Uncategorizedکالمز

اے وطن ! پیارے وطن

تحریر: محبوب حسین 
14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آنے والی اسلامی ریاست ، اسلامی ریپبلک آف پاکستان ہمارے بزرگ،  شعراء، وکلا، دانشور حضرات، فلاسفرز، سیاستدان، سماجی و مذہبی رہنماوں , علماء کرام، نوجوانوں کی انتھک محنت بھرپور جدوجہد کے بعد دنیا کے نقشے پر اسلامی ریاست کی شکل میں نئی اسلامیک مملکت خداداد پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔ تب سے لیکر میرے ملک پاکستان نے بہت سارے نشیب و فراز دیکھیں جس میں ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان کے ساتھ چار مرتبہ جنگ۔  میرے پاک وطن میں اندرونی اور بیرونی دونوں سازشوں میں الجھتا رہا اور اب بھی یہ سازشیں اپنی اپنی مفادات کے خاطر جاری و ساری ہے۔
کبھی دشمن ملک بھارت کے ساتھ جنگ تو کبھی اپنے اندرونی دشمنوں کے ساتھ آپریشن ضرب عزب، اپریشن ددلفساد سے اندرونی دشمنوں کا صفایا کرنا ۔ کبھی جمہوریت نے جی بھر کے حکمرانی کی تو کبھی امریت نے اقتدار کے مزے چکے۔
پھر بھی میرے ملک پہ اللہ کی رحمت جاری و ساری ہے۔ ایک ایسا دیش جس میں جو قدرتی وسائل سے ملا مال جہاں چاہو وہ آپکو ہر قدم پہ میسر چاہے وہ صاف و شفاف پانی کی شکل میں ہو تیل کی شکل میں ہو یا تازہ ہوا کی شکل میں۔ اور اسکی حسن میں دوبلا کرنی والے  دلکش قدرتی نظارے۔ جس میں اونچے اونچے برف پوش پہاڈی سلسلے، ان سے بہتے ابشاروں کی گونج، ان پہ کئی سالوں سے جمی ہوئی گلیشیروں کی موجودگی۔ سرسبز وشاداب کھیتوں میں مختلف قسم کے اگنے والے پھل، میوے، پودے، اور ان جنگلوں میں کئی قسم کے درخت اور ان میں بسنے والے جنگلی جانوروں کی موجودگی۔ اور اس سے بھی بڑھ کے یہاں کا موسم جس میں بہار، خزاں، سرما اور گرما ان تمام قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے میرا پاک وطن ایک الگ ہی پہچان رکھتا ہے۔
میرے وطن میں کس شے کی کمی ہیں؟ آخر ہر کوئی اس ملک کو لوٹنا کیوں چاہتا ہے؟ کیونکہ اجتماعی مفادات کو ترک کر کے انفرادی مفادات کو ترجی دی جاتی ہے؟ کیوں میرے ملک ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہے؟ کیوں ہم دوسروں کے آگے ہاتھ پھلا رہے ہیں؟ کیوں ہم دوسروں کا محتاج ہیں؟ ایسے بہت سارے سوالات مجھ سمیت ہر ایک شہری کے زہین میں گردش کر رہیں ہیں۔
موجودہ حالات پہ ہی اگر نظر ڈالیں تو ہر طرف سیاست ہی سیاست چمکا رہیں ہیں۔ ہر پارٹی اپنی پارٹی کی مظبوطی کے لیے کام کر رہا ہے اگر کوئی خدمت بھی کررہا ہے تو وہ یہ سوچ کے کر رہا ہے کہ اس سے میرے پارٹی کو فائدہ پہنچے چاہے وہ صوبہ سندھ ، پنجاب، سرحد ، بلوچستان، آزاد کشمیر یا گلگت بلتستان میں ہو۔ پارٹی اہمیت پہلے اور ملک اور شہری بقا بعد میں اس فلسفے کو لے کر ہر کوئی آگے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ہر طرف ذخیرہ اندوزی کا گرہ اور نو سیر بازوں کا گروہ سر گرم نظر آرہیں ہیں۔ ہر کوئی اپنی زاتی مفاد کو ترجیح دیں رہیں ہیں ملک کا بیڑا غرق کرنے کی چکر میں لگے ہوئے ہیں۔
