اہم ترینصحت

چترال میں کورونا وائریس کا مشتبہ مریض پشاور ریفر

چترال(گل حماد فاروقی) گزشتہ رات  ضلع اپر چترال سے ایک مشتبہ مریض کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال لوئر چترال لایا گیا۔ مریض کو فوری طبی امداد دینے کے بعد پشاور ریفر کیا گیا چترال کے ہسپتال میں ایسی کوئی سہولت یا مشینری موجود نہیں ہے جو اس قسم کے مریضوں کا  ٹیسٹ کرکے اس بات کی تصدیق ہوسکے کہ آیا اس میں کورونا وائریس  موجود ہے یا نہیں۔
تفصیلات کے مطابق  بالائی چترال کے تحصیل مستوج کا  رہائشی  مجتبیٰ حسین شاہ  کئی دنوں سے بیمار تھا۔ اس کے گھر والوں کو شک تھا کہ اسے کورونا وائریس ہوچکا ہے جسے فوری طور پر دیہی مرکز صحت  RHC مستوج لے گئے  یہ سرکاری ہسپتال ہے مگر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت اس سمیت تین سرکاری ہسپتالوں کو آغا خان ہیلتھ سروس کے حوالہ کئے گئے ہیں۔
مشتبہ مریض مجتبیٰ حسین شاہ دس مہینے  اسلام آباد میں رہائش پذیر تھا اور اپنے بھائی سے ملنے کیلئے وہ ایبٹ آباد بھی گیا تھا اسے کئی دنوں سے بخار اور کھانسی تھی۔ اسے جب دیہی مرکز صحت مستوج میں آغا خان ہیلتھ سروس کے ڈاکٹروں نے  چترال ریفر کیا تو وہ واپس اپنے گھر چلے گئے مگر طبیعت زیادہ حراب ہونے پر وہ دوبارہ مستوج ہسپتال گئے جہاں عملہ نے اسے ایمبولنس میں بٹھا کر  ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال لایا۔
رات گئے ڈاکٹر نثار احمد نے مریض کا معائنہ کیا ان کا حیال تھا کہ مریض مشتبہ نہیں ہے مگر ا س کے باجود مریض کو پشاور ریفر کیا گیا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شمیم  نے مقامی ویب  سائٹ  چترال پوسٹ کو بتایا ہے  کہ ان کے پاس کورونا وائریس کے ٹیسٹ کرنے کیلئے کوئی سامان موجود نہیں ہے  لہذا بہتر یہ ہے کہ مریض کو پشاور منتقل کیا جائے۔  جہاں سکریننگ ٹیسٹ سے یہ ثابت ہوگا کہ آیا مریض کو کورونا وائریس ہے یا نہیں ہے۔
دوسری طرف پشاور کے محتلف اڈوں سے رات کے وقت کوسٹر، فلائنگ وغیرہ میں سینکڑوں مسافر چترال آیا کرتے تھے  منگل اور بدھ  کے رات سفر کرنے والے کئی مسافروں نے شکایت کی کہ انہوں نے یہ سنا تھا کہ پشاور وغیرہ سے آنے والے مریضوں کا بنیادی مرکز صحت عشریت میں سکریننگ یا معائنہ ہوتا ہے مگر ہم نے ایسا کوئی معائنہ یا چیکنگ نہیں دیکھی اور ان  کوسٹروں اور فلائنگ کوچوں میں  سینکڑوں مسافر  ملک کے محتلف صوبوں سے آئے ہوئے تھے۔ اگر خدانحواستہ ان میں سے کوئی کورونا وائرس میں  مبتلا ہو تو اس کی وجہ سے پورے چترال کو حطرہ ہے۔
اس سلسلے میں جب ڈپٹی کمشنر چترال سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے محکمہ صحت کا عملہ ٹریننگ کیلئے پشاور بھیجا ہے  جب وہ تربیت حاصل کرکے واپس آئے تو پھر وہ آنے والے مسافروں کا معائنہ کریں گے ورنہ وہ حود اس میں مبتلا ہونے کا حطرہ ہے۔
مشتبہ مریض کے بارے میں ہمارے نماندے نے جب ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر شمیم سے  ایسے مریضوں کے بارے میں حکومتی پالیسی کی اصول و ضوابط کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ جب یہ مریض دیہی مرکز صحت مستوج لایا گیا تو ان کو چاہئے تھا کہ اسے چودہ دنوں کیلئے  کورنٹائن کرتے اور اس کے بعد اسے ریفر کرتے  مگر انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا جو پالیسی کے حلاف ورزی ہے۔
دریں اثناء چترال کے سماجی اور سیاسی طبقہ فکر نے اس بات پر نہایت تشویش کا اظہار کیا ہے کہ صوبائی حکومت اور محکمہ صحت نے تین سرکاری ہسپتال جو آغا خان ہیلتھ سروس کے حوالہ کئے ہیں اور ان کو سالانہ کروڑوں روپے کا بجٹ بھی دیتے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ ایک مشتبہ مریض کا علاج نہ کرسکے جبکہ ان کی بلند بانگ دعووں سے یہ لگتا تھا کہ اس علاقے میں کسی بھی مریض کو باہر نہیں بھیجا جائے گا۔ انہوں نے وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ اور محکمہ صحت کے ارباب احتیار سے اس بابت قانونی کاروائی کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔ نیز عوام نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ سوشل میڈیا میں بتارہے ہیں کہ انہوں نے چار مقامات پر چترال آنے والے مسافروں کی سکریننگ سنٹر کھول رکھے ہیں جبکہ سب سے زیادہ مسافر لواری سرنگ کے راستے چترال میں داحل ہوتے ہیں  مگر رات کے وقت کسی بھی مریض کا سکریننگ یا معائنہ نہیں ہوتا جو نہایت حطرناک ہے اور کوئی بھی مشتبہ مریض ان میں سے آسکتا ہے۔
دریں اثناء ضلعی انتظامیہ نے چترال آنے والے اور یہاں سے جانے والے تمام مسافر گاڑیوں کی آمد و رفت پر پابندی لگائی ہے  اور ضرورت کے تحت لو گ اپنے ذاتی گاڑی میں جاسکتے ہیں  آزاد ذرائع سے سننے میں آیا ہے کہ چترال لانے والے سبزی، آشیائے خوردونوش کی گاڑیوں پر بھی پابندی لگانے کا پروگرام ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں دو ہلاکتوں  سمیت کورونا مریضوں کی تعداد456 ہوگئی جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button