سلطان مدد چل بسے، نظریِہ سلطان زندہ رہےگا
تحریر: ڈاکٹر آمین ضیاء ناگو
پچھلےسال دسمبر کی ایک سہ پہر ڈیوٹی سے گھر پہنچ کےابھی میں نے چاۓ کا پیالہ ہاتھ میں اٹھایا ہی تھا کہ کال آئی. بولنے لگے میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے آکے دیکھ لے۔ چاۓ کا پیالہ چھوڑ کرفوراً نکلا اور سیدھے اس وقت زیر تعمیر سلطان مارکیٹ پہنچا۔ برفباری ہو رہی تھی اور بازار میں سناٹا سا تھا۔ وہ مارکیٹ کے وسط میں ایک ٹوٹی ہوئی کرسی پر دنیا جہان کی فکر سے آزاد بیٹھے ہوۓ تھے۔ گورے رنگ کی دیسی ُاون والی ٹوپی سے ملنگوں کی طرح پورا سرڈھانپ دیا تھا البتہ کان کا تھوڈا حصہ نظر آ رہا تھا۔ روایتی چلاسی کمبل سے پورا جسم گھٹنوں سمیت ڈھانپ دیا تھا۔ جوتے چپل کی مانند پہنا تھا جس کی وجہ سے ایڑیوں سمیت پاؤں کے کچھ حصے برف پہ تھے۔ سامنے ایک بڑے دیگچے میں گاجر کا حلوہ بن رہا تھا اور وہ خود ہاتھ میں چمچ اٹھاۓ حلوے کو ہلا رہے تھے۔ اردگرد مزدوروں ، شہر کے ملنگوں اور غریبوں کا ایک جھرمٹ تھا ۔ ان میں سے چند برف سے ڈھکی زمیں پر سے سوکھی لکڑی ڈھونڈ کر لا رہے تھے تاکہ دیگچے کے نیچے آگ کا زور کم نہ ہو۔ برف باری کی وجہ سے بازار سنسان تھا مگر شہر کے مزدور، فقراہ، غرباء، یتیم اور ملنگوں کے بھیج بیٹھا شہرت و دولت کے غم سے عاری یہ درویش نما شخص سلطان مدد تھے جسے گلگت بلتستان حکومت کی طرف سے فرزند غذر کا خطاب بھی ملا تھا۔
سلطان مدد اب ہم میں نہیں رہے۔ جانا تو سب ہی نے ہے لیکن یہ وقت نہیں تھا جانے کا۔ ابھی تو ہم آپ کو سمجھ ہی نہیں پاۓ تھے اور آپ چلے گۓ۔ اس شہر کے غریب غرباء۔ یتیم لاچار ۔ دفتروں کے باھر افسرشاہی کے ڈر سے کانپتے انصاف کے متلاشی۔ نوکری کی عارضی پر صرف غریب کا لفظ لکھ کر در در کی ٹھوکرے کھانے والے بےروزگار، قرضداروں کی غضب سے ڈرے ہوۓ مقروض۔ تھانے کا نام سنتے ہی سہم جانے والے شرفاء۔ ذاتی دشمنی۔ خاندانی دشمنی ۔علاقائی نفرت اور فرقہ واریت سے پناہ چاہنے والے سادہ لوگ۔۔۔۔ اب ان کو کون سمجھاۓ کہ سلطان مدد چل بسے۔۔۔۔ پریشان سہمی ہوئی خالی خالی آنکھوں سے شہر میں گھومتے ہوۓ ہزاروں لوگ ایک لمبے عرصے تک یہ پوچھتے پھرینگے کہ سلطان مدد صاحب کہاں ہیں؟ آپ تو چلے گۓ انہیں اب کیا جواب دے کوئی۔۔۔وہ تمہارے یوں اچانک جانے کا یقین نہیں کرینگے۔۔ وہ دیسی ٹوپی, چلاسی کمبل, پشاوری چپل میں ملبوس اپنے کندھوں کو ایک مخصوص انداز میں جنبش دینے والے۔۔پچھلے 27 سال سےگاھکوچ بازار میں ہر خاص وعام کی خدمت میں مصروف اپنے سلطان کو ڈھونڈتے رہینگے۔۔
بہرحال برف باری والی کہانی کی طرف دوبارہ آتا ہوں۔ مزدوروں کے بیج میں لگی ان کی کرسی کےپاس کھڑے ہو کر میں نے حال پوچھا۔ کہنے لگے مجھے ہسپتال میں داخل کر دے۔ بولنے کے انداز سے درد کی شدت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا ۔۔ لیکن یہ ضرور مشکل تھا کہ وہ اپنے دوستوں کو حلوہ کھلانے سےپہلے میرے ساتھ ہسپتال چلےگا۔ میں اتنا کہہ کر وہاں سے نکلا کہ میں ان کا ہسپتال میں انتظار کرونگا۔ حلواہ نہ کھانا شگر کا ٹیسٹ کرنا ہے۔ ایک گھنٹے کے اندر وہ داخل ہوۓ۔ ابتدائی چند ٹیسٹ اور کچھ دوا دعا کے بعد ان کی طبعیت بہتر ہوئی۔آدھے گھنٹے کے اندر پرائوٹ روم ان کے دوست احباب سے بھر گیا۔ ان کے چاہنے والے دیسی کھانوں کے ساتھ حاضر ہوۓ اور پھر وہ بیماری بھول کر گپ شپ میں مشغول ہوۓ.
