چترال(محکم الدین) چترال میں کرونا وائر س کا پھیلاؤ تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ پازیٹیو کیسز کی تعداد اُنیس سے ایک دم اٹھائیس تک پہنچ گئی ہے۔ محکمہ ہیلتھ چترال نے جن نو نئے کیسز کی تصدیق کر دی ہے۔ اُن میں مریم دختر سلطان مراد عمر سترہ سال، حنا دختر حضرت گل ساکن سین لشٹ عمر تیئس سال، آصف ولد گُل سمبر عمر چھبیس سال اوسیک دروش، بی بی فاطمہ عمر چھتیس سال ساکن کوشٹ، عبد الوہاب ولد ہاشم عمر اکیاون سال کوشٹ اپر چترال، اُم لیلی دختر عبدالوہاب عمر بارہ سال کوشٹ، سلطان مراد ولد تیمور شاہ عمر اٹھاسٹھ سال کوغذی، اعجاز الحق ولد امیر الحق عمر اٹھاتیس سال زرگراندہ چترال، بی بی نان عمر ستر سال ساکن کجو شامل ہیں۔ مذکورہ افراد سب پشاور سے سفر کرکے آئے تھے۔ جنہیں چترال میں کنٹیننٹل ہوٹل، گرین لینڈ ہوٹل، مہران ہوٹل دروش اور پی ٹی ڈی سی چترال کے قرنطینہ سنٹرز میں ٹھہرایاگیا تھا۔
پازیٹیو رزلٹ میں کوشٹ سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے تین اور ایک خاندان کے دو افراد شامل ہیں۔ جبکہ ان نئے متاثرین میں پانچ خواتین شامل ہیں۔ درین اثنا وزیر اعلی کے معاون خصوصی وزیر زادہ کی صدارت میں آل پارٹیز نے متفقہ طور پر لواری ٹنل دس دنوں کیلئے بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے جو جواز پیش کیا تھا۔ کہ چترال کے تمام قرنطینہ سنٹرز میں افراد کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ ایسے میں باہر سے آنے والے مسافروں کیلئے مزید قرنطینہ مراکز کھولنا اور اُن کی انتظامی اور طبی طور پر نگہداشت بہتر طریقے سے ہونا ممکن نہیں۔ جس سے وائرس کے مزید پھیلنے کے خطرات درپیش ہیں۔ اس لئے لواری ٹنل کو دس دنوں کیلئے بند کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اُس پر ضلعی انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں کی طرف سے عملدر آمد کا کام باقی ہے۔
جبکہ دوسری طرف انسانی حقوق تنظیم چترال کے سربراہ نیاز اے نیازی ایڈوکیٹ نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے۔ کہ یہ لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ کہ اپنے گھر آنے والے لوگوں کو روکا جائے۔ انہوں نے اس حوالے سے کہا ہے۔ کہ دس دنوں کے بعد جو رش چترال کی طرف آئے گا۔ وہ موجودہ وقت سے مشکل ہو گا۔ اور اُس وقت سوشل ڈسٹنسنگ بھی برقرار نہیں رکھا جا سکے گا۔ چترال کے لوگ باہر انتہائی پریشانی اور مشکلات سے دوچار ہیں۔ ایسے میں اُن کی مدد کرنے کی بجائے اُنہیں دھکا دینا کسی بھی طور درست نہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ انتظامیہ اور ہیلتھ اپنی کیپیسٹی بڑھائے۔ یہ وقت ہے لوگوں کی مدد کرنے کا۔ کیونکہ چترال کے بے شمار لوگ ضلع سے باہر انتہائی کسمپرسی اور اضطرابی حالات سے دوچار ہیں۔