رمضان المبارک، تربیت اور تزکیہ کا مہینہ
تحریر: مھدی آخوندزادہ
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
اے ایمان والو: تم لوگوں پر روزہ کو فرض کیا گیا ہے جس طرح پچھلی امتوں پر فرض کی گئی تھی،تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بنیں،
(سورہ بقرہ آیت:183)
لفظ رمضان کا معنی کیا ہے
قرآن مجید لفظ رمضان کا ذکر ہوا یے،
رمضان
اس کا ریشہ(ر،م،ض)
جس کا لغوی معنی شدید حرارت ہے،
اور اصطلاح میں قمری نواں مہنے کو کہا جاتا ہے،
اس منہے کو رمضان رکھنے کا وجہ تسمیہ
اس کے لیے تین وجہ تسمیہ بتائے ہیں،
1_ رمض موسم خزاں کے اس بارش کو کہا جاتا ہے جس کے برسنے سے پوری زمیں پاک ہوجاتی ہے اسی طرح یہ ماہ رمضان بھی انسان کو گناہ پاک کرتا ہے،
2_ پتھر کے اس حرارت کو کہا جاتا ہے جو سورج کی تپش کی وجہ سیپیدا ہوتا ہے،
اسی طرح روزہ دار بھوک،پیاس کی حرارت کو احساس کرتا ہے،
3_رمضان اسماء الھی میں سے ایک اسم ہے رب جلیل کی رحمت کی اثر سے گناہ برطرف ہوجاتا ہے،
رمضان کا مبارک مہنہ رب کریم کا بزرگ ترین نشانی ہے یعنی قرآن کو اسی مہنہ میں نازل کیا،
اور عبادی بزرگ ترین نشانی روزہ ہے، جو کہ اسی مہنہ میں واجب کیا ہے،
پروردگار عالم نے روزہ کو صرف مسلمانوں پر واجب نہیں کیا ہے بلکہ پہلے ادیان کے امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا،
پس اس آیت کریمہ میں روزہ صرف واجب ہونے کے حوالہ سے تشبیہ دی گئی ہے، لیکن اسی آیت کریمہ میں کفیت،کمیت، اور وہ تمام خصوصیات جو سابقہ انبیاء یا پچھلی امتوں میں پائی جاتی تھی وہ بیان نہیں کی ہے،
روزہ کا فلسفہ
روزہ رکھنے سے انسان یقین کے منازل کو طے کرتا یے، انسان ایک قسم کا مسافر ہے،اور ہر مسافر کو ذاد سفر کی ضرورت ہوتی ہے،اور معاد کے مسیر کا بہتریں ذاد سفر، تقوا ہے، اور روزہ انسان کو متقی بنا دیتا ہے،روزہ تقوی عبادی تک پہنچنے کا راستہ ہے،
تقوی کے تین اقسام ہیں:
1- تقوا مالی،
2_ تقوا سیاسی،
3_تقوا عبادی،
قرآن مجید نے قصاص کو تقوا سیاسی اور اجتماعی قرار دیا ہے، اور قرآن مجید نے مسئلہ قصاص کو سورہ بقرہ آیت 187،179،میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: لعلکم تتقون
پس مسئلہ قصاص عبادت اجتماعی اور سیاسی ہے،
اور مسئلہ وصیت کو سورہ بقرہ آیت 180 میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: حقا علی المتقین
پس مسئلہ وصیت تقوا مالی ہے،
اور مسئلہ روزہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: لعلکم تتقون
پس روزہ تقوا عبادی ہے،
اور روزہ دیں اسلام کے ارکان اور مبانی میں سے ہیں،اور ایمان کا تقاضا یہ ہے اپنے مولی کے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے اس کو بجا لائے،نماز اور روزہ دونوں کا وجوب قرآن مجید میں ذکر ہونے کے ناطے یکساں ہے،
روزہ رکھنے سے بندہ کو کسی حد تک مشقت اور تکلیف ہوتی ہے، لھذا قرآن مجید نے:
امنوا کہ کر اسکے رنج اور مشقت کو لذت میں تبدیل کیا،
روزہ باقی ارکان اسلام کی طرح نہیں ہے مثلا انسان سے نماز کسی بھی صورت میں چھوٹ نہیں جاتی ہے، لیکن روزہ ایسا نہیں ہے اگر سفر میں،یا بیمار ہو اس پر واجب نہیں ہے،
روزہ کی تشریع کی راز
روزہ کو اس لیے واجب کیا گیا،تاکہ اس میں امیر اور غریب یکساں ہوجائے،کیونکہ امیر نے اپنی ذندگی میں کبھی بھوک کے حس کو نہیں چھویا اور آج اسکو احساس ہو جائے تاکہ غریب پر رحم کریں،
فرماتے ہیں:
