کالمز

کورونا وائرس کا کمزور عقائد پہ خودکش حملہ

پوری دنیا یک جان ہوکر کورونا کے خلاف حالت جنگ میں ہے ۔ معمولات زندگی درہم برہم ہوکر رہ گئے ہیں ۔ مہذب معاشروں کے مہذب لوگ بھی غیر مہذب نظر آنے لگے ہیں اور غیر مہزب معاشروں کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک کی نظریں اپنے شہریوں کی قیمتی جانیں بچانے پر ہیں جبکہ ترقی پزیر ممالک اس مشکل صورتحال میں بھی کورونا کیلئے مختص کئے گئے فنڈز کو ہڑپنے کے ہر ممکن طریقے ڈھونڈ رہے ہیں ۔

ووہان شہر جسے کورونا کا گھر کہا جارہا تھا چینی حکومت نے آخری حد تک کورونا کا ہر ممکن مقابلہ کردکھایا ۔ انہوں نے دن رات کی انتھک محنت اور کوششوں کے نتیجے میں کورونا وائرس کو مات دی ۔ چینی ڈاکٹروں نے مسلسل تین ماہ دن رات ایک کرکے کورونا جیسی وبا ء سے اپنے شہریوں کو بچایا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب انسانیت کے ان خدمتگاروں کے منہ پر تین ماہ مسلسل ماسک پہننے سے نشانات پڑ گئے مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری ۔ پھر ہم نے دیکھا کہ جب موت کے شہر ووہان میں زندگی لوٹ آئی تو ڈاکٹروں کی ٹیموں کو چینی آرمی نے سلامی دی اور انہیں قوم کا ہیرو قرار دیا اور اپنے اپنے آبائی شہروں میں الوداع کیا۔ یہ انتہائی رقعت آمیز مناظر تھے ۔

یہ وہ وباء ہے جس نے سارے انسانوں کو برابری میں لاکر کھڑا کیا ہے ۔ نہ اس کو امیروں سے کوئی دوستی ہے نہ غریب اس کا دشمن ہے ۔ مرد عورت، چھوٹابڑا گورا کالا ،مسلم نان مسلم کورونا کی نظر میں سب برابر ہیں۔ الغرض کورونا کی جنگ انسانوں سے ہے مگر افسوس کہ ہم انسان صرف کورونا سے بچاو کی حد تک بھی نسلی، مذہبی و لسانی تفریق سے باہر نہیں نکل پائے ۔ شروع شروع میں ہم نے کہا کہ کورونا وائرس چائنیز پر اللہ کا عزاب بن کر نازل ہوا ہے ۔ مگرجب مسلمان ممالک پہ بھی اثرات نمودار ہونے لگے تو ہم میں سے بہت سوں نے چپ کا روزہ رکھا مگر کچھ لوگ اس معاملے کو مسلم غیر مسلم سے نکال کر شیعہ سنی تک لے آئے ۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ایران سے آئے ہوئے زائرین کے حق میں ایک طبقہ روڈ پہ نکلا تو دوسرا طبقہ ان کے خلاف احتجاج کرتا نظر آیا۔ااب بھی ایک طبقہ پاکستان میں کورونا کا زمہ دار سعودیہ سے آئے ہوئے لوگوں کو قرار دے رہا ہے تو دوسرا اس سب کے پیچھے ایران کو قصور وار ٹھراتا ہے ۔ زیارات و مقدسات سے لیکر خانہ کعبہ کے دروازوں تک بند ہوئے مگر ہم اب بھی لعن طعن اپنے اعمال ، غیر زمہ دارانہ ریویوں اور سائنس و ٹیکنالوجی سے دوری پہ کرنے کے بجائے مخالف فرقوں میں خرابیاں تلاش کررہے ہیں ۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مسلکی جنگ میں ہم سب نے مل کر مزہب کا قتل عام کیاہے ۔ ہمیں سکھایا گیا ہے کہ دوا نام کی کوئی چیز اسلام میں وجود ہی نہیں رکھتی اسلام بس دعا کا درس دیتا ہے ۔ ہمارا ایمان ہے کہ جنگ اسلام دشمنوں سے ہو یا کورونا سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے اللہ سے دعا کرنے سے کامیابی قدم چوم لے گی۔ ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ حضور اکرم ص نے اسلام کیلئے جنگیں کیوں کر لڑیں ۔ حلانکہ وہ گھر بیٹھے دعا کرکے دشمنان اسلام کو تباہ کر سکتے تھے ۔ ہمیں نہیں بتایا گیا کہ حضور اکرم ص صحابہ کرام اور اہلبیت اطہار میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تھا تو طبیب سے مشورہ لیا کرتے تھے ۔ حلانکہ وہ دعا کے زریعے شفاء یاب ہوسکتے تھے ۔ آج کے دور کا مسلمان نعوزباللہ خود کو حضور اکرم سے بھی آگے دیکھتا ہے ۔ آج کا مسلمان چاہتا ہے کہ وہ صرف ہاتھ اٹھا کر ایک دعا کرے اور اللہ کورونا سمیت ہر مشکل سے نجات دے ۔

