حتمی فیصلہ۔۔۔
تحریر: ایمان شاہ
ڈاکٹر اقبال نے واضح اور دو ٹاک الفاظ میں بتایا ہے کہ وہ کسی صورت استعفیٰ واپس نہیں لینگے، اورنگزیب ایڈووکیٹ اور شمس میر غلط بیانی کررہے ہیں، وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے کے حوالے سے پریس کانفرنس کی تھی، صوبائی وزیر قانون اور صوبائی مشیر اطلاعات عوام کے سامنے سچ بولیں، جھوٹ بول کر گلگت بلتستان کے عوام کو گمراہ نہیں کر سکتے، ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ بیوروکریسی طاقتور ہے اور عوامی نمائندے کمزور جسکی وجہ سے بیوروکریسی اپنی بات منوا لیتی ہے اور ہم جیسے عوامی نمائندے ہار مان لیتے ہیں، وزیر قانون کے ساتھ بھی بد تمیزی کی گئی تھی، چند گھنٹے بعد صوبائی حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے، میں نے ہوم سیکریٹری کے تبادلے کا بھی مطالبہ نہیں کیا کیونکہ مجھے اس بات کا اچھی طرح ادراک ہے کہ ہمارے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے اور اگر اختیار رکھتے بھی ہیں تو عوامی نمائندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی کا پلڑا بھاری ہے اس صورتحال میں میرے پاس وزارت سے مستعفی ہونے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا، مجھے ابھی تک اس بات کا جواب نہیں ملا کہ اگر سفارشات کی حد تک کمیٹی کا مینڈیٹ تھا تو پھر پریس کانفرنس کرنے کی نوبت کیوں پیش آئی؟ کمیٹی خاموشی کے ساتھ اپنی سفارشات وزیر اعلیٰ پو پیش کر دیتی جسکے بعد ایپکس کمیٹی اور صوبائی کابینہ سے منظوری لی جاتی، لاک ڈاؤن میں نرمی کے حوالے سے مشیر اطلاعات شمس میر اور وزیر قانون اورنگزیب ایڈووکیٹ پر دباؤ تھا اور بلتستان ریجن سمیت دیامر کے وزراء کے لاک ڈاؤن میں نرمی کے حوالے سے تحفظات رکھتے تھے تو رات گئے جاری پریس ریلیز سے قبل مجھے اعتماد میں لیا جاتا، ایسا نہیں کیا گیا، پریس کانفرنس کی تردید کے حوالے سے اگلے دن صبح اورنگزیب ایڈووکیٹ نے فون کرکے مجھے آگاہ کیا اور بتایا کہ ہماری پریس کانفرنس کی جگہ دوسری خبر آئی ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا بلکہ کمیٹی کی تجاویز سامنے آئی ہیں، اورنگزیب ایڈووکیٹ خود بھی غصے میں تھے، میں نے وزیر قانون کو بتایا کہ مجھے صورتحال کا علم نہیں اور میں کچھ دیر میں اس تمام صورتحال کا جائزہ لیکر کوئی فیصلہ کرونگا، اخبارات اور سوشل میڈیا میں جائزہ لیا تو صورتحال گھمبیر تھی اور جس طرح کے پیغامات سوشل میڈیامیں سامنے آرہے تھے وہ تکلیف دہ تھے، میں نے اپنے حلقے کے پارٹی ورکرز اور عہدیداروں کے ساتھ ہنگامی مشاورت کے بعد وزارت سے استعفیٰ کا فیصلہ کیا جو حتی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی خارج از امکان ہے، بیوروکریسی کے ساتھ روا رکھی گئی حد درجہ نرمی اور رعایت کے منفی اثرات سامنے آئینگے جو پاکستان مسلم لیگ ن کیلئے نیک شگون نہیں ہے۔۔۔
