قدرتی آفات اور صبرو استقامت
دنیا میں آفات، طوفان اور تباہی وغیرہ کی تاریخ پہت پرانی ہے۔ طوفان نوح علیہ اسلام بھی ایک تباہی تھی اللہ نے اپنے نبی کو نوسو سال تک لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے زندہ رکھا لیکن منکر قوم نے آپ کی بات نہ مانی اور آخر کار طوفان نوح برپا ہوا۔ اس کے نتیجے میں سوائے آپ کے پیرو کاروں اور ان چرند پرند کے جن کو اللہ کے حکم سے آپ نے اپنی کشتی میں محفوظ کیا تھا ہر ایک شے تباہ ہوگئی اور پھر ان لوگوں کی نسل سے دنیا دوبارہ آباد ہو گئی، ھودؑ اور ثمودؑصالح ؑ کی قوم پر تباہی و بر بادی ان کی نافرمانی کی وجہ سے نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ایک کے بعد دوسری قوم دنیا میں لاتا رہا اور یہاں تک کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں مبعوث کئے، حضرت آدم علیہ السلام بھی بہشت سے اُتارا گیا یہ بھی ایک آزمائش تھی آپ نے طوبہ استغفار کیا اور آپ کی اولاد دنیا میں اباد ہوئی، حضرت ابراھیم خلیل اللہ کو آگ میں ڈالا گیا، اسماعیل علیہ السلا م نے جان کا نزرانہ پیش کیا۔ ان کی صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو پوری دنیا کے لیے امام بنانے کی خوشخبری سنائی اور آپ کی اولاد کو بھی فضیلت عطا کی۔ کہا جا تا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلا قرینطینہ میں حضرت یونس علیہ اسلام نے گذارا جو مچھلی کے پیٹ میں چالیس دن لاک ڈاؤن میں گزارا، جب یونس علیہ اسلام اپنی نا فرمان قوم سے تنگ آگیا تو اپنے مالک حقیقی (اللہ تعالیٰ) کی اجازت کے بغیر علا قہ چھوڑ نکل گیا اور ایک کشتی میں سوار ہو گیا سمندر کے بھیج میں جاکر کشتی ڈھولنے لگا تو کشتی بان نے کہا کہ آپ میں سے کوئی اپنے مالک کی اجازت کے بغیر آیا ہے لہٰذا وہ سمندر میں چھلانگ لگا دے تاکہ باقی لوگوں کی جان بچایا جاسکے تو حضرت یونس علیہ السلام نے سمندر میں چھلانگ لگا یا تو اللہ تعالیٰ کی حکم سے ایک مچھلی نے آپ کو نگل لیا اور کشتی آرام سے چلنے لگی اور اللہ کے حکم سے کہتے ہیں کہ چالیس دن تک منہ بند نہیں کیا کہ کہیں یونس علیہ سلام کو تکلیف نہ ہو۔ اور جب یونس علیہ السلام نے یہ تسبیح نکالا ”لا اِلہَ اِلاَّ اَنتَ سُبحَا نَکَ اِنّیِ کُنتُ مِِّنَ الظَالمین“ تو اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا تو آپ کو ساحل سمندر پر اگل دیا اور اللہ کے حکم سے ایک ہرن کا دودھ پی کر جب چالیس دن کی بھوک سے جو کمزوری آئی تھی دور ہو گئی اور توانا ہو گئے تو اپنے ملک کو چلا گئے لہٰذا ہمیں بھی کثرت سے اس تسبیح کو پڑھنا چاہئے، حضرت ایوب علیہ اسلام ، کے جسم میں کیڑے پڑ گئے لیکن انھوں نے صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑا یہاں تک کے آپ کی بیویاں بھی آپ کو چھوڑ کی چلی گئیں اور صرف ایک بیوی اور دو