کالمز

کیپٹن(ر) شفیع کی باتیں،عسکری قیادت اور چند سوالات

رشید ارشد

قائد حزب اختلاف گلگت بلتستان کیپٹین محمد شفیع نے اسمبلی اجلاس کے دوران جوش خطابت میں کہہ دیا یا سوچ سمجھ کے یہ بات کہی اس بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں لیکن اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہ بے وقت کی راگنی ہے،اورراگنی بھی ایسی جس کے سر اور تال بکھرے ہوئے تھے۔

شفیع صاحب فرما رہے تھے کہ آ ج میں نواز خان ناجی کو اپنا قائد ماننے کیلئے تیار ہوں،ناجی جو باتیں کررہے تھے وہ آ ہستہ آ ہستہ درست ہورہی ہیں ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارے آ باؤ اجداد نے گلگت بلتستان کو آ زاد کرایا اور آ زادی کو تھالی میں ڈال کر پاکستان کو پیش کیا وہ سب کچھ ہم نے کیا تھا اس کے بعد پھر 13 اگست 1948 کو اقوام متحدہ کی قرارداد آ جاتی ہے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل پاکستان آ ئے ہمارے وزیر اعظم اور آ رمی چیف نے اقوامِ متحدہ کے قراردادوں کے تحت کشمیر کو حقوق دینے کی بات کی یہ دوہرا معیار ہے، گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے میں سیاسی قیادت رکاوٹ نہیں میں آ ج کھل کر کہتا ہوں بے شک مجھے الیکشن ہرایا جائے یا مجھے اٹھایا جائے گلگت بلتستان کو  صوبہ بنانے میں رکاوٹ عسکری قیادت ہے، چاہے وہ کشمیریوں کی دباؤ میں کرے یہاں پر اس حوالے سے ڈر کر کوئی نہیں بولتا ہے اس اسمبلی کی کوئی اوقات نہیں ہماری اوقات یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر کو ایف آ ئی اے کا ڈائریکٹر آ ئی بی کا ڈائریکٹر یا کوئی اور ادارے کا ڈائریکٹر بلاتا ہے اور کہتا ہے آ جاؤ میٹنگ کرنی ہے۔

جمہوریت ہے بابا،اس جمہوریت میں اگر محمد شفیع صاحب کو اسمبلی میں ایسی تقریر کرنے کا حق ہے تو ہمیں بھی اس تقریر پر تبصرہ کرنے کا پورا حق ہے،جمہوری سوچ کے تحت میری سوچ اور میرے تبصرے سے اختلاف کرنا ہر کسی کا حق ہے،میری زاتی رائے میں یہ تقریر آمدہ انتخابات کے لئے ایک پیشگی انتظام کے سوا کچھ نہیں،آئیں زرا شفیع صاحب کی جوشیلی تقریر کے مندرجات پر بات کرتے ہیں۔

شفیع صاحب،معذرت کے ساتھ،اسمبلی میں پانچ برس آپ نے خوشی خوشی گزار دئے ان پانچ برسوں میں آپ کو نواز خان ناجی کی سیاسی تھیوری کی سمجھ نہیں آئی اور آخری دنوں اگر آپ کو نواز خان ناجی کی تھیوری اچھی لگی اور انہیں قائد ماننے کے لئے تیار ہو چکے ہیں تو یہ آپ کا زاتی فیصلہ ہے لیکن ہم صرف اتنا پوچھتے ہیں کہ کتنے دن اور کتنے ماہ تک آپ نواز خان ناجی کو قائد مانیں گے،الیکشن کی رات تک ووٹ حاصل کرنے کے لئے یا ہم یقین کریں کہ واقعی آپ مذہبی سیاست کے اکھاڑے سے نکل کر قوم پرستی کی سیاست میں باقاعدہ داخلہ لیں گے؟۔

دوسری بات،یہ حقیقت ہے کہ ہمارے آباو اجداد نے اپنے زور بازو سے گلگت بلتستان کو آزاد کرایا،اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سولہ دن تک ہم ایک آزاد ملک کی حیثیت سے رہے،اور بدقسمتی سے یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے صدر جمہوریہ راجہ شارئیس خان کے سیاسی شعور کی بلوغت کا یہ عالم تھا کہ صدر کے عہدے کے بجائے سول سپلائی کا منشی کا عہدہ مانگ لیا،اور مانسہرہ کے سردار عالم نائب تحصیلدار کے ہاتھوں میں گلگت بلتستان کے قوم کی تقدیر تھما لی،یہ سچ ہے کہ ہماری منزل اس وقت بھی پاکستان تھی آج بھی پاکستان ہے،لیکن میرا سوال ہے کہ ہمارا صدر صدارت چھوڑ کر جب سول سپلائی کا منشی بننے جا رہا تھا اس وقت انہوں نے سردار محمد عالم کے ساتھ الحاق پاکستان کی کن دستاویزات کا تبادلہ کیا تھا،؟ اور کن شرائط کے ساتھ کیا تھا؟۔

