یہ جو کرپشن ہے
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
یہ جو کرپشن ہے یہ ایک ناسور ہے۔ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے مگر یہ کہاں سے آیا ہے ہمارے بزرگوں کے سینوں میں کرپشن کی پیدائش اور اس کی پرورش کے لاکھوں واقعات دفن ہیں۔مگرہم نے بزرگوں سے کھبی پوچھا نہیں ہے آج ایک بزرگ کی صحبت میں بیٹھ کر ا س ناسور کا حدود اربعہ معلوم کرتے ہیں۔
مولانا محمد اشرف کی عمر96سال ہے۔1924ء میں پیدا ہوئے1943ء میں 19سال کی عمر میں فوج میں سپاہی بھرتی ہوئے۔1948ء میں کشمیر کی جنگ میں آستور،تراکبل،گریز اور کارگل کے محاذوں پر میجر طفیل (نشان حیدر) کے ساتھ سگنل اپریٹرکی حیثیت سے دوسال تک حصہ لیا۔فوج کی آخری یونٹ کے آخری سپاہی کی واپسی کے بعد اپنا وائرلیس سیٹ اُٹھاکر راولپنڈی آگئے۔مشرقی پاکستان میں پوسٹنگ اور شہادت سے پہلے میجر طفیل(نشان حیدر)اُن کے ساتھ رابطے میں رہے۔مولانا محمد اشرف1959ء میں فوج سے ریٹائر ہوئے اب بھی چاق وچوبند اور صحت مند ہیں۔یہ جو کرپشن ہے اس کا حدود اربعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دسمبر1945ء میں میجر وائٹ کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس نے اپنے بیٹ مین کو بھجا کہ سٹور سے ایک کیل لے آئے بیٹ مین ایک کے جگہ 5کیلیں لے آکر آگیا۔پوچھنے پر بتایا پھر کسی وقت کام آئیگی۔شام کے وقت رول کال پر میجر وائٹ بقایا 4کیلیں ہاتھ میں لیکر آیا اُس نے سب کے سامنے سٹور مین سے کہا سٹور میں کیلوں کی جتنی بوریاں ہیں سب اُٹھالاؤ۔وہ20سپاہیوں کولیکر گیا اور20بوریاں لیکر میدان میں آیا۔میجروائٹ نے کہا ساری بوریاں کھول کر کیلیں گراونڈ میں ڈال دو،حکم کی تعمیل ہوئی اُس نے حکم دیا سارے سپاہی ایک ایک اُٹھائیں۔سب نے ایسا کیا تو گراونڈ خالی ہوگیا اُس نے کہا کیلیں واپس بوریوں میں ڈالو،اپنے ہاتھ میں 4کیلیں میدان میں پھینک کرکہا یہ بھی بوری میں ڈال دو۔پھر اُس نے کہا کہ یہ سرکار کی امانت ہے میرا بیٹ مین سٹور گیا اور ایک کی جگہ5کیلیں لیکر آگیا۔مجھے ایک کیل کی ضرورت تھی4میں نے واپس کردئیے۔اگر ہم ہر ایک نے ایک ایک کیل اُٹھایا تو سرکاری سٹور خالی ہوجائے گا۔یہ سرکار کا نقصان ہوگا۔خبردار آئیندہ کسی نے ایسا کیا تو اس کو ڈسمس کرکے گھر بھیجا جائے گا۔اپنے بیٹ مین کو میں نے آج ڈسمس کیا ہے۔دیانت داری کی یہ عملی مثال تھی۔
حضرت اللہ خان انگریزوں کے دور میں سولجر کلرک تھے۔انگریزی لکھتے تھے اور انگریزی میں بات کرتے تھے۔ہرمہینے تنخواہوں کی ادائیگی کے وقت کٹوتی ہوتی کسی کی تنخواہ سے چار آنے،کسی کی تنخواہ سے8آنے کسی کی تنخواہ سے ایک روپیہ،چنانچہ خزانہ سے تنخواہ پوری آتی تھی اور ادائیگی کے بعد30روپے یا40روپے بچ جاتے تھے ان کو واپس خزانے میں جمع کیا جاتا تھا مئی1949ء میں نیا افیسر آگیا۔اُس کے سامنے جب کاغذات کے ہمراہ 24روپے کا چالان بھرکررکھا گیاتو اُس نے حضرت اللہ خان کو بلایا اور پوچھا یہ کیا ہے؟