کرونا قیدی اوریورپ کی ایک صبح
حمزہ گلگتی(پی ایچ ڈی)
باقاعدگی سے باہر گئے ہوئے لگ بھگ دو ماہ کا عرصہ بیت چکا تھا۔۔۔سب جانتے ہیں کہ ایک ہی چاردیواری کے اندر پتھر کے دیواروں کے پیچھے مجبوری میں انسان چاہے تو بھی سکون کی زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔۔ان دو مہینوں میں سارا شیڈول ہی تبدیل ہوا تھا۔۔جب ماہِ رمضان آیا تو دن راتیں اور ہماری راتیں دن بن گئیں۔۔چنانچہ کئی کئی دن اچھی طرح سے دن بھی نہیں دیکھا۔۔ضروری سامان تین سو میٹر کے فاصلے پر موجود مارکیٹ سے دوست لاتے ایک ساتھ کئی دنوں کیلئے۔یوں دن گزرتے گئے اور ہم انٹرنیٹ کے ذریعے ہی دنیا کی سیر کرتے رہے۔چونکہ کورونانامی مرض نے حد درجہ احتیاط کرنے کی ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر بھی ڈال دی تھی۔ سو ہم بھی قیدیوں کی طرح کمروں میں ہی رہے۔ انتہائی ضرورت کے بغیر خال خال ہی باہر جانا نصیب ہوا۔ایک ہی جگے میں رہ رہ کر اور یکساں سرگرمیوں سے تنگ آکر آج دوستوں کی معیت میں احتیاطی تدابیر کو بروئے کارلاتے ہوئے باہر جانے کا پروگرام بنا۔
یاد رہے یورپ کا شمار حالیہ تباہی مچانے والے وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطوں میں ہوتا ہے۔یہاں کیسس اور مرنے کا ریشو کافی اوپر چلا گیا ہے۔مگر ان سب کے باوجود احتیاط کے دائرے میں رہ کر یہاں کے باسی زندگی گزارنے کیلئے ضروری کام انجام دیتے ہیں اور باہر بھی جاتے ہیں، جاب پہ بھی جاتے ہیں۔ ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کا احساس بھی ہے۔ ہر کام میں کھینچ کر حکومت کو نہیں لاتے بلکہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے جی رہے ہیں۔ حکومت نے ماسک پہننے کو لازمی قرار دیا ہے تو کسی کو بھی ماسک کے بغیر نہیں دیکھاجائے گا، حکومت نے ایک جگہ ہجوم سے منع کیا ہے کوئی ہجوم ڈھونڈ نے سے نہیں ملیگا، حکومت نے سائن بورڈز لگا کر دیکھادیا ہے کہ بس میں سوار ہوتے وقت دودو میٹر کا فاصلہ رکھ کر سوار ہواجائے، اس پر سختی سے عملدرآمد کرتے پاؤگے۔ اب حکومت ہر ایک کے سر میں ڈنڈالیکر کھڑابھی تو نہیں رہ سکتی، اس لئے سب اپنی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں۔ ڈرائیورز کے پورشن کو سیل کرکے الگ کردیا ہے اس طرف نہ جانے کا چھوٹا سا سائن اندر لگاکر مقامی اور انگلش زبانوں میں یہ درج کیا گیا ہے کہ ڈرائیوروں کی زندگیاں بچیں گیں تو آپ کو بلا تعطل ٹرانسپورٹیشن میسر آئے گی۔۔۔اب مجال ہے کہ کوئی اس طرف قدم بھی بڑھاتا ہو، ورنہ ٹیپ کی نازک سی پٹی کو اتار پھینک کر اس طرف جاکے بیٹھنا کوئی مشکل بھی تو نہیں۔ لیکن یہ لوگ ایسا کرتے نہیں،کیونکہ ان کی سرشت میں یہ رکھا نہیں اور ان کے تربیت کی بنیاد یہ نہیں۔ صبح نو بجے سے دن بارہ بجے تک مارکیٹوں میں سامان لانے کی باری بوڑھوں کی ہے، بارہ سے شام جوانوں کیلئے مخصوص ہے، مجال ہے کسی کو اپنے اپنے اوقات کار کے علاوہ مارکیٹ میں دیکھوگے۔ یہی اچھے قوموں کے رویے ہیں جن کا ہمیں بتایا جاتا رہاہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے سر پر حکومت ہر وقت ہر کام کیلئے لٹھ لیکرکھڑی رہے، تب ہی جاکے ہم اپنی ذمہ داریاں نبھالیں گے۔۔۔مختصر یہ کہ ہم سنتے سناتے ہیں لیکن اوپر سے لیکر نیچے تک عمل کرنے کیلئے کوئی تیار ہی نہیں۔ اس لئے بجائے کم ہونے کے ہمارے مسائل میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