صوبائی وزیر تعمیرات (سر دست سابق نہیں لکھ سکتا کیونکہ استعفیٰ ابھی تک منظور اور نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا ہے) ڈاکٹر محمد اقبال کے ساتھ اتوار کی شام ٹیلی فونک گفتگو کا خلاصہ میں نے بیان کر دیا ہے، ڈاکٹر محمد اقبال کا لاک ڈاؤن میں نرمی کے اعلان کے حوالے سے کی جانے والی پریس کانفرنس سے قبل جھگڑا ہواتھا، تلخ کلامی اور ہاتھا پائی تک بات جا پہنچی تھی، سیکریٹری داخلہ کا موقف تھا کہ کابینہ کی سب کمیٹی کو اس بات کا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ فیصلہ صادر فرمائے، سب کمیٹی اپنی سفارشات متعلقہ فورم تک پہنچائیگی اور متعلقہ فورم یا فورمز سے حتی منظوری کے بعد پریس کانفرنس کے ذریعے عوام الناس تک لاک ڈاؤن میں نرمی کے حوالے سے تمام تر تفصیلات سے آگاہ کیا جائیگا، صوبائی وزیر تعمیرات جو کابینہ کی سب کمیٹی کی سربراہی کررہے تھے کا موقف تھا کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے کمیٹی کو اختیار دیا ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے حوالے سے فیصلہ کریں اور اس فیصلے کے باقاعدہ اعلان کیلئے پریس کانفرنس کریں، ڈاکٹر محمد اقبال کا یہ بھی کہنا ہے کہ پریس کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے ہوم سیکریٹری کے ساتھ اختلافات سامنے آئے تو مشیر اطلاعات شمس میر نے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کو صورتحال سے آگاہ کیا، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے پریس کانفرنس کرنے کیلئے گرین سگنل دید یا اور بقول ڈاکٹر اقبال کے پریس کانفرنس کیلئے گرین سگنل ملنے کی اطلاع شمس میر نے پہنچائی جسکے بعد لاک ڈاؤن میں نرمی کے حوالے سے طویل پریس کانفرنس کی گئی جس دوران وزیر قانون اورنگزیب ایڈووکیٹ اور مشیر اطلاعات شمس میر آخر تک موجود رہے اور کسی بھی مرحلے پر اختلاف نہیں کیا، ڈاکٹر محمد اقبال کا موقف کم و بیش بغیر کسی رد بدل کے آپ کے سامنے پیش خدمت ہے، میں اس مسئلے پر زیادہ تبصرہ نہیں کرونگا تاہم ان سوالات (ڈاکٹر اقبال کی جانب سے اٹھائے گئے) کا تسلی بخش جواب عوام تک پہنچانا صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے اور سوالات بہت حد تک معقول ہیں، ڈاکٹر محمد اقبال اگر یہ کہتے ہیں کہ اورنگزیب ایڈووکیٹ کو پریس کانفرنس کے انعقاد سے اختلاف تھا تو آخر تک پریس کانفرنس میں کیوں بیٹھے رہے؟ کابینہ کی سب کمیٹی کا مینڈیٹ صرف سفارشات کی تیاری کی حد تک محدود تھا تو پریس کانفرنس کے انعقاد کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ بلتستان ریجن اور دیامر ریجن کے وزراء کو تحفظات تھے تو مجھے (ڈاکٹر محمد اقبال) فون کرکے فیصلہ واپس لینے کیلئے پریس ریلیز کے اجراء سے قبل اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا؟ اگلے دن (اخبارات میں فیصلہ واپس لینے کی خبر کے شائع ہونے کے بعد) صوبائی وزیر قانون مجھے فون کرکے اس صورتحال پر غم و غصے کا اظہار کیوں کرتے رہے؟ صوبائی وزیر تعمیرات کی جانب سے چند سوالات اٹھائے گئے ہیں، صوبائی وزیر قانون اورنگزیب ایڈووکیٹ اور مشیر اطلاعات شمس میر کے ساتھ اس حوالے سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے، دونوں وزراء اپنا موقف پیش کرنا چاہتے ہیں تو اگلے کالم میں دونوں معزز وزراء یا صوبائی حکومت کا موقف تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کیلئے صفحات حاضر ہیں۔۔۔۔