صحتکالمز

عہدِ کرونا

تحریر:غالب شاہ سید، اسسٹنٹ پروفیسر

وقت کے تیزدھاروں میں نہ جانے کیا کیا چھپا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا سوائے اس ذات اقدس کے جو تمام جہانوں کا مالک اور خالق ہے اور جس کے حکم کے آگے کوئی پتہ تک ہل نہیں سکتا۔ میں اس وقت اپنے گھر کی چھت سے دور دیکھائی دینے والے شہرکی شاہراہ اور بازار کا نظارہ کررہا ہوں۔ نہ گاڑی، نہ گاہک، نہ تاجر، نہ بھکاری، پورے کا پورا بازارسنسان اورتباہ حالی کا منظرپیش کررہا ہے۔  دکانیں بند ہیں، کاروبار بند، دفاتر بند،سکول، کالج،یونیورسٹی، مدرسہ سب بند ہیں۔ یہاں تک کہ عبادت گاہیں بھی عبادگزاروں سے خالی نظرآرہی ہیں۔ گلیاں ویران، گھرخاموش،ایک آدھ اجڑے چہرے ماسک تلے اپنی اپنی پریشانیاں چھپائے گلی کوچوں میں خراماں خراماں جیسے اپنی کھوئی ہوئی جنت کی تلاش میں سرگرداں دیکھائی دے رہے ہیں۔  یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے؟ ہم  نے ایسا کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ کسی دن اپریشن میں مگن ڈاکٹروں کی مانندہرشخص کو یہ ماسک پہننا پڑیگا۔ بہار کی آمد آمد ہے، درختوں کی لچکتی شاخیں پھولوں سے لدی ہوئی ہیں، موسمی پرندوں کا ایک جھنڈ پاس کسی درخت پرمغموم آوازوں میں چہک رہی ہیں۔ نیلے گگن تلے دورکسی پگنڈنڈی پر دوچار مویشی چرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ آس پاس یہ سب کچھ ہے اور میں ہوں۔

 خاکم بدھن، کیا نسلِ انسانی فنا ہونے کو ہے؟ کیا گھر، گاڑیاں، دفتر، دکانیں سب کے سب دھوپ میں سڑکر کھنڈر بن جائیں گے؟ کیا انسانوں کے سیدھائے سیدھے سادھے، آرام طلب پالتو جانور بے سہارا بن کر درندوں کے بھینٹ چڑھنے والے ہیں؟ کیا پرندوں اور جانوروں کا راج ہونے والا ہے؟ کیا انسانی لاشیں اس قدر بکھرنے والی ہیں کہ سارے کا سارا زمین بدبودار ہوجائے؟ کیا ادھی انسانی آبادی کم ہونے والی ہے؟ کیا پوری کی پوری انسانی آبادی  لقمہ اجل بن جائیگی؟کیا انسانوں کے ساتھ ساتھ چرند،پرند، حشرات، درخت وغیرہ سب یک لخت موت کے منہ میں چلے جانے والے ہیں؟ ایسا بھی تو ہوسکتا ہے۔  اس سب کے لئے بھی تو زہن کو تیار رکھنا چاہیے مگرایسا کچھ ہوگا نہیں۔ نہ ہی میں آپ کو بے وقت و بے موقع موت سے ڈرا رہا ہوں۔ ہاں مگر انسان کی پیدائش جس طرح کا ایک معمہ ہے بالکل اسی طرح اس کی موت بھی ایک معمہ ضرور ہے۔مگر پیدائشی انسان جس طرح بے مقصد نہیں اسی طرح اس کا انجام بھی تو بے مقصد نہیں ہوسکتاجوکسی معمولی وباء کی نذر ہو۔

میں ان خیالوں میں گھم تھا کہ میرے چھوٹے بیٹے جس کی عمر ابھی پانچ سال ہے، کی پرفکر آواز ابھری۔ ڈیڈی میں سکول کیوں نہیں جاسکتا؟آ پ مجھے میرے دوستوں کے گھر جانے سے کیوں منع کررہے ہیں؟ آپ ہمیں گھمانے کیوں نہیں لے جاتے؟آپ ہمیں ہوٹل کب لے جائیں گے؟ آپ ہم سے دور دور سے کیوں رہنے لگے ہیں؟ یہ کرونا، کرونا کیا ہے؟ میں چونک جاتا ہوں،کچھ دیر کی توقف جاری رہتی ہے۔ بچے کی سوالیہ نگاہیں میرے جواب کے منتظر ہیں، مگر اس معصوم کو سمجھانے کے لئے میرے پاس  بروقت مناسب الفاظ کی ڈکشنری معدوم ہے۔  میں آسمان کی طرف نظریں اٹھاتا ہوں اور آسمانوں اور زمینوں کے مالک سے دل ہی دل میں یہ فریاد کرتا ہوں کہ اے میرے پروردگار مجھے وہ الفاظ اور قوت عطا فرما کہ میں  اس معصوم بچے کو مطمعین کرسکوں۔ مگر یہاں تو بڑے بڑوں کو سمجھانے پلے نہیں پڑتی، ایک معصوم کیا سمجھے حالات کے ان نازک بکھیڑوں کو۔۔۔۔