خیر سحری کے بعد ہم نے پروگرام بنالیا، فجر باجماعت اداکی اور سفر پر نکلے۔آج ہم نے پہاڑیوں اور جنگلوں میں جانے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ کراچی سے ہمارے دوست انجنیئر سعد جو کہ الیکٹریکل انجنئیر ہے، پروگرام بناکے نہ جانے کو اپنی روایت بنارکھا تھا۔گھومنے جانے کا پلان بنانا اور مخصوص کراچی والے لہجے میں ہونٹوں کو گھماگھما کر تیار ہونے کیلئے روز روز بھاشن دینا کوئی ان سے سیکھے۔ اس لئے جب بھی وہ مخصوص اوقات میں جذباتی ہوکر کہتا کہ آج میں فلاں جگہ چلوں گا تو میں فوراً گویا ہوتا ” نہیں جاؤگے” اس پر سب کی قہقہیں بلند ہوتی اور وہ پیچ وتاب کھاکر کہتے کل دیکھنا مگر ہم نے نہ وہ کل دیکھا نہ سعد کو اپنی بھاری بھرکم ڈیجیٹل کیمرے کیساتھ کہیں جاتے دیکھا۔ یوں میرا کہنا سچ ہی ثابت ہوتا۔۔ آج جب ہم تیار ہوکے اس کے کمرے میں پہنچے تو بیڈ پر لیٹا تھا۔۔ میں اس زعم میں کہ آج تو یہ نا نہیں کریگا۔۔ بولاکہ تیار ہوتے اب تک؟اٹھ بیٹھااور آنکھیں ملتے ہوئے گویاہوا۔۔ حمزہ بھائی وہ کیاہے کہ میں نے رات کو نہایاتھا تو سردی نہ لگے اس لئے آج مجھے تومعاف رکھے، وہ دیکھو چپل بھی گیلے ہیں۔۔۔”تو نہیں جائے گا“۔۔۔اب دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کامرحلہ تھا۔ میں نے وہی پر ہتھوڑی ماری اور ہنستے ہوئے باہر نکلنے ہی لگاتھا کہ بولا چلومیں بھی آنے لگاہوں۔ یہ ہوئی نا بات۔۔
دوسرا ہمارا بہت ہی پیارا دوست کمپیوٹر انجنیئرشعیب علی ہے، جھنگ جیسے خوبصورت شہر چھوڑ کریورپ پڑھنے آیا ہے۔یہ اپنے کپتان کا باکمال پلئیر ہے۔ (یاد رہے کپتان سے مراد عمران خان نہیں)اور سب کا فرمانبردار ہے۔ان کی کمزوری یہ ہے کہ یہ روز روزکمزور ہوتا جارہا ہے۔کمزور ذہنی طور پر نہیں جسمانی۔ بڑی جتن کررہا ہے کہ کسی طرح فربہ ہوجاؤں مگر سب بے سود۔۔اسی جتن میں فروٹ چاٹتا رہتا ہے۔سو کر جب اٹھتا ہے تو ایسا موڈ بنابیٹھا رہتا ہے جیسے ابھی کسی نے ڈانٹا ہو، ہم لاکھ جتن کرے اور یہ بولے ہی نا۔ہم آپس میں پوچھتے ہوتے ہیں آج بھائی کو کیا ہوا ہے مگر بھائی ہے کہ روٹھے ہی رہے۔۔۔ مارکیٹ سے سامان لانے کی ذمہ داری لیتا ہے۔۔۔گویا کہ ہم نے اسے وزیر خوراک بنارکھاہے۔
آخری دوست ہمارے مٹیریالسٹک یعنی مٹیریل سائنٹسٹ ڈاکٹر اویس قادر ہے جو یہی ہماری بھابھی کیساتھ رہتاہے، بھابھی یہی سے ہے وہ بھی ہماری کمپنی کا حصہ ہے۔اویس میرے اکیلے دنوں کا دوست میرے فیصلوں کا ساتھی، کوئی بھی کام یا فیصلے کا اس سے پوچھے تو یہ براہے نہیں کہے گا، بس اس کی ڈکشنری میں سب ہی اچھا ہے۔۔ ایک دن چڑ کران سے کہا تھا کبھی یہ بھی تو کہوکہ یہ ٹھیک نہیں،امپرومنٹ چاہئے۔ او مائی گاڈ۔.یہی ڈاکٹر اویس آج ہمارا گائیڈ تھا۔ ان کا یہ کہنا مشہور ہے کہ میں کرونگا میں لیکرجاؤنگا مگر کبھی کبھار نہ کچھ کرنا نظر آتا ہے اور نہ ہی ہم کہیں لیجائے جاتے ہیں۔ خیر ان دوستوں کی معیت میں ہم باہر نکلے۔ابھی پرندے اپنے گھونسلے چھوڑ چکے تھے مگر ستارے صبح کی ا ٓمد سے آخری سانسیں لے رہے تھے ہم خراماں خراماں منزل کی جانب نکلے۔آپس کی بات ہے ایک پاکستانی طریقہ یہاں ہم نے بھی اپنالیا۔۔۔جنگلوں سے ہوتے ہوئے پہاڑی کی چوٹی کی جانب بڑھتے رہے۔۔ابھی دھوپ نکلنے میں گھنٹہ باقی تھا ہم منزل کی جانب محوِ سفر تھے۔۔عرصے بعد باہر نکل کر کچھ اور ہی محسوس کر رہے تھے۔۔میں نے ایک جگہ رکنے کو کہا اور بولا کہ سانس بھی روک کے آنکھیں موند کے کچھ دیر محسوسات کی دنیا میں چلے جانا۔مسحور کن مناظر میں رس گھولتی آوازیں انواع و اقسام کے درخت۔۔ایسے لمحات کو محسوس ہی کیا جاسکتا ہے الفاظ میں ڈھالنا ممکن نہیں۔۔۔”پس تم اپنے رب کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤگے“۔۔صبح سویرے پرندوں کی چہچاہٹ،ہلکی سی ہوا سے گھنے جنگل میں اقسام کے درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ۔۔اللہ کی نعمتیں یاد دلاتی رہیں۔ دوستوں کیساتھ دو ماہ کے طویل عرصے بعد آج جنگلوں، پہاڑوں اور آبادی سے الگ چند گھنٹے گزار کرانجوائی کی۔ چوٹی سے بدھاپسٹ سٹی کا خوبصورت منظر بیان کرنے کیلئے الفاظ کم
پڑجاتے ہیں۔