کالمز

خودکشی میں قاتل کون؟

تحریر: اختر شگری

اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر پیدا کیا۔ یہ مختصر سی زندگی اللہ پاک کی بندگی اور خدمت خلق کیلئے دی گئی ہے۔ یہ زندگی اللہ کی طرفسیامانت ہے کبھی بھی خیانت کا حق حاصل نہیں ہے،”دنیا آخرت کی کھیتی ہے” یہ فنا ہونے والی جگہ ہے یہ مصیبت، تنگدستی، آرامش و آسائش، خوش بختی و بدبختی بھی کچھ لمحات کیلئے ہیں۔

رسول خدا (ص) نے ارشاد فرمایا: "حقیقی، مومن ہر مصیبت میں مبتلا ہوسکتا ہے اور ہر طرح کی موت سے مر جاتا ہے، لیکن وہ کبھی خود کو نہیں مارتا۔”

خود کشی ان بڑے گناہوں میں سے ایک ہے جس کے لئے اللہ رب العزت نے آگ اور جہنم کا وعدہ کیا ہے۔ خدا کی رحمت سے مایوسی گناہ کبیرہ ہے اور یہ کفر و شرک کے مترادف ہے۔

انسان کو خدا کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے لیے پریشانیوں سے نکلنے کا واحد راستہ اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھنا، دعا و مناجات، توبہ و استغفار کرنا ہے جو ہرناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے اور ہمارے لیے خوش بختی، سعادت و خوشحالی کا راستہ کھول دیتا ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) سے روایت ہے: "جو شخص لوہے سے خودکشی کرتا ہے میدان حشر میں اسے لوہے کے ٹکڑے کے ساتھ لایا جائے گا، جس کا ایک حصہ اس کے پیٹ میں دھنسا ہوا ہو گا اور اسے اسی حالت میں جہنم کی آگ میں پھینکا جائیگا۔جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔

خودکشی کے ذریعے زندگی بجھانے کے رحجانات زیادہ تر 15 سے 26 سال کی عمر یعنی جوان نسل کے افراد میں دیکھا جاتا ہے.

اگر ہم غوروفکر کریں تو یہ حادثہ ایک دم رونما نہیں ہوتا، ہرخود کشی کے پیچھے کوئی قاتل ضرور ہوتا ہے مگر تعجب اس بات کی ہے یہ قاتل ہمارے اردگرد حتی ہماری جسم کے اندر ہونے کے باوجود بھی ہم بیخبر ہیں کبھی ہم نے اس دشمن کو پہچانے کی کوشش نہیں کی نہ اس سے مقابلے اور بچاؤ کیلئے عملی اقدامات انجام دیں۔

دشمن شناسی بہت ضروری اور واجب ہے دشمن کی پہچان میں کوتاہی کی وجہ سے ہمارے نوجوان نسل کے جوان گلے میں پھندا ڈال دیتا ہے۔

اگر ہم خودکشی کرنے والوں کے قاتل اور اسباب جاننا چاہیں تو سر فہرست مال دنیا، منشیات، ذہنی دباو، سماجی پریشر،ڈپریشن، عشق، روحی بیماری، لمبی آرزوئیں، شوشل میڈیا کے رنگارنگ نظارے، ایمان کی کمزوری، طاغوتی طاقت، شیطانی وسوسے، برے دوست حتی فیملی ممبر بھی ھوسکتے ہیں۔

کیونکہ ہم میں سے اکثر لوگ اسے دیوانگی، پاگل پن، بزدلی اور نفسیاتی مریض کا نام دے کر اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں۔

خود کشی کیسدباب کے لیے اس کے اسباب کا علم ہوناضروری ہے۔ وہ کونسی شے ہے جو انسان کو اس قدر مایوسی کی جانب دھکیل دیتی ہے کہ انسان خود ہی اپنی زندگی ختم کرنے کے درپے ہوجاتا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق خودکشی کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں سے ایمان کی کمزوری، غربت، بیروزگاری، مایوسی، افسردگی، غصہ، تشدد، اعتماد کی کمی،طمع، لمبی امیدیں، امتحانات میں ناکامی اور اللہ پرامید و توکل کا نہ ہونا شامل ہیں۔