بشارت ہے اس شخص کے لیے جو اپنے رب کریم کے لیے پیاسا اور بھوکا رہتا یے،یہی لوگ قیامت کے دن سیراب ہونگے،جس دن سب پیاسے اور بھوکے ہونگے،
خوشخبری ہے اس مسکینا کے لیے جو اللہ تعالی کے خاطر روزہ رکھکر صبر کرتے ہیں،یہی لوگ قیامت کے دن اسمانوں کے ملکوت کا مشاہدہ کرینگے،
انسن پیشرفت معنوی کا سب سے بڑا رکاوٹ کھانے، پینے اور بدنی لذت میں مشغول ہونا ہے،اور روحی رشد کا بہترین عامل ان تمام امور سے پرہیز کرنا ہے، اور روزہ انسان کو مادی مسائل میں مشغول ہونے سے روکتا ہے، روزہ عالم باطن اور ملکوت کا مشاہدہ کرنے کا بہترین عامل ہے،
کم کھانا اور اور رعایت کرنا کمال کے راستے طی کرنے کا بہترین راہ ہے،ممکن نہیں ہے کہ انسان صرف درس پڑھنے سے اور کچھ الفاظ کا رٹ لگانے سے اور افواج ملفوظ کے ذریعے اسکے اندر نورانیت اجائے،کیونکہ معلم حقیقی نہ کتاب نویس ہے، نہ گویندہ ہے،نہ کتاب ہے نہ استاد ہے نہ درس ہے،یہ سارے علم محقق ہونے کے لیے مقدمہ ہے،
بلکہ کم خوری اور بد خوری اور پرخوری سے دوری یے،
اسی لیے بعض بزرگوں فقہ فرما تے ہیں؛
روزہ کی فضیلت یہ ہے اس مبارک ماہ میں انسان روزہ دار ملائکہ کے شبیہ ہوتا ہے،
کیونکہ ملائکہ کا غذا اپنے پروردگار عالم کی تسبیح اور تحلیل کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے،
تقوی کا مقابل، فجور ہے
اور فجور کا منبع اور سرچشمہ شھوت اور غضب ہے،
رمضان المبارک کی خصوصیات
1_ معصوم فرماتے ہیں:
روزہ رکھنا، شھوت کو شکست دینے کا عامل ہے،
رسول اکرم ص کے فرمان کے مطابق روزہ ایک عبادت مثال ہے،
2_نبی اکرم نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
روزہ ایک ایس عبادت ہے جو شیطان کو ہم سے دور کرتا ہے،
روزہ شیطان کے چہرے کو کالا کرتا ہے،اور صدقہ اس کے کمر کو توڑ دیتا ہے،اور اللہ کے لیے محبت کرنا اور عمل صالح کو مسلسل انجام دینے سے وہ دم بریدہ ہوتا ہے اور اور استغفار اس کے رگ کو کاٹ کر دیتا ہے، اور ہر چیز کے لیے زکات ہے اور بدن کا زکات روزہ رکھنا ہے،(الکافی،ج 4،)
3_ روزہ داروں کے لیے فرشتے کا دعا،
فرشتے روزہ داروں کے لیے دعا کرتے ہیں،اللہ تعالی کے طرفسے فرشتے روزہ داروں کے لیے دعا کرنے کے لیے وکیل ہے،اگر خدا انکے دعا کو مستجاب کرنا نہ ہوتا تو فرشتوں کو وکیل نہیں بناتا، اور وکیل کا دعا، موکل کا دعا ہے،اور یہاں موکل ذات رب العالمی ہے اور یہاں موکل کا دعا یقینا مستجاب ہے،
4_ گناہوں کی درگذر،
اس مبارک ماہ میں روزہ داروں کے گناہوں کی بخشش ہوتی ہے،
رسول اکرم ص نے فرمایا:
جو بھی اس ماہ میں ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ رکھے گا تو اللہ تعالی اس کے گذشتہ گناہوں کو بخشے گا،
ہر حسنہ جو انسان سے انجام پاتا ہے وہ اس کے برائی کو ختم کرتا ہے،اور روزہ کا حسنہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے،
5_ روزہ دار کی دعا مستجاب،
اس مبارک ماہ میں اللہ تعالی روزہ داروں کی دعا کو مستجاب کرتا ہے،
رسول اکرم نے فرمایا
روزہ دار کی نیند عبادت ہے، اور اسکا خاموشی تسبیح ہے،اور اسکا عمل مضاعف ہے، اور اسکی دعا مستجاب ہے، اور اسکی گناہوں کو بخش دی جائے گئی،
6_ روزہ مشک سے زیادہ خوشبو دار ہے،
روزہ انسان کے منہ کو خوشبو دار بناتا ہے،روزہ دار کے دھن سے خوشبو عطر
احساس ہوتا ہے،
7_ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں:
امام صادق فرماتے ہیں:
دورہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں
ایک خوشی افطار کے وقت،
دوسرا: اپنے رب سے ملاقات کے وقت،