کہیں پہ کروناوائرس پہ سیاست تو کہیں پہ ٹائیگر اور پیپلز فورس پہ سیاست۔ کہیں پہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پہ سیاست تو کہیں پہ احساس پروگرام پہ سیاست۔ کہیں پہ راشن پہ سیاست تو کہیں پہ لاگ ڈاون پہ سیاست، ہر طرف سیاست ہی سیاست نظر آرہا ہے۔ کوئی بھی ملک کے مستقبل کے بارے نہیں سوچ رہا ہے۔
ہر طرف انتہاپسندی، کرپشن، چالاکی، رشوت خوری، انا پرستی، مفاد پرست، وغیرہ کا بازار گرم ہیں۔ ہر کوئی اپنی پیٹ کے خاطر دوسروں کا حق ناجائز طریقے سے مارنے کی چکر میں ہیں۔
ہمارے بزرگوں نے پاکستان اسلیے نہیں بنایا تھا کہ ایک ہی ٹولہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ ہمارے دانشوروں اور ادیبوں نے بڑے جدوجہد کے بعد اس مملکت خداداد پاکستان کا سنگ بنیاد رکھا تھا کہ یہاں سارے بسنے والے لوگ خوشحالی سے زندگی بسر کر سکیں۔ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ ہی مسکراہٹ ہو۔
اشفاق احمد اپنے کتاب زاویہ میں ایک واقعہ کچھ اس طرح بیان فرماتے ہے کہ کوئی ڈاکٹر تھے، ڈاکٹر کا نام شاہ بتایا جاتا ہے۔ وہ کسی ٹی وی شو میں انٹرویو دے رہے تھے۔ اور اتنے عمر رسیدہ بھی نہیں تھے لیکن بہت چھوٹی سے عمر میں انہوں نے بہت سارے آپریشن کیے۔ اتنے ہزاروں آپریشن کیے کہ گینیز بک میں اسکا نام آتا ہے، یا آنے والا ہے، یا آئے گا۔ تو میری توجہ انکی طرف ہوئی ۔ وہ اچھے سے سمارٹ سے، پیارے سے، اچھی گفتگو کرنے والے ایک ڈاکٹر تھے۔ اور یہ بتا رہے تھے کہ میں نے کتنے تیزی سے کتنے سارے اپریشن کیے۔اور اتنی تیزی سے کیوں کیے۔ میں مال بھی بنانا چاہتا تھا ، اور یہ بھی کہتے تھے کہ میری انگلیوں میں بھی کچھ اس قسم کی ایک لگن آباد تھی ، ایک Creativity تھی، ایک تخلیق تھی کہ میں جلدی سے جلدی زیادہ سے زیادہ کام کرنے کا خوہشمند ہوں۔ تو کمپیر نے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں کہ آپ کی زندگی کا کوئی بہت مشکل آپریشن تھا؟ تو انہوں نے کہا ، یوں تو بہت سارے آپریشن مشکل ہوتے ہیں، لیکن ایک آپریشن بہت مشکل تھا جس نے بہت زیادہ وقت لیا، اور میری بہت زیادہ توجہ لی، اور میں بہت سٹپٹایا، لیکن میں بڑی کوشش کے ساتھ ، اور تحمل کے ساتھ اس پر لگا رہا۔
