا تو بالکل بھی نا ممکن ہے،ناممکن اس لئے کہ مرکزی حکومت گلگت بلتستان کو ایک ہومیو پیتھک علاقہ تصور کرتی ہے،جہاں سے اسے نہ سیاسی فائدہ حاصل ہے اور نہ نقصان،جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے،پاکستان کے لئے بلوچستان سے زیادہ اہمیت کا علاقہ گلگت بلتستان سے،دنیا کا گیٹ وے ہے،مستقبل کا معاشی حب گلگت بلتستان ہے،اس علاقے کی جغرافیائی،معاشی،دفاعی،اورسیاسی اہمیت دو چند ہے،لیکن بدقسمتی کہ مرکز میں براجمان کلرک بابووں کواور تو درکنار یہ بھی خبر نہیں کہ گلگت بلتستان کا جغرافیہ کیا ہے،اس تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک انصاف کا آئینی حقوق کا چورن جس طرح کی بھی خوبصورت پیکنگ میں پیش کیا جائے اس دفعہ فروخت اس لئے نہیں ہوگا کہ اللہ بھلا کرے سوشل میڈیا کا جس نے گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو سیاسی طور پر اتنا بالغ بنا دیا ہے کہ وہ ہر جعلی پکینگ کو پہچان کر اسے مسترد کرتے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں،پیپلز پارٹی کے چورن حق حاکمیت کی،جو پیپلز پارٹی اب حق حاکمیت کا نعرہ بلند کر رہی ہے اس سے زرا کوئی پوچھے کہ گلگت بلتستان کی زمینوں پر حق اور حق حاکمیت کا خاتمہ سب سے پہلے کیا کس نے،تو جواب ان سے بن نہیں پائے گا،تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو صاف لفظوں میں لکھا نظر آئے گا کہ مرکز میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی گلگت بلتستان سے سٹیٹ سبجکیٹ رول کا خاتمہ کیا گیااسی پیپلز پارٹی کی قیادت نے کم و بیش تیس برس تک گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا۔گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کو شور غوغا سب سے زیادہ پیپلز پارٹی نے مچایا،گلگت بلتستان اور مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود بھی آئینی صوبہ نہیں بنا سکے تو اب کہاں سے بنائیں گے،رہی بات حق حاکمیت کے چورن کی تو یہ دیسی مال پر میڈین جاپان کی پکینگ کے مانند ہے،لیبل ہٹا کر دیکھیں تو اندر سے سڑا ہوا مال بر آمدہوگا،

اب بات کرتے ہیں حکومتی جماعت کی تو،حکومتی جماعت ن لیگ کے کھاتے میں گلگت بلتستان میں ریکارڑ ترقیاتی کام ہیں،میگا پراجیکٹ کی نہ ختم ہونے والی سیریل ہے،امن کا قیام ہے،سیاحتی ترقی ہے،آپس کی بات ہے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رہنما نجی محفلوں میں کہتے ہیں کہ ن لیگ کی حکومت نے گلگت بلتستان میں کوئی ایک بھی ترقیاتی منصوبہ مکمل کئے بغیر چھوڑا نہیں ہے جسے بنیاد بنا کر ہم انتخابات میں اپنا منشور بنا سکیں۔۔

داگز دامیدان کے مصداق،اب میدان سجنے والا ہے،نظر یہ آرہا ہے کہ اب کی بار عوام جعلی پیکینگ والا سیاسی چورن خریدنے کے بجائے وہی مال خریدیں  گے جو اصل اور خالص ہوگا،یہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف کے کچھ یونین کونسل کے الیکشن میں بھی ضمانت ضبط کرانے والے کردار اب غیبی مدد سے ممبر اسمبلی،وزیر اور وزیر اعلی بننے کے خواب جاگتی آنکھوں دیکھ رہے ہیں،سوتے میں اکثر دیکھے خوابوں کی تعبیر نہیں ہوتی ہے اور کہتے ہیں کہ زیادہ تر شیطانی وسوسے ہوتے ہیں تو جاگتی آنکھوں دیکھے خوابوں کی تعبیر کیسے ممکن،۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button