اور پھر ٹائٹینک ڈوب گیا
تحریر: اسسٹنٹ پروفیسرغالب شاہ سید
18 نومبر 1997 ء کو یورپ کے سینماگھروں میں پہلی دفعہ ریلیز ہونے والی ڈا ئریکٹر جیمز کیمرون(James Cameron) کی شہرہ آفاق فلم ٹائٹانک ( Titanic) کی خوبرو ہیروئن روز(Rose) اور پر کشش ہیرو جیک ڈاوسن(jack Dawson) تو سب کو یا د ہونگے مگر اس فلم کی تین باتیں میں کبھی نہیں بھولتا۔سمندرکی تاریخ میں ایچ۔ایم۔ ایچ۔ ایس برٹانک((HMHS Britannicکے بعد ڈوبنے والی آر۔ ایم۔ایس ٹائٹانک (RMS Titanic)سب سے بڑا بحری بیڑا تھا۔ جو15 اپریل 1912 کوشمالی بحر اوقیانوس(North Atlantic Ocean) میں دو ہزار دو سو چوبیس مسافروں کو لیکر ڈوب گیا۔جن میں سے پندرہ سو سے ذیادہ مسافر اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔
پہلی بات جو اس فلم کے حوالے سے میں کبھی نہیں بھولتا وہ یہ کہ غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے۔کشتی بنانے والے آئیر لینڈ کے معروف ماہرین تعمیرات بحری ہارلینڈ اور وولف (Harland and Wolf) کو اس جہاز پر اتنا گھمنڈ تھا کہ کسی انٹرویو کے دوران انہوں نے یہ تک کہا تھا کہ نعوذباللہ، یہ جہاز اتنا مظبوط ہے کہ آسمانوں کا مالک بھی اگر چاہے تو اس جہاز کو نہیں ڈبو سکتا۔ٹائٹانک انتہائی مظبوط،جدید انجنئیرنگ کاشاہکار اور اعلی نمونہ تھا۔اسکے برابر خوبصورت اور مظبوط جہاز تب تک کوئی نہیں بنا تھا۔ یہ مضبوطی، آسائشوں اور خوبیوں کے حوالے سے اپنی مثال آپ تھا، مگر دنیا نے دیکھا کہ یہ انتہائی مظبوط ترین بحری بیڑا، جس نے اپنا پہلا سفر 10 اپریل کو بحر اوقیانوس شمالی کے تند و تیز لہروں پر اتراتا ہوا شروع کیا اور ٹھیک پانچ دن بعد یعنی15 اپریل 1912 کوانتہائی بے بسی کے عالم میں حادثے کی نذر ہوگیا۔ یوں یہ طاقتور ترین بحری بیڑا صرف پانچ دن کی زندگی ہی جی سکا۔اور پانچ دنوں کے قلیل ترین دورانیے میں سمندر کے تاریک تہوں کی نذر ہوگیا۔ ۔اسے اسکے کیپٹین کا غرور اورغفلت لے ڈوبی۔تاریخ شاہد ہے،دنیا کے کئی ملک اور قومیں جنہوں نے غرور اور غفلت کا مظاہرہ کیا،صفہء ہستی سے مٹ گئیں۔ اپنے قوت بازوں، خاندان، نسل، ملک و ملت،ایمان و عقائد اور تقوی پر رشک اور فخر ضرور کرنا چاہئے مگر غرور کسی طور جائز نہیں۔انفرادی زندگی ہو یا قومی زندگی غرور سے توبہ کرنا چاہیئے اور آنکھیں کھول دینی چاہئیے۔قدرت کسی قوم یا کسی فرد کی بقا اور ترقی کا وعدہ نہیں کرتی۔بقااور ترقی کا دارومدار افراد اور قوموں کے اپنے طرز عمل اورلائحہ عمل پر منحصر ہے۔