کہنے لگے کہ میں اپنے سرجری ہاسپٹل میں تھا کہ اچانک وہاں پر ایک اپاہج آدمی کو جو ابھی اپاہج ہوا تھا۔ کوئی ایک ادھا گھنٹہ قبل ، اسے چارپائی پر ڈال کر لائے۔ وہ ایک نوجوان تھا جس کی دونوں ٹانگیں، ایک تیز دھار آلے سے کٹ گئی تھی، اور اس کے ساتھیوں نے اسکے رانوں پر بڑی مظبوطی کے ساتھ اپنے رومال یا کوئی رسیاں باندھی تھیں، تاکہ جریان خون نہ ہو اور وہ جب وہ میرے پاس پہنچا میں حیران تھا کہ اسکا کیا کروں ۔ کیونکہ اسے دونوں ٹانگیں کٹ گئیں تھیں۔ اس کے فورا بعد دو آدمی، بھاگے بھاگے آئے ، اور انہوں نے کہا کہ جی اس کی دونوں ٹانگیں مل گئی ہیں۔ جس تیز دھار آلے سے کٹی تھیں، مشین میں کام کرتے ہوئے اسکے دونوں ٹانگیں ران سے نیچے کٹ کر دور جا گری تھیں، تو یہ واقعہ اور یہ سانحہ گزراتھا، پاکستان سٹیل میلز میں۔ ایک کوئی بڑا تیز طکر گھوم رہا تھا۔ کٹاو دار جس میں وہ کام کرتے ہوئے قریب آیا تھا کسی کام کی غرض سے۔ وہ مزفور بڑا ذہین، بڑا قابل اور بہت سمجھدار تھا، لیکن وہ اس کی لپیٹ میں آگیا ، اور لپیٹ میں آتے ہی اس کی دونوں ٹانگیں کٹ گئیں، اور وہ بہت دور جا گریں، اور اسکے ساتھیوں نے تلاش کرلیں، اور وہ اسکو ڈاکٹر صاحب کے پاس لے کر آگئے۔ تو ڈاکٹرصاحب نے کہا کہ وہ میرے لیے بڑا امتحان کا وقت تھا۔ میں ، اور میرے ساتھی، اور میرے اسسٹنٹ میرے ساتھ لگے۔ ہم کوئی مسلسل 18 گھنٹے اس پر کام کرتے رہے، اور اللہ کا فضل یہ ہوا کہ ہم ان کی دونوں ٹانگیں جوڑنے میں کامیاب ہوگئے ۔ اب خطرہ ، اندیشہ، شائبہ یہ تھا کہ بہت ممکن ہے کہ Nerves اس کے ساتھ ٹھیک طرح سے نہ جڑی ہوں، جو شریانیں اور وریدیں ہیں، وہ اپنی جگہ پر نہ لگی ہوں، کیونکہ یہ آپریشن ہی بہت بڑا تھا، لیکن ہم خدا سے دعا کر مانگ کے اس کام پر لگے ہوئے تھے، اور جب آپریشن ختم ہوا تو ہم ڈاکٹر بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگے تو وہ جو اس کے دوسرے ساتھی مزدور تھے انہوں نے ہمیں بتایا کہ جب ہم اس کو چارپائی پر لے کر چلے ہیں تو وہ صاحب جو تھے، جن کا نام شکور تھا، وہ تھوڑے ہوش میں تھے ۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو بلا کر کہا کہ مشین بند نہیں کرنا ، کیونکہ یہ مشین ایک دفعہ بند ہوگئی تو اس کے چلانے میں 10 لاکھ کا خرچہ اتھتاہے۔ تو اس مشین کو  بلکل بند مت کرنا میں نہیں چاہتا کہ میرے ملک کو یا میرے اس کارخانے کو کوئی نقصان پہنچے۔ تو اس کے بعد وہ نیم بے ہوشی میں چلا گیا۔
اب میرا مقصد اس سارے واقعہ کو سنانے کا یہ ہے کہ وہ کون آدمی ہے، اور وہ کس طرح سے اس ملک کے ساتھ وابستہ ہے، اور ہم کیا کریں، اور کدھر جائیں کہ ہم اس کو سلام کر کے ائیں اور جب تک وہ زندہ رہے ہم زندہ رہیں، ہمارے اور اس جیسے ایمانداروں کے ساتھ سلام دعا کا  سلسلہ جاری اور قائم رہے۔اس قسم کے جو لوگ ہیں ، انہوں نے پاکستان بنایا ہے۔ اس کو آگے بڑھایا ہے۔ اس کو لے کر چلے اور اسکو ساتھ ساتھ چلے رہے۔ اور ایک درناک بات جو میں آپ کی خدمت میں ضرور عرض کرونگا۔ وہ یہ کہ اس کارخانے میں اس سٹیل مل میں ، اسی قسم کے پاکستانیوں نے جو اس سے بہتر تعلیم یافتہ تھے، وہاں سے اتنا کچھ کھسوٹا، اور جس شدت کے ساتھ لوٹا ، اس کی خبریں آپ نے اخباروں اور ٹی وی پہ سنا اور دیکھا ہوگا اور پڑھی ہوں گی اور وہ خاتون جنہوں نے بڑا اعتراض کیا تھا کہ کیوں میری تصویر فوٹو کھینچی گئی ہے۔ کہا ہو گیا اگر میں نے 10-15 کروڑ نکال کیا ہے تو۔ میرے ملک کو ان جیسے درندوں نے لوٹا ہے اور آج میرا ملک دوسروں کے سامنے ہاتھ پھلا کے مانگ رہا ہے۔ کہیں ہم ائی ، ایم۔ایف سے مابگ رہے ہے تو کہیں ہم والڈ بینک سے تو کہیں ہم ایشن بینک سے تو کہیں ہم امریکہ سے تو کہیں ہم چین سے تو کہیں ہم برطانیہ اور سعودی عرب سے۔ میرے ملک کی معشیت کا بیڑا غرق کیا ان چوروں، لٹیروں اور ڈاکوؤں نے۔
اشفاق احمد ایک اور واقعہ کچھ اس طرح بیان فرماتے ہے کہ ہم دوستوں کے ہمراہ سندھ کے مشہور صحراDesert تھرپارکر میں کہیں ریسرچ پہ جارہے تھے کہ پیاس لگی کیونکہ صحرا میں دور تک پانی کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ اور علاقہ بھی ایسا کہ کہ نہایت نامانوس تھا۔ وہاں ایک بڑا سا درخت تھا۔ ایک بڑی عجیب قسم کا درخت جو شاید صحرا کے اس دلدل میں ہی ہو سکتا تھا، اور پیاس بھی شدد کی لگی ہوئی تھی، اور ہم خوفزدہ بھی تھے۔ تو جب ہم نیچے پہنے تو آپ سن کر حیران ہونگے کہ وہاں ایک ہینڈ پمپ لگا ہوا تھا تو میں نے کہا کہ ممتاز یہ تو پانی ہے۔ یہ اللہ نے ہی ایسا لگایا ہے۔ اس نے کہا کہ کہیں یہ پانی زہریلا  نہ ہو۔ خیر وہی پر ایک پرانی وضع کی مٹکی سی بھی تھی مٹی کی، اور اس پر بہت سارے کائی جمی ہوئی تھی۔ اسکے گلے میں دھاگا ڈال کر ایک کارڈ سا بھی لٹک رہا تھا جس پر سندھی اور اردو زبان میں ایک عبارت ٹحریر تھی کہ خبردار! اس مٹکی کا پانی مت پینا۔ سب سے پہلے اس مٹکی کو اٹھا کر اس کے پانی کو نلکے میں ڈالیں اور جن وہ پورا بھر جائے پھر آپ ہینڈل چلائیں اور لانی پی لیں۔ چنانچہ ہم نے مٹکی اٹھائی۔ پانی اس میں ڈالا ہینڈل چلایا اور پانی فٹافٹ چلنے لگا۔ اور ہم سب نے پیا، لیکن اسکے ساتھ ہی ایک آخری instruction تھی ۔ یاد رکھے! جاتے وقت اس مٹکی کو پانی سے بھر کر رکھ کر جائیں۔ اگر آپ نے پانی لیا ہے تو آپ کو پانی دینا بھی پڑے گا اور رکھنا بھی پڑے گا، ورنہ یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سوکھ جائے گا اوع وہ لوگ جو اس علاقے میں آئیں گے وہ ٹھنڈے پانی سے محروم ہوجائیں گے۔ واہ کیا واقعہ بیان کیا تھا آج میرے ملک کا ایسا حال کیا ہے کہ جس کی بس میں جو ایا ہے لوٹا ہے۔ انے والے نسل کا کسی نے نہیں سوچا یے اپنے جیبوں کو ہی بھر کے رکھا ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کا خزانہ بھرتے تو آج ہم کسی کے سامنے بے بس نظر نہیں آتے۔ اللہ ہم سب کو آسانیاں نصیب فرمائیں اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بھی عطا کریں، اور وہ مٹکی ہمارے ساتھ جائے ، ہر وقت اور ہر گھڑی جس میں سے ٹھنڈا پانی ملتا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button