کیا راجہ شارئیس اور اس وقت کی قیادت کو گلگت بلتستان کی اس وقت کی آئینی حیثیت کی الف سے بھی آشنائی نہیں تھی؟کیا جس وقت اقوام متحدہ کی قراردادیں مرتب ہو رہی تھیں اس وقت انہیں خبر نہیں ہوئی کہ گلگت بلتستان کا مستقبل کیا ہوگا؟مان لیا کہ اس وقت کی سیاسی قیادت حالات سے بے خبر تھی،گلگت بلتستان کی تقدیر مسئلہ کشمیر کے ساتھ جوڑی گئی یہ الگ بحث ہے کہ یہ اقدام اس وقت کے حالات کے تناظر میں بہتر تھا یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کامقدمہ ریاست پاکستان سے اقوام متحدہ منتقل ہو چکا تھا،جب مقدمہ اقوام متحدہ منتقل ہوگیا تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم اقوام متحدہ کی قرادادوں کی روشنی میں اپنی سیاسی جدو جہد کا آغاز کر کے گلگت بلتستان کی قوم کو با اختیار بناتے اور ترقی کی منزلیں طے کرتے لیکن اس کے برعکس ہماری مذہبی اور سیاسی قیادت نے قوم کو پانچویں آئینی صوبے کے اندھے کنویں کی طرف دھکیل کر ستر برس تک سیاسی فوائد حاصل کئے اور ستم یہ کہ جب گلگت بلتستان کے نوجوانوں کا سیاسی شعور آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے اب بھی وہی صوبے کا چورن فروخت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

گلگت بلتستان کا ایک ایک فرد چاہتا ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا صوبہ بنے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک ریاست پاکستان کے لئے یہ کسی بھی طرح ممکن نہیں۔دوسری طرف ایک طبقے نے الحاق کشمیر کا ملاوٹ شدہ چورن فروخت کیا، سوال یہ ہے کہ اس پورے منظر نامے میں عسکری قیادت کہا ں ہے،کب کس وقت اور کیسے عسکری قیادت نے گلگت بلتستان کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں گلگت بلتستان کو با اختیار بنانے کی مخالفت کی ہے؟۔

یہ حقیقت ہے کہ ریاست پاکستان کی شدید خواہش ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی حصہ بنے،لیکن اس کے لئے موجودہ تناظر میں مسئلہ کشمیر کی قربانی دینی پڑے گی،یہ کسی بھی طرح ممکن نہیں،کیا ستم ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں اور نااہلیوں کا سارا ملبہ یا تو وفاق پر یا عسکری قیادت پر ڈال کر خود دودھ سے دھل کر نئے انتخابات اور کرسی کے لئے لنگوٹ کس کر سامنے آتے ہیں۔

میرے نزدیک گلگت بلتستان کو حقوق سے محروم رکھنے میں نہ وفاق پاکستان تو نہ عسکری قیادت کا ہاتھ ہے،ہمارے مذہبی اور سیاسی قائدین نے کھبی صوبے کا راگ الاپا تو کھبی کشمیر کی راگنی،ہم نے آج تک ایک متفقہ بیانۂ ترتیب ہی نہیں دیا،ہم نے کب اقوام متحدہ کی قراردادوں اورزمینی حقائق کو سامنے رکھ کر ایک متفقہ موقف وفاق کے سامنے اور عسکری قیادت کے سامنے رکھا تو ہمیں حقوق دینے سے انکار کیا گیا؟۔

عین الیکشن کے وقت حقائق سے منافی بیان،وفاق اورعسکری قیادت پر الزام دینے سے ہماری ستر برسوں کی اپنی غلطیوں پر نہ پردہ پڑ سکتا ہے تو نہ الزامات سے حقوق حاصل ہو سکتے ہیں،حقوق حاصل کرنے ہیں تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ،ہم تمام تر علاقائی اور مسلکی تعصبات سے بالاتر ہوں اور ایک ایسا بیانۂ ترتیب دیں جو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے نہ ٹکرائے،اور زمینی حقائق کے عین مطابق ہو،میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوں تو  اگلے دن ہمیں حقوق ملیں گے۔

آخری بات،شفیع صاحب،آپ اس سے پہلے ویسے آپس کی بات ہے کہ الیکشن کب جیتے تھے تواب آپ کوہرایا جائے گا،آپ تو الیکشن سے نہیں سلیکشن سے اسمبلی میں آئے ہیں،اور ہاں جہاں تک آپ کی یہ بات کہ اسمبلی کی کوئی اوقات نہیں،کوئی بھی ڈائریکٹر میٹنگ کے لئے بلاتا ہے،محترم،انتہائی معذرت کے ساتھ،اسمبلی جس رول اور جس آرڈر کے تحت چل رہی ہے ان میں گلگت بلتستان اسمبلی کی بھی وہی اوقات ہے جو پنجاب،سندہ اور کے پی کے اسمبلی کی ہے،اب اگر کسی ممبر کو اپنی اوقات اور اختیارات کا علم نہیں،یا اختیارات استعمال کرنے کی سکت نہیں رکھتا تو اس میں اسمبلی کا توقصور نہیں۔

ان چند سوالات کا جواب،مجھے نہ صرف میرے محترم شفیع صاحب سے درکار ہے بلکہ کوئی بھی صاحب علم جواب دینا چاہے،کالم میں تحریر باتیں کلی میرے زاتی خیالات ہیں اختلاف اور اتفاق کا ہر کسی کو حق حاصل ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button