ترقی پسند بہ مقابلہ قدامت پسند
اکرم شاہ
بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ یہ قوی امکان ہے کہ زندگی سے وابستہ بہت سے چیزیں بدل جاتی ہیں ۔پرانے قصے اگر سنے تو اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت ہمارے آباؤ اجداد کن حالات میں زندگی گزار رہے تھے. اور ان کو کن نا مصائب حالات کا سامنا تھا ۔ان کی داستانیں سننے لگ جائے تو ہم بخوبی جان سکتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ بہادر اور نڈر لوگ تھے ۔کئ سو میل سفر بھاری بھر سامان کے ساتھ پیدل طے سکرتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچ جاتے تھے۔وہ اتنے طاقتور تھے کہ آج کل پانچ چھے لوگوں کا کام اکیلے انجام دیتے تھے ۔تھکان اور سستی کی عنصر ان کے جسم میں شامل نہیں تھی ۔وجہ یہ تھی کہ وہ خالص خوراک زیادہ تر دیسی طریقوں سے حاصل غذائی اجناس کا استعمال کیا کرت تو سسے تھے۔اس لیے وہ چاق وچوبند رہتے تھے ۔ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے مدد اور ہمدردی کا مادہ بہت زیادہ تھا وہ اکثر اپنے کام کے علاؤہ دوسروں کی مدد کے لئے بھی کوشاں رہتے تھے۔یوں باہمی محبت اور رواداری قائم رکھتے تھے ۔یوں معاشرے کے اندر رہتے ہوئے اپنے طور پر منظم ذندگی گزارتے تھے ۔وسائل کے لحاظ سے وہ سب مشکلات کا شکار تھے ۔ذرائع معاش زراعت یا مال مویشی پا کر ہی کرتے تھے۔ کھانے پینے اور پہنے کی چیزوں کی قلت کا سامنا تھا۔اگر قضا اس دور کا موازنہ موجود دور سے کریں تو آپ بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم کتنی ترقی کر چکے ہیں یہ کوئی آ سی نوے سال کے بعد دنیا میں بہت تیزی سے انقلاب برپا ہوا ہے۔اج ہم پوری دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کو چند لمحوں میں نظارہ کر سکتے ہیں۔بدلتے ہوئے اس زمانے میں جہاں ہمارے لئے نت نئی چیزیں ایجاد ہو رہیں ہیں ساتھ ساتھ یہ انسانی آداب ،رواداری،محنت،شائستگی،محبت ،اخوت ،برداشت کو بھی ہم سے چھین رہی ہے۔جہاں ہر کام مشینوں کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔مقابلہ ہر شعبہ زندگی میں اضافہ ہوا ہے۔اس مقابل کے دور میں ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں مگن رہتا ہے ،چاہے وہ جائز طریقے سے یا ناجائز طور پر ۔کروہ ارض پر موجود ہر انسان تذبذب کا شکار ہے کہ آنے والا وقت کیسا ہوگا ۔ہر چند لمحوں میں اسکے دلچسپیاں بڑھ رہیں ہیں ۔ایک کام کا ارادہ کر لے تو ہزار ہا اسکے سامنے آتے ہیں۔سارہ دن اسی کشمکش میں گزر جاتا ہے۔ابادی کے اضافے سے ہر چیز میں کمی ا رہی ہے۔جس کے باعث تمام اقوام عالم متاثر ہوا ہے۔بازاروں میں کوئی چیز بغیر ملاوٹ کے میسر نہیں ہے انہی چیزوں کے استعمال سے ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی صحت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔دیہاتوں سے لوگ جوق در جوق شہروں کا رخ کر رہے ہیں جس کے باعث صحت عامہ،تعلیم اور دوسرے شعبے مالی بحران کا سامنا کررہے ہیں۔یہ اس لئے کہ ہر چیز گھر کے دہلیز پر میسر ہے ۔اسکے ساتھ بدلتے ہوئے حالات میں ہمارے رویوں میں بے پناہ تبدیلی آئیں ہیں۔ہماری وجہ سے قدامت پسند لوگ بہت زیادہ پریشان ہیں۔ہمارے پاس ہر چیز میسر ہے پھر بھی پریشان ہیں وجہ یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے اولاد جس طرح انہوں نے محنت مشقت کی ہے اس طرح وہ بھی ان کے نقش قدم پر چلے لیکن آج کی ترقی یافتہ نسل ان کی کسی بات ماننا تو دور کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔جس کی وجہ سے اکثر والدین اور اولاد میں خلشیں جنم لیتی ہیں۔نئ نسل اور قدامت پسند کے درمیان کسی بات پر ہم آہنگی پیدا نہیں ہوتی جس کی وجہ سے کئی نا خوشگوار واقعات رونما ہوتی ہیں۔اگر دیکھا جائے تو دونوں اپنی طور پر درست ہونگے لیکن دونوں میں سوچ الگ الگ ہوگی وہ آپنے زمانے اور حالات کے مطابق فیصلے کرینگے ۔اج والدین کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے بچے ان کے مقابلے میں ایک الگ ماحول میں پل رہے ہیں ۔وہ اس ماحول کے مطابق رہنا اور کام کرنا پسند کرئنگے۔اگر کسی آزاد پنچھی کو پنجرے میں بند کر کے رکھا جائے گا تو پھر وہ اس پنجرے میں بند رکھنے کی وجہ سے رہ تو سکتا ہے لیکن جی نہیں سکتا ۔اج نئی نسل کو بھی والدین کے نظریات کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ جو خلا ہم اور والدین میں پیدا ہو رہا ہے اس میں کمی آ سکے