تو میں بتا رہا تھا کہ انسانی بقا جس طرح بے مقصد نہیں اسی طرح انسانی فنابھی بے مقصد نہیں ہوسکتی۔ میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ”ہرپیداہونے والا بچہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ابھی انسانوں سے مایوس نہیں ہوا“۔  جب اللہ تعالی ابھی انسانوں سے مایوس نہیں توپھر اس کا اسطرح کا انجام چہ معنی۔  میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ آخر ہونے والا کیا ہے؟ میں دانشور تو نہیں ہوں مگر دنیا کے نامی گرامی دانشوروں کے خیالات سے نابلد بھی نہیں۔ اور پھر خود انسانی شعور، فہم ودانش سے ہرگز خالی نہیں۔ تو زہین کی مہین سطح پر کچھ دھندلے مناظر دیکھائی دیتے ہیں اوردل کے تاروں سے چندسریلی آوازیں سنائی دیتی ہیں دل اچھنبے کا شکار ہے۔  زہن منتشر اور ان انجان مناظراور سُروں کو سمجھنے کی کوشش میں مگن مگر سمجھنے سے بالاتر دیکھائی دے رہا ہے۔ چنانچہ زہن پرزور دینے سے جو کچھ سمجھ آرہا ہے وہ ایک تبدیلی کا پیغام ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جوسب کچھ یکسربدل کررکھ دے گی۔جو انسانی تاریخ کو پھر سے رقم کردیگی۔جو حکومتوں کے سوچنے کے زاویے بدل دیگی۔ جو جنگی جنونی زہنوں کوانسانوں سے محبت کرنے کا ایک موقع فراہم کردیگی۔ جو قیصروکسری کے کنگروں کو پھر سے زمین بوس کردیگی۔ جو جاگیردار اور سرمایہ دار سے اس کی جاگیر اور سرمایہ چھین لے گی۔ جو مذہب، ثقافت، لائف اسٹائل،زبان،ورثہ ہر ایک چیزپر اپنا گہرا اثرچھوڑے گی۔ جو ملاوٹ کرنے والے، چور،کرپٹ، رشوت خور اور بددیانت کو سدھارنے کا ایک شاندار موقع فراہم کریگی۔  جو انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کے لئے راہ ہموار کریگی۔  جو محمود کو ایاز کی صف میں لاکھڑا کردیگی۔ جو  بے مقصد اور عیش وعشرت میں پڑی ہوئی غافل زندگیوں کو جھنجوڑ کر ایک مقصدِ حیات دیگی۔  جو تعصب، حسد، نفرت اور جھوٹ کی بے بنیاد جڑوں کو کھوکھلا کردیگی۔ جو مذہب پر سے سیاست کی گہری چھاپ کو نکال کرخالص کردیگی۔  جو دینا کو جنت بنانے کی راہ ہموار کردیگی۔جو تمام انسانوں کو آپس میں بھائی بھائی بننے کا موقع فراہم کردیگی۔۔۔۔ اگر ایسا کچھ ہوجاتا ہے تو کرونا تجھے سلام!

میں چھت سے ابھی اترا نہیں تھا کہ ایک آدھ گاڑیاں سڑک پر لہراتی ہوئی دیکھائی دینے لگیں۔ کچھ دکانوں کے شٹرکھلنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ پرندوں کا ایک جھرمٹ شورمچاتا ہوا سرپر سے گزر گیا۔ بہار کے رنگ مکمل نکھر کرآنکھوں میں سمانے لگے۔ دور افق پر سورج کی قرمزی کرنیں نمودار ہونے لگیں۔ نیچے صحن میں گھرکے دروازے کے عین سامنے سرخ گلاب کی ایک کلی چٹک کر آنے والے بہار اور رنگین دنوں کا پیغام دینے لگی۔ ہوا ایک تیز جھونکا شرٹ کے کھلے بٹن کے راستے سینے کو چھو نے لگا اور میں  زیرلب مسکراتا ہوتے ہوئے بچے کو گلے سے لگا کر دھیرے دھیرے چھت پر سے نیچے صحن میں اترآیا۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button