اُس نے کہا یہ رقم بچ گئی ہے واپس خزانے میں جمع کرنی ہے۔اس پر بشیر صاحب کو غصہ چڑھ گیا۔اُس نے پوچھا تم نے کتنی رقم اپنی جیب میں ڈالی ہے؟لاؤمیرے ساتھ آدھا آدھا کرو۔تب میں دستخط کرونگا۔حضرت اللہ خان کو بھی غصہ چڑھ گیا اُس نے دفتری آداب کوبالائے طاق رکھتے ہوئے انگریزی میں کہاتم بھوکے پاکستانی ہو۔میں ایسا نہیں ہوں میں نے برٹش آفیسرزکے ساتھ صاف ستھری نوکری کی ہے اب میں ایک دن بھی یہاں نہیں رہونگا۔اپنے کمرے میں جاکر اُنہوں نے شستہ انگریزی میں دو صفحوں کا استعفیٰ لیا سیدھا کمانڈنٹ کے پاس جاکراستعفیٰ پیش کیاکمانڈنٹ نے کہا میں دیکھتا ہوں تم میرے حکم کا انتظار کرو۔حضرت اللہ خان نے کہا ایک بے غیرت افیسر کی ماتحتی میں ایک گھنٹہ بھی نہیں گذارونگا۔کمانڈنٹ کے دفتر سے پھر اپنے کمرے میں آیا۔اپنا سامان باندھا،یونٹ کے خفیہ والوں کو بلایا اورلان میں جاکر اپنے پستول کے6راونڈ ہوا میں فائر کرکے خفیہ والوں کوبتایا کہ یہ راونڈبشیر کے سینے میں پیوست کرنے کے لئے تھے لیکن حالات ایسے نہیں اس لئے ہوا میں فائر کیا تاکہ رپورٹ اوپر تک پہنچے۔اُس زمانے میں چترال کے اندر چرس(بھنگ) کی کاشت ہوتی تھی۔لواری میں زیارت پوسٹ پر1951میں 20کلوگرام چرس پکڑی گئی۔مزدور کے ساتھ مال کے مالک کو گرفتار کیا گیا۔3دن بعد اہم مسیج آیا کہ ایک ضروری مہمان آرہا ہے اس لئے مِس میں انتظام کرو،سرکاری گاڑی میں مہمان آیا تو وہی سمگلر تھا۔اُس کا مال بھی گاڑی میں رکھا ہوا تھامہمان کی خوب آؤ بھگت ہوئی۔مہمان کھانا کھاکرسرکاری گاڑی میں دیر کے لئے رخصت ہوا تو پتہ چلاکہ یہ سمگلر تو صوبے کے بڑے صاحب کا یار غار نکلا۔
یہ بھی1951ہی کا واقعہ ہے۔خزانے کے پہرہ داروں کی شفٹ تبدیل ہوئی تو معلوم ہوا کہ تالا نہیں لگا۔فوراًرپورٹ دی گئی۔3افسیروں نے آکر چیک کیا56ہزارروپے کی نقدی مل گئی خزانہ افیسر اور متعلقہ بابو نے تحقیقات میں کیا بیانات دئیے اس کا پتہ نہیں۔سول ایڈمنسٹریشن کے بڑے افیسر نے رات10بجے پہریداروں کے سینئر نائیک کو بلایا۔پاس بیٹھا کر پدرانہ نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعے میں تین افیسروں کو رپورٹ دینا حماقت ہے تم چپکے سے مجھے رپورٹ دیدیتے تو نصف رقم تیری تھی اور نصف میری تھی۔نائیک کا نام علی شیر خان تھا اُس نے صاحب لوگ کو جواب دیا تم ایسا کرسکتے ہو تمارے حسب نسب کا پتہ نہیں ہے میرے باپ دادا کا نام سب کو معلوم ہے میرے قبیلے کو سب جانتے ہیں۔میں ایسا نہیں کرسکتا۔اس کے بعد ایک ماہ وہ بے خوابی کی حالت میں ڈیوٹی دیتا رہا۔ایک ماہ بعد اُس نے استعفیٰ دیدیا۔حضرت اللہ خان اور علی شیر خان دونوں کا ایک ہی مسئلہ تھا جب ماتحت کومعلوم ہوجائے کہ افیسر کرپشن کرتا ہے تو پھر ماتحت دیانت داری کے ساتھ کام نہیں کرسکتا۔
3واقعات سناکر مولانا محمد اشرف کہتے ہیں کہ ایسے افیسروں کی وجہ سے مشہور ہوگیا تھا کہ گورے افیسر دیانت دارتھے کالے افیسر دیانت دار نہیں ہیں۔یہ جو کرپشن ہے یہ1949سے قوم پر مسلط کی گئی ہے یہ آج یا کل کی بات نہیں۔