نوکر رہ گئے لیکن محلے والوں نے آپ کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا اور آپ کے دو نوکر اور بیوی جس کا نام رحیمہ تھا آپ کو ایک چادر میں رکھ کر دوسرے پھر تیسرے محلے میں گئے لیکن کہیں بھی جگہ نہ ملی تو دور ایک ویرانے میں ایک جگہ میں ایک درخت کے سائے میں ڈیرہ ڈالا مگر چند دنوں کے بعد وہ دونوں نوکر بھی بھا گ گئے اور اپ کی بیو ی رحیمہ آپ کو کچھ کھلا پلا کر گاؤں جاتی اور مزدوری وغیر ہ کر کے شام کو واپس آتی اسی طرح کئی سال بعد آپ کی ازمائش کا یہ دور ختم ہوا اور کامیاب ہو گئے۔ حضرت یعقوب علیہ اسلام نے یوسف کی جدائی کا صدمہ برداشت کیا، حضرت یوسف علیہ ا سلام کو کنویں میں ڈالا گیا اور مصر کی بازاروں میں بطور غلام فروخت کیا گیا، جیل کی صعوبتیں برداشت کیا لیکن صبر و استقامت کو پکڑے رہا یہاں تک کہ مصر کی سلطنت بھی ملی اور پیغمبری بھی ملی اور یعقوب علیہ اسلام کی بیانائی بھی لوٹ آئی۔ ختم المرسلین رحمت للعالمین کو نبوت کے آغاز میں ہی شعب ابی طالب کی تکالیف برداشت کرنی پڑی کفار نے طرح طرح سے ستایا، سفر تبوک میں جسم مبارک لہو لہان ہوا، جبریئل ؑ نے آکر مدد کی پیش کش کی لیکن آپ ﷺ نے صبر کیا اور بد دعا نہیں کی، نعوزوباللہ قتل کا منصوبہ بنایا گیا گھر سے بے گھر کیا گیا ہجرت کیا لیکن ہمیشہ صبر کیا اور اللہ کی مدد طلب کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کا پیغام پوری دنیا میں پہنچ گیا اور دین اسلام کی تکمیل کی خو شخبری آئی اور آپﷺ کی آل کو بنی نو انسان کے کئے رہنمائی کے لئے امام مقرر کیا،۔ جناب عالی آج کے دور میں تنہائی بھی وہ تنہائی نہیں چونکہ آج آپ کو دنیا جہاں کی کتابیں میسر ہیں، گوگل سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں مارکیٹ میں میسر ہیں، موبائل فون چاہے آئی فون ہے یا انڈریوڈ، ڈسک ٹاپ کمپیوٹر ہے یا لیپ ٹاپ سوشل میڈیا۔ فیس بک، واٹس ایپ، گوگل پر آپ ایک کلک کے فاصلے پر ہیں اور جو چیز ڈھونڈے آپ کو مل جائے گا۔ آپ کو وقت کے کٹنے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ نے ہمیں ایک موقع عطا کیا ہے کہ اللہ کو زیادہ سے زیادہ یاد کریں، قرآن کریم کو معنی کے ساتھ اپنی مطالعہ میں شامل کریں، سیراۃ النبی، پڑھئے،قصص الاولیا، تذکراۃالاولیا پڑھئے اور دوسرے اسلامی کتب پڑھئے، دوسرے آسمانی کتب، زبور انجیل۔ اور تورات کا تقابلی جا ئزہ لیجیے دیکھئے قرآن میں اور ان میں کیا کوئی فرق ہے، صاف نظر آئے گا کہ ان کتابوں کی ہر ایڈیشن میں فرق نظر آئے گا لیکن دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری خود اپنے ذمہ لیا ہے، اس کے علاوہ، سوانح عمریا ں پڑھ لیجئے، سفر نامے پڑھ لیجئے، قاید عظم کی حالات زندگی پر بڑی کتب ملتی ہیں ان کا مطالعہ کیجئے اور سب سے بڑھ کر اللہ کی یاد سے اپنے دل کو تسلی دیجئے،۔ ”اللہ کی یاد سے دلوں کو تسلی ملتی ہے“ مفہوم میں کوئی واعظ یا عالم نہیں لیکن میں یہ پیغام دینا چاہتاہوں کہ اس وباء کی دورانیہ میں ہمیں بھی صبر استقامت سے اور تحمل سے کام لیتے ہوے اپنی روحانی طاقت کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس طرح اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور احتیاطی تدابیر پر مکمل عمل کر تے ہوے، اللہ تعالی کو یاد کر نا چاہئے، قرآن پاک کو با ترجمعہ پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کی جائے اس سے آ پ کو ذہنی،جسمانی اور روحانی طور پر سکون ملے گی او رآپ راحت محسوس کریں گے۔ اپنی پسند کی کتب کا مطالیہ کیجئے تاریخ اسلام پڑھئے، اسلامی کتب اور جو بھی اچھی کتاب میسر ہے پڑھئے اس سے ایک تو آپ کو سکون ملے گا اور دوسری بات آپ کا وقت بھی بامقصد گذرے گا۔ لیکن ان تمام کے باوجود آپ اپنے ان غریب اور نادار رشتہ داروں کو بھی مت بھولئے اور اپنے ہمسایئے میں بھی ایسے لوگوں کی مدد کیجئے ایسا نہ ہو کہ کوئی آپ کے نزدیک میں بھوکا سوئے، کم از کم فون پر اپنے عزیزوں کی خریت دریافت کریں ان کو مدد کی پیش کش کیجئے اور ایک اچھے الفاظ اور ہمت کی بات بھی کریں گے تو دوسروں کی حوصلہ افزائی ھو گی، بیماری اور وبائیں آتی ہیں جن کی تفصیل بہت مرتبہ کئی دوستوں نے شائع کی ہے لیکن 1967-68 ء میں چیچک کی ایک وباء یسین میں بھی آئی تھی اس وقت یاسین میں نہ ہسپتال تھے نہ کوئی دوائی میسر تھی روزانہ کہیں نہ کہیں ہر گاؤں میں کوئی نہ کوئی موت واقع ہوجاتی تھی، اور بیمار سسک سسک کر مرتے تھے لیکن لوگوں نے پھر بھی صبر و تحمل سے کام لیا اور اللہ کو یاد کرتے رہے آخر اللہ نے کئی ماہ کے بعد اس وباء سے لوگوں کو نجات دلایا، آپ دیکھ رہے ہیں سالانہ سیلاب کی وجہ سے کتنی تباہی ہوتی ہے لوگوں کے فصلیں، مال مویشی، اور جانی نقصان ہو تا ہے لیکن اس آ فت سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ 2008 ء کا زلزلہ ہی کو لیجئے لاکھوں انسان متاثر ہوئے املاک تباہ ہوے جان مال، دولت تباہ ہوا لیکن پاکستانی قوم نے اس موقع پر جس طرح متاثرین کی مدد کی اور اس قابل بنایا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے نہ صرف پاکستان اور پاکستان کی عوام نے بلکہ پوری دینا سے امدادی ٹیمیں آکر مدد کیا اور قوم اپنے پاؤوں پر کھڑا ہو نے کی قابل ہوئی، آج بھی حکومت کی طرف سے دی گئیں احکامات اور ہدایت پر عمل کرے ایک دوسرے کو برداشت کیا جائے اور ایک دوسر ے کی مدد کی جائے او رسب سے بڑھ کر یہ کہ گھروں میں رہ کر بھی ایک دوسرے کی مدد کی جائے، تو ان شااللہ اللہ تعالیٰ بہت جلد اپنی مخلوق کو اس وباء سے نجات دلائے گا۔ اور ان شا اللہ ہم ایک نئے ولوے، عزم، اور محبت، خلوص اور ہمدردیاو ایک دوسر کی قدر، کے ساتھ نئے سرے سے تعمیرریں گے ان شا اللہ