8_ روزے کا جزا:
رسول اکرم ص نے فرمایا:
روزہ ایک ایسی عبادت ہے جسمیں ریا نہیں ہے اور اللہ تعالی نے فرمایا:
روزہ میرے لیے ہے اور میں خود ہی اسکا جزا دوں گا، اور اللہ نے جزا دینے کے لیے واسطہ کو بیان نہیں کیا،
9: روزہ آتش جہنم کے لیے سپر ہے،
گناہ شیطان کا تیر ہے، روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو ہر حال میں،جس حال میں بھی ہو عبادت ہے،اگر روزہ دار اپنے بستر پر سوئے ہوئے ہو تب بھی عبادت ہے،لیکن باقی کوئی بھی عبادت ایسا نہیں ہے،
10_ روزہ داروں کے لیے جنت میں خصوصی پذیرائی:
رسول اکرم ص نے فرمایا:
جنت کے لیے اٹھ دروازے ہیں اس میں ایک ایسا دروازہ ہے جسکو باب الریان
قیامت کے دن جسے صرف روزہ دار ہی داخل ہوگا،ہر عبادت اللہ تعالی کے اخاص مظھریت میں داخل ہونے ایک راستہ ہے ایسی طرح روزہ بھی ہے،
11_ روزہ کی شفاعت روزہ دار کے لیے،
رسول اکرم ص نے فرمایا:
قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندوں کی شفاعت کرے گا،
پس اسے معلوم ہوتا ہے جس طرح ائمہ،انبیاء، شھدا کو شفاعت کرے کا حق ہے اسی طرح عمل صالح کو بھی شفاعت کرنے کا حق ہے کیونکہ عمل صالح ذندہ ہے، اور یہ گواہی بھی دیتا ہے، اور عمل صالح ملکوتی صورت میں اپنے پروردگار کی طرف صعود کرتا ہے،
جس کو قرآن نے بیان کی ہے
والعمل الصالح یرفعہ
عمل صالح انسان کو اٹھتا ہے
(فاطر:10)
12_ روزہ تندرستی اور وسعت زرق کا سبب بنتا ہے،
رسول اکرم ص نے فرمایا:
صوموا تصحوا
روزہ رکھو تو تندرست ہوگا،
روزہ رکھنے کی وجہ سے اس کے جسم کو سلامتی ملتی ہے جب جسم صحت مند ہو تو روح بھی صحت مند رہے گا،
اور یہ مہنہ تربیت اور خودسازی کا مہنہ ہے
اسی ماہ پروردگار عالم نے قرآن مجید کو بنی نوع انسان کی ھدایت اور تربیت کے لیے اتاری، یہ وہ مہنہ ہے جس میں شب قدر کو رکھا ہے،یہ وہ مہنہ ہے جس کام ذکر قرآن مجید میں ایا ہے،جسمیں سلونی کا دعوا کرنے والا مولی کائنات کو شہید کیا گیا،جسمیں شیطان باندھا گیا ہے،یہ وہ مہنہ ہے جسمیں رحمت کے دروازہ کھلے ہوتے ہیں اور جہنم کے سارے دروازے بند ہوتا ہے روزہ انسان کو بردبار بناتا ہے،روز رکھنے سے انسان شکر گزار بنتا ہے، روزہ انسان واقعی عبادت گزار بناتا ہے،
حقیقی روزہ دار کون ہے،کسے کہتے ہیں؟ وہ وہنسا روزہ ہے جو انسان کو متقی بنا دیتا ہے؟؟
ویسے صرف بھوکا رہنے سے انسان متقی نہیں بنتا ہے،
روزہ کے تین مراتب ہیں
1- روزہ عام: یہ اس روزہ کو کہا جاتا ہے جو آذان صبح سے لے کر مغرب کے آذان تک روزہ کو باطل کرنے والی کوئی چیز انجام نہیں دیتا ہے،جو رسالہ عملیہ میں موجود ہے،
2- روزہ خاص؛ اس میں انسان مبطلات روزہ کے علاوہ خود کے تمام اعضا اور جوارح کو گناہ سے دور رکھتا ہے، زبان کو گناہ سے روکتا ہے،کان کو بھی گناہ سے دور رکھتا ہے، انکھ کو گناہ سے،ھاتھ، پاوں گناہوں سے روکتا ہت،
3- اخص: پہلے دونوں کے علاوہ خود کے فکر،سوچ،عقل اور دل کو بھی گناہوں سے الودہ ہونے نہیں دیتا،فکر اور سوچ کو بھی پاک رکھتا ہے،اور توجہ صرف ذات اقدس کی طرف ہوتا ہے،
پس اگر کسی کے روزہ دار کے اندر یہ تینوں صفات ہو تو وہ حقیقی روزہ دار ہے اور یہی روزہ انسان کو متقی بنا دیتا ہے، رمضان المبارک کا مہنہ اللہ تعالی کے طرفسے اپنے بندوں کے لیے ایک نعمت ہے،اسی مہنہ میں انسان کو اپنے پروردگار کی وعدوں پر امید ہوتی ہے،اسیچ مہنے میں انسان کو خدا سے عشق کرنے کا فرصت ملتی ہے،یہی مہنہ دشمنی، کینہ،ختم کرنے کا مہنہ ہے، یہی قناعت اور صبر کا مہنہ ہے،