کورونا، ایک آزمائش یا سزا؟
تحریر: زیب آر میر
دسمبر کے اوائل میں چین کے صوبے ووہان سے پھیلنے والی وائرس کرونا نے دنیا بھر میں تباہی پھیلادی۔اور عالمی ادارہ صحت سمت بڑے بڑے سپرپاورز کو جنھجوڑ کے رکھ دیا سب کے سامنے پنجے گاڑ کر موت کو ان کے سر منڈلاتے دیکھا رہا ہے۔کرونا نے کسی کو نہیں بخشا نہ امیر غریب،گوراکالا،چھوٹے بڑے اور سربراہان مملکت سمت ہر بندے پر جھپٹ پڑا۔بدقسمتی سے بہت سارے معصوم لوگ اپنے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اب تقریباً ذیادہ تر مما لک اس کا شکار ہیں اور انے والے دنوں میں مزید کہاں کہاں پہنچ سکتا ہے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ایسے میں پاکستان کا اس سے متاثر ہونا کوئ اچھنبے والی بات نہیں۔اج نہیں تو کل انا ہی تھا۔اب پہلے کا دور نہیں ریا کہ لوگ سفر نہ کریں اور گھروں سے نہ نکلے۔اور اوپر سے بہت قریبی دوستی اور ہمسائیگی بھی ہو۔ایسے میں یہ سمجھنا کہ ہم اس کے شر سے محفوظ رہینگے گویا اپنے اپکو بھلانے والی بات ہوگی۔سو اج مملکت خداداد ،گلگت بلتستان اور کشمیر بھی اس کے زیر عتاب ہے
انسا نی تار یخ قدرتی آفات سے بھرا پڑا ہے ۔ یہ کو ئی پہلی ؤبا نہیں ۔ مختلف ادوار میں متلف وبا ئیں پھیلتی رہی ہیں ۔ ایسی وبا و ں کے نتیجے میں لا کھو ں لو گ لقمہؐ اجل بن چکے ۔ ہر قدرتی افت میں انسان غلطیاں کر تا رہتا ہے جس کی وجہ سے انسان اس وبا سے بھی زیادہ نقصان کا شکار بن جاتا ہے ۔ ہر قدرتی آفت ا ور وباء سے انسان کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہے ۔
ہم نے آج تک کیا سیکھا ہے؟ ۔ میں اپنے چندذاتی مشا ہدات آپ سب کےگوش گزار کرنا چا ہتی ہو ں ۔ جب سب سےپہلے اس وبا کا ابتدا چین سے ہوا تو پوری دنیا میں کسی نے بھی اس کو سنجید گی سےنہیں لیا ۔مجھے اچھی طر ح یاد ہے جب ایک سا ئنسدا ن نے مشورہ دیا کہ اس وبا کو سنجید گی سے لو اور ابھی سے ہی ا سکے خلا ف اقدا مات کرو ورنہ یہ پوری دنیا میں پھیل جائیگی تو لو گو ں نے اس کو مذ اق میں ٹال دیا ۔ سب نے اس وبا کو چین والوں کی بیماری سمجھا ۔ چینیوں کو طعنےدینےلگےکہ نجانے تم کیا کیا کھا تےہو تو ایسی تمہیں بیما ر یاں لگتی ہیں ۔ امریکی صدر نےکرونا وائرس کو طنز ا چا ئنا و ا ئرس کہا ۔ سب نے چا ئنا کو تنہا چھو ڑا ۔ کسی نے اس کو چا ئنا پر عذاب کہا اور ہمارے کچھ علما نےتو چین پر مز ید عذاب کی بد د عا ئیں دی ۔ ا مر یکہ اوریو ر پ میں لوگ چین اور مشر ق بعید سے تعلق رکھنےوالے لو گو ں سے دور بھا گنے لگے ۔ اور پو رے سو شل میڈیا میں ان کا مذا ق اڑانے لگے ۔ چین اپنی لڑا ئیاں تن و تنہا لڑ تا رہا اور اس میں کا میا ب بھی ہوا ۔ مگر یہ وا ئیرس اہستہ اہستہ پو ری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لپٹنے لگا ۔ جنو بی کوریا ایران اٹلی سپین بر طا نیہ سے ہو تا ہوا امر یکہ پہنچ گیا ۔ آج امریکہ میں مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور سینکڑوں اموات رو زانہ ہو تی ہیں ۔ دنیا میں شا ید چند ایک ممالک رہ گئے ہیں جہاں ابھی تک یہ مو ذی وائرس نہیں پہنچا ہے ۔اسی طر ح یہ و ائرس مسلم دنیا تک بھی پہنچ گیا اور یہاں تک کہ ہما ری مسجد یں اور عبا دت گا ہیں بھی بند ہو گئی ۔ پا کستان میں روز روز نئی کیسزز سامنے آ رہی ہیں ۔ لیکن ہم ابھی تک کسی نہ کسی کو مورد الزام ٹھرا نے کے چکر میں لگے ہیں ۔ کبھی چین کو کوستے ہیں ۔ کبھی عمرہ سے آنے والو ں پر انگلی اٹھا تے ہیں کبھی ایران سے آنے والے ز ائیر ین پر الزام لگا تے ہیں ۔ اور کبھی تبلیغ جما عت کو مجرم ٹھرا تے ہیں ۔ یہ سب ہماری کم علمی کی وجہ سے ہے ۔ بغض اندر کی نفرت کو ظا ہر کرتا ہے ۔ کو ئی ز ائر مقدس مقا ما ت کی زیارت اس لئے نہیں گیا تھا کہ وہ بیما ر ی لے کے آ ئے گا ۔ کو ئی تبلیغی ا للہ کی راہ میں یہ سو چ کے نہیں نکلا تھا کہ ملک میں کرو نا پھیلا ئے گا ۔ کو ئی مزدور یا طا لب علم چین یا یو رپ وائرس لا نے غرض سے نہیں گیا تھا ۔ آگر آج یہ بیما ر ی ہمارے ہا ں پہنچی ہے تو اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں اور نہ ہی یہ میری جسم میری مر ضی والی ماروی سر مد کے ما رچ کی وجہ سے آئی ہے ۔ یہ وائرس ا نسان کا دشمن ہے اور اس نے یہ نہیں دیکھنا ہے کہ کون چین سے ہے کون امریکہ سے ۔ کون مومن ہے کون کا فر ۔ کون شیعہ ہے کون سنی ۔ کس نے عورت ماچ میں حصہ لیا ہے اور کس نے حیا ما رچ میں ۔ جب گھر کا ایک فرد بیمار ہو تا ہےتو اس کو اس بات پہ کوستے نہیں کہ وہ یہ بیمار ی کہاں سے لا یا اس کا علاج کیا جاتا ہے ا س سے ہمدردی کی جا تی ہے ۔اسے لعن طعن نہیں کیا جاتا ۔ یہ دنیا ایک گھر ہے اورانسان اس گھر کے افراد ا سلئے اگر کو ئی بیما ر پڑا ہے تو کچھ نہیں کر سکتے ہیں تو خا موش رہیں ۔ طعنہ زنی سے گر یز کر یں ۔ جہاں تک ہمارے گلگت بلتستان کا تعلق ہے وہ گھر تو کجا ایک گھو نسلے کے برابر بھی نہیں ۔ اگر ا س میں ہمارے کچھ بھا ئی بہن اس تکلیف میں سےگزر رہے ہیں تو ان کی حو صلہ افزا ئی کر یں ان کو تنہا نہ چھو ڑے ۔ کیو نکہ انسان کی اصلیت تب سا منے آتا ہے جب کو ئی مصیبت میں ہو تا ہے ۔ مصیبت میں ساتھ دینے والا اور ساتھ چھو ڑنے ولا ہمیشہ یاد رھتا ہے ۔ یہ وبا ہم سب ک دشمن ہے ۔ یہ مصیبت اج کسی ایک پہ ائی ہے تو کل کسی دوسرے پر بھی اسکتا ہے ۔آ ئے سب مل کر اس کا مقا بلہ کر تے ہیں اور مصیبت کی اس گھڑی میں کسی انسان کو تنہا نہیں چھو ڑ تے ہیں ۔ آخر میں دعا ہےاللہّ تبارک وتعالی عالم انسا نیت کو اس عذاب سے نجا ت دلا ئے۔ امین یا رب العالمین