انہیں شوگر۔بلڈ پریشر۔کولیسٹرول۔ یوریک ایسڈکے علاوہ دل اور گردوں کا بنیادی عارضہ تھا۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر10 اقسام کی دوائی استعمال کرتا۔ اس معاملے میں بھی کمال بہادری دیکھائی۔وہ لمحوں میں جینے والے اور زندگی کے ہر پل خوشگوار گزارنے والے انسان تھے۔ کئی بار اسکے بعد بھی ہمارے پاس داخل ہوۓ ۔ میں اور میرے بہت ہی محترم اور قابل ڈاکٹر دوست اور استاد ڈاکٹرمحمد کریم سر جو آغاخان سنٹر سنگل کے انچارچ ہیں اس بات پہ حیران ہوتے تھے کہ یہ کیسے اتنی ساری بیماریوں کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہیں۔یہ کونسی دعائیں ہیں جو اسے مسکرانے کی ہمت دے رہی ہیں؟
7 مئی 2020 بروزجمعرات رمضان المبارک کے دوسرے عشرے میں آپ قلیل علالت کے بعد اس جہانِ فانی کو داغِ مفارقت دے گیۓ۔ایک اتفاقی واقعہ اسی دن میرے ساتھ پیش آیا۔ ماموں کے ساتھ آخری بار بات کرنے کی کوشش 7 مئی کو ہی صبح 8 بجے کی۔ انہیں حویلیاں پہنچ کر سانس لینے میں دشواری ہوئی تھی۔ پھر وہ اسلام آباد نکلے اور میں اسی دن لاہور میں موجود تھا اور ہسپتال میں حسبِ معمول کینسر کے مریض دیکھ رہا تھا۔ گلگت کے اکثر مریض اسلام آباد یا کراچی چلے جاتے ہیں۔پچھلے 6 مہینے کبھی گلگت کا کوئی مریض ہمارے ہسپتال نہیں آیا۔ دن کے 12 بجے ماموں کے انتقال کی ناقبل یقین خبر موصول ہوئی ۔ اگلا مریض اس سے بھی ناقابل یقین تھا۔ ان کا تعلق غذر کے ایک دورآفتادہ گاؤں سے تھا۔ میں نے شینا زبان میں ان سے بات کی ۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ غذر میں کس کے گھر سے ہیں تو انہوں نے بولا کہ سلطان مدد ان کے بھائی لگتے ہیں۔ میرے رونگھٹے کھڑے ہو گۓ۔ آج واقعی احساس ہوا کہ سلطان مدد ہمارے تعارف تھے۔ آج واقعی غذر یتیم ہو گیا۔ ان کی تدفین میں گلگت کے طول و عرض سے لوگوں نے شرکت کی۔ ہر آنکھ اشکبار ہوئی۔ سوشل میڈیا پر ہر شخص نے اپنے خوبصورت انداز میں آپ کو خراج تحسین پیش کیا۔ آپ کے مخالفین اور سخت ناقدین نے بھی اس بات کا اظہار کیا کہ غذر یتیم ہو گیا۔ ان کے سیاسی اور نظریاتی مخالفین بھی داد کے مستحق ہیں۔
آخر میں یہ کہ اگر غریب پروری ایک نظریہ ہے تو سلطان مدد اس نظریے کا دوسرا نام ہے۔ ظالم اور جابر کے سامنے سینہ تان کر بہادری سے کھڑا ہونا اور کمزور لاچار مفلس کے آگے جھکنا اگر ایک فلسفہ ِزندگی ہے تو اسے فلسفہ سلطان کہنا غلط نہ ہوگا ۔ اپنے موقف پر قائم رہنا خواہ موت ہی کیوں نہ آۓ اگر ایمان ہے تو اسے ایمانِ سلطان کہنا بجا ہے۔ نظریہِ سلطان زندہ رہے گا۔ سلطان مدد کا کوئی جانشین ہوگا جو اس نظریے کو آگے لے کر چلے گا۔ وہ خواہ نظریہ ِسلطان کے نام سے یا ان کی آخری خواہش انسان دوست پارٹی کے نام سے۔ ایک بات طے ہے کہ نظریہ سلطان۔ سلطان مدد کے ساتھ دفن نہیں ہوا۔ یہ وقت ثابت کرے گا کہ نظریہ سلطان تو ابھی صحیح معنوں میں پیدا ہوا ہے۔