دوسری بات جو ٹائٹانک کے حوالے سے میں ہمیشہ یاد رکھتا ہوں وہ یہ کہ چیزیں وہ نہیں ہوتی جو ہمیں دیکھائی دیتی ہیں بلکہ اکثر چیزوں کی حقیقت اور اصلیت بسا اوقات ہم سے پوشیدہ ہوتی ہے۔ ٹائٹانک سمندر کی سطح پر تیرتے ایک بہت چھوٹے سے برفانی تودے سے ٹکرا کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ مگر سمندر کی سطح پر تیرنے والا یہ برفانی تودہ دراصل بہت بڑا تھا جسکا ستر فیصد حصہ سمندر کی لہروں تلے دبا ہو ا تھا جو جہار کے کیپٹین کی نظروں سے اوجل تھا۔ عزیز ہم وطنو! کیا اجکل کے حالات اور مناظر جو ہمیں دیکھائی دے رہے ہیں، کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ بالکل اس برفانی تودے جیسی ہی تو ہیں جو ٹائٹانک کے کیپٹین کو دکھائی دی؟کہاں گئی وہ ررقص کرتی ہوئی زندگی؟کہاں گئیں وہ چھنچھناتی ہوئی رقص و سرور کی محفلیں؟ کہاں گئی وہ ہوٹلوں،کلبوں،سپا،سوئمنگ پول کی چھنکتی ہوئی چکاچوند روشنی، کہاں گیا وہ کھیل کے میدانوں کاشور،کہاں گئی وہ شاپنگ مالز کی رونق؟ کہاں گیا وہ فضاوں کی بلندیوں سے سنائی دینے والا ہوائی جہازوں کا گھن گرج َ؟کہا گئے سرسوتی دیوی کے رچے ہوے وہ مندر یعنی سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی رونقیں؟کہاں گیا وہ رومانس؟ کہاں گئے وہ جلسے اور دھرنے؟۔۔۔۔ سب کچھ یکسر بدل چکا۔پوری دنیا ایک ساتھ اتنی جلدی منہ موڑ لیگی یہ کبھی سوچانہ تھا۔تبدیلی کوئی بھی ہو اکثر بتا کر نہیں آتی۔ کیا یہ صورت حال کچھ مہینے رہنے والی ہے؟کچھ سال؟ یا پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے؟جس رفتار سے انسانی زندگی کا ضیاع اور آبادی میں کمی واقع ہو رہی ہے اور اسی رفتار سے اگر یہ سلسلہ چار پانچ سال جاری رہا تو پہلی جنگ عظیم جس نے چار سال کے عرصے میں براہ راست نو ملین فوجی اور سات ملین سول جانوں کونگل لیا جبکہ دوسری جنگ عظیم جوپانچ سے چھ سال کے عرصے میں ستر سے پچاسی ملین براہ راست جانیں لے چلی،ان دونوں سے ذیادہ انسانی جانوں کے خسارے کاامکان ظاہر کیا جا سکتا ہے۔شاید انسانی تاریخ کا یہ سب سے بڑا انسانی جانوں کا خسارا ثابت ہو۔میں آپکو ڈرانا نہیں چاہتا مگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔میں شتر مرغ کی طرح دشمن دیکھ کر ا ٓنکھیں بند کرنے کا بھی قائل نہیں ہوں۔چنانچہ ایک محتاط اندانے کے مطابق زندگی اپنی قدیم راہوں کا سفر اختیار کر لینے والی ہے۔جہاز، گاڑیاں روبوٹ سب عجائب خانوں میں رکھے جائینگے۔سیاحت کے لئے پا بہ پیادہ یا پھر جانورں جیسے گھوڑوں اور اونٹوں وغیرہ کا استعمال کیا جائے گا۔ سیاحت کی اس تباہی کے ساتھ ساتھ ہوٹل انڈسٹری بھی قصہ پارینہ بن جائے گی۔ جب ہوٹل بند ہونگے تو سوئمنگ پول، سپا، کلب وغیرہ کا کاروباربھی اخری سانسیں لینے پر مجبور ہو نگے۔ تعلیم عہد عتیق کی طرح گھروں پر یا پھر انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن وغیرہ پر دی جائیگی۔یہ سب ہوگا تو ہر ملک سوائے اپنے شہریوں کے ہر ایک کو اپنے ملک سے بے دخل کرنا شروع کر دیگا۔۔۔۔۔۔ واں تو قومیں زوال پذیر ہوتیں تھیں یاں تو پوری دنیا اجڑنے جا رہی ہے۔ بظاہر یہ دنیا کا اجڑنا معلوم ہوتا ہے مگر یہی اس کرہ ارضی اور کل کائنات کے لئے بننے اور نشوونما کا سبب بھی بنے گا۔کچھ عرصہ قبل بھائی وسعت اللہ خان نے ایک کالم لکھا تھا جسکا موضوع تھا۔،،کرہ ارضی مخصوص وقت کے لئے صفائی کی غرض سے بند ہے،،۔اس مخصوص عرصے کی بہ غرض صفائی بندش نے بہت ساری مثبت تبدیلیوں کو جنم دیا ہے۔مثلامدتوں بعد سمندر کے پانیوں میں لوگوں کو پھر سے اپنا عکس دیکھائی دینے لگی ہے۔ شہر کے لوگوں نے عرصے بعد نیلے گگن اور تاروں کا دیدار کیا ہے۔جنگلی جانور اور پرندے حیران ہیں کہ بارودی بندوقیں کیسے خاموش ہیں؟سائنسدانوں کے مطابق اوزون لیئر کی برباد اور تباہ حال تہیں جس میں جگہ جگہ سوراخ پڑ کرپھٹنے کو تھیں، بالکل بحال ہورہیں۔ میری اپنی ذاتی رائے ہے کہ زمیں کی عمر اور صحت میں بھی اضافہ ہوا ہوگا۔۔۔تو سوچئے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بے ہنگم ترقی اور من موجی انسانی رویوں نے نیچرکوآخرکتنا بگھاڑا ہوگا؟ اور یہ کہ موجودہ حالات،طرز زندگی اور رویے کرہ ارضی اور کل کائنات کے لئے کتنی اہم ہوتی جارہی ہیں۔گویا یہ ایک اشارہ ہے کہ طرز زندگی یکسر بدلنے والی ہے۔ ایسا بھی تو ہوسکتا ہے۔خیر
تیسری بات جس کو میں نے اپنا عقیدہ بنایا ہوا ہے وہ ٹائٹانک کے ان موسیقاروں کے حوالے سے ہے جنکا کام اس بحری بیڑے کے ایکزیکٹیو ہال میں مسافروں کو خوش رکھنے کے لئے موسیقی بجانا تھا۔جب حالات موافق تھے تو یہ موسیقار اپنی پوری تندہی،جوش و جذبے اور ایمانداری کے ساتھ موسیقی بجانے میں مصروف تھے۔ مگر جسطرح جہاز کا برفانی تودے سے ٹکرانے اور سمندر ی پانی کابحری بیڑے میں داخل ہونے کی خبر نے ہر ایک کو پریشان اور سرا سیمہ کر دیا وہاں موسیقاروں کا یہ عملہ بھی پریشاں ہوے بغیر نہیں رہ سکا۔ جب جہاز کے اندر جان بچانے کے لئے بھگدڑ شروع ہوئی تو موسیقاروں کے عملے نے بھی ایک دم جان بچانے کے لئے بھاگ نکلنے کی ٹھان لی مگر انکی پیشہ وارانہ ذمہ داری، انکی خودی اور انکی انسانیت انکے آڑے آئی۔ انہوں نے سوچا کہ ہمیں پیسے مسافروں کو خوش رکھنے کے ملتے ہیں اور یہ وقت مسافروں کو اور ذیادہ خوش رکھنے اور انہیں حادثے کی ہیبت (Panic)سے بچانے کا ہے،پس کیا تھاکہ یہ خیال آتے ہی انہوں نے اپنے سازوں کے دھن اور تیز بکھیرنے شروع کیے اور تب تک اپنی موسیقی سے پریشاں حال لوگوں کو محضوظ کرتے رہے جب تک کہ جہاز پورے کا پورہ نہ ڈوبا اور انکی اپنی سانسیں نہ نکلی۔ اب یہ ہمیں سوچنا ہے کہ ہماری ذمہ داریاں (گھریلوے،پیشہ وارانہ،مذہبی،قومی،انسانی)کیا کیا ہیں اور اس عالمی حادثے کے دوران ہم پریشان حال انسانیت اور کائنات کی اپنی آخری سانس تک کیا مدد کر سکتے ہیں؟۔۔۔