کالمز
عنوان: ماں کی محبت کے لیے کوئی ایک دن مختص نہیں
تحریر: صاحب مدد
ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں ماں کی محبت، شفقت اور بے لوث پیار کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ماں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
مجھے عالمی دنیا کی ماں کے لیے مختص کردہ صرف ایک دن سے اختلاف ہے۔ ماں کا پیار اور خدمت کے لیے پورا سال بھی ناکافی ہے۔ صرف ایک دن دیکھاؤے کے لیے ماں سے چمٹ کر تصاویر کھینچنے اور سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرکے ماں سے پیار اور ہمدردی جتانے سے حقیقت نہیں بدل سکتی ہے۔
دنیا میں خدا کے بعد سب سے زیادہ پیار کرنے والی ہستی ماں ہے، جو بے لوث اپنے بچوں سے پیار کرتی ہے۔ ماں کے نزدیک بچہ ،بچہ ہی رہتا ہے چائیں وہ شادی شدہ اور چار بچوں کا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ ماں کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کی اولاد ہوتی ہیں ۔ اولاد کے لیے ماں ہر قسم کے تکالیف برداشت کرسکتی ہے، اپنے اولاد کے لیے ماں سارے رشتوں سے کٹ کر بھی رہ سکتی ہے۔
ماں تب بھی روتی ہے جب بیٹا کھانا نہیں کھاتا ہے اور ماں تب بھی روتی ہے جب بیٹا کھانا نہیں دیتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اولاد جب بڑی ہوتی ہے وہ ماں باپ کا خیال نہیں رکھتے ہیں جتنا خیال رکھنا ان کا فرض ہے۔ والدین جب بڑھاپے کو پہنچتے ہیں تو اولا کا فرض ہے ان کی ضروریات کا انتہائی خیال رکھیں جیسا جب وہ چھوٹے تھے تب ان کے والدین ان کی ہر خواہش پوری کرتے تھے۔
ماں کی ممتا کبھی بھی بچوں میں فرق نہیں کرتی ہے ، ماں ہر بچے کی عادات و خصائل سے خوب واقف ہوتی ہے اور اسی طریقے سے ہر بچے کی عادات کے مطابق اس سے پیش آتی ہے۔ بچوں کا راز داں صرف ماں ہوتی ہے، بچے اپنے سب راز ماں کے ساتھ ہی شئیر کرتے ہیں ماں اپنے بچوں کے راز اپنے دل کے قبرستان میں دفن کر دیتی ہے ۔ خدا نے ماں میں وہ صلاحیت ڈالی ہے کہ بچے کا چہرہ دیکھ کر ماں سمجھ سکتی ہے کہ بچے کی دلی کیفیت کیا ہے۔
دنیا میں ماں باپ کا نعیم البدل کوئی نہیں ہے ، ماں اپنی اولاد کی بہتر مستقبل کے لیے اپنے خواہشات اور ارمان تک قربان کر دیتی ہے۔ شوہر کے وفات کے بعد یہ مائیں نہ دوسری شادی کرتے ہیں نہ اولاد کو باپ کی جدائی کا احساس دلاتے ہیں بلکہ یہ مائیں اپنے بچوں کے لیے بیک وقت ماں اور باپ دونوں کا کردار ادار کرتی ہیں۔ یہ مائیں اپنے اولاد کی روشن مستقبل کے لیے اس بے حسی معاشرے میں مشقت مزدوری تک کر دیتی ہے۔ کبھی ان پر شرم و حیا کے فتوے لگتے ہیں کھبی یہ بے حس معاشرہ ان پر بد کرداری کا لیبل لگاتا ہے ۔ یہ سب کچھ اپنی اولاد کے لیے جھیلتی ہے۔ ماں اپنے بچوں کے لیے کیا کچھ نہیں کرتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اولاد اپنے والدین کی خدمت نہیں کر سکتے ہیں، اولاد جب بڑے ہوکر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے ہیں تب والدین کو اپنے دیکر بہن بھائیوں میں تقسیم کر دیتے ہیں، جب وہ چھوٹے تھے تب ماں سے یہ کہہ کر چمٹ جاتے تھے ” میری ماں میری ماں” اور جب والدین بڑھاپے کی عمر کو پہنچتے ہیں تو دوسرے بہن بھائیوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیں ” تیری ماں تیری ماں” اس کو آپ سنبھال لے۔
یہ دنیا مکافات عمل ہے اگر ہم آج اپنے والدین کی نافرمانی کے مرتکب ہوئے تو کل کو ہمیں اپنے اولاد سے وفائی کی امید بلکل بھی نہیں رکھنا چاہیے۔ اگر آج آپ کے والدین بڑھاپے میں جسمانی لحاظ کمزور ہیں، وہ اپنی ضروریات پوری نہیں جاتے ہیں ، خود اپنا کام نہیں کر سکتے ہیں تو آپ کو ان کی بھرپور خدمت کر کے اپنی دنیا اور آخرت دونوں سنوارنا چائیں۔
ماں کی قدرو قیمت ان سے پوچھیں جن پر بچپن سے ہی ماں کا سایہ نہیں ہے۔ ماں کی محبت اور خدمت کے لیے کوئی ایک دن مختص نہیں ہوتا ہے سال کے تین سو پینسٹھ دن ماں کی محبت اور خدمت کے لیے کم ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سب کے ماؤں کو سلامت رکھے اور ماں کا سایہ ان کی اولاد پر ہمشیہ قائم و دائم رکھے ۔امین م!