طبی ماہرین کی مدد سے خیر ہم نے اسباب تو ڈھونڈ نکالے مگر جن لوگوں میں یہ سبب پایا جاتا ہے ان کے مدد گار اورحاحت روا کون بنے یہ بیچارے اپنی مشکلات اور مسائل دل کھول کر کہاں بیان کریں۔

یہاں تو نفسانفسی کا عالم ہے ہر کسی کو اپنی فکر ہے ھر کوئی اپنی ضروریات اور مفاد کے بت کی پرستش میں مصروف ہے میرے ساتھ بیٹھے شخص کی زندگی میں کیا چل رہا ہے، وہ کن حالات سے گزر رہا ہے کسی کی کیا مجبوری ہیکس کے کیا مسائل ہیں مجھے نہیں معلوم۔

باپ کو بیٹے کے مسائل کا علم نہیں تو ماں، بیٹی کے حالات زندگی سے ناواقف۔ شاگرد، استاد کی نفسیات سے لاعلمی کا شکار تو استاد کو شاگرد کی مشکلات کی کوئی پروا نہیں۔

اس صورت حال میں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے جس طرح جسمانی بیماریوں کے علاج معالجہ کیلئے ہسپتال قائم کیے گئے ہیں اسطرح نفسیاتی ادارے بھی جگہ جگہ قائم کیا جاے وہاں لوگوں کے نفسیاتی علاج معالجے ممکن ہوسکے اور مشکلات میں پسے ہوے طبقہ کی مشکلات حل ہوسکے اور علماء کرام کی بھی زمداری بنتی ہے لوگوں کے روحانی علاج معالجے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں لوگوں تک دینی احکامات پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں اہمیت دعا و مناجات اور اللہ کی ذات سے مانگنے کیگر لوگوں کو سکھاے جائیں، صبر کی اہمیت اور شکر کی افادیت کے بارے میں لوگوں کو تعلیم دیں۔

اگر ہم اپنے ارد گرد کسی ایسے شخص کو دیکھیں جو زندگی سے مایوس اور ناامید ہے تو اس کے ساتھ گفتگو کریں مسائل کا ممکنہ حل پیش کریں۔ اگر مالی تعاون ممکن ہو تو وہ بھی کریں نہیں تو کم از کم اس کی حوصلہ افزائی کریں۔

یہ بھی ضروری ہے کہ ہرکوئی اپنے اذہان عالیہ کو منفی سوچوں سے پاک رکھے کسی بھی پریشانی کا ا?غاز منفی سوچ سے ہی ہوتا ہے اور اگر ا?پ والدین ہیں تو اپنی اولاد کی ضروریات کو سمجھیں ان سے گفتگو کیجیے، ان کے مسائل سنیں انہیں وقت دیجیے انہیں اپنے فیصلوں میں ایک حد تک ا?زادی دیجیے تاکہ وہ ڈپریشن کا شکار نہ ہو۔

ارشاد خداوندی ہے "جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔” خودکشی واحد گناہ ہے جس کے بعد انسان کو کبھی توبہ کرنیکا موقع نہیں ملے گا۔

ھم مسلمانوں کا عقیدہ ہے اگر دنیاوی زندگی آرام و آسائش سے خالی گزر جاے تو گزرنے دے کوئی پریشانی کی بات نہیں آخرت میں آرامش و آزمائش ہماری قدم چھومیگی۔

مگر افسوس اللہ اور اس کے رسول(ص) کی ممانعت کے باوجود دنیاوی فنا ہونے والے کاموں اور آرزؤں کی خاطر خودکشی کر کے دنیا و آخرت رسوائی چاہتے ہیں اور جہنم میں جلنے کو ترجیح دینے پر مجبور ہیں۔

آخر میں دعا ہے اللہ رب العزت ہمیں خودکشی کے قاتل کی شناخت کرکے اس کے لییحل ڈھونڈنیکی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button