راہ چلتے ہوئے کسی سے پوچھو کیا وجہ ہے کہ مسجدیں بند ،مزارات بند ، مصافحہ کرنا منع یہاں تک کہ خانہ کعبہ کا دروازہ بھی ہم مسلمانوں کیلئے بند ہوا ہے تو جواب ایک ہی ملتا ہے کہ بند کرنے کی قطعا ضرورت نہیں تھی محض عقیدے کی کمزوی ہے ورنہ کورونا کا ان مقدس مقامات میں کیا کام ؟؟ اللہ ایسے تھوڑی ہونے دیگا ؟ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کورونا ان مقدس مقامات پہ جانے والوں پہ اثرانداز ہو ۔ وہ یہ کبھی نہیں کہے گا کہ ہم سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ۔ ہمیں صرف دعا تک محدود رکھا گیا ہے حالانکہ اسلام میں دعا سے پہلے دوا کی اہمیت بتائی گئ ہے ۔ کوئی نہیں بتائے گا کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتے ہیں "میں انسان کو اتنا ہی دیتا ہوں جتنی وہ کوشش کرتا ہے” ۔

ایران و سعودی نما آج کا مسلمان حیران ہے کہ کیونکر سعودیہ نے خانہ کعبہ اور ایران نے زیارات مقدسات کو بند کردیا ۔ انہیں اب بھی لگتا ہے کہ دن بھر دوسروں کی برائیاں کر کر کے گالیاں دے دے کے شام میں اسی زبان سے دو بول دعا کے مانگنے سے کورونا دور بھاگے گا ۔ وہ نہیں دیکھتے کہ ایران جب امریکہ سے لڑنے میدان میں آتا ہے تو جدید ہتھیار اور ٹیکنالوجی سے لیس ہوتا ہھے ۔ انہیں نظر نہیں آتا کہ کیسے سعودی عرب کورونا کے خلاف جدید سائنس سے استفادہ کر رہا ہے ۔ اور کیوں نہ کرے ؟؟ اسلام صرف روزے اور نمازوں تک محدود تھوڑی ہے ۔ اسلام مشکلات کا مقابلہ وقت اور حالات کے مطابق کرنے کا درس دیتا ہے ۔ اور جب حصول علم اسلام میں اولین فرائض میں شامل ہے تو کیسے آج کا مسلمان سائنس و ٹیکنالوجی سے دور رہ کر دعا تک محدود رہ سکتا ہے؟؟ یقینا ایسا کرنا دین اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف جنگ کرنے کے مترادف ہے مگر ناقص و کمزور عقائد پہ مبنی لوگ آج ہاتھ مل رہے ہیں ۔ انہیں اپنے عقائد پہ شک ہونے لگا ہے ۔ انہیں لگتا ہے کہ کوئی گڑ بڑ ہے ۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ یکے بعد دیگرے مقدس مقامات بھی ان کی دسترس سے دور ہونے لگے ہیں ۔

کورونا نے ان کے خود ساختہ کمزور عقائد پہ خود کش حملہ کردیا ہے اور یہ سب اصل اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button