گلگت بلتستان ایک بار پھر عالمی سازشوں کامرکز
تحریر: فیض اللہ فراق
گلگت بلتستان ایک ایسا خطہ ہے جو جیو اسٹریٹجک اہمیت کے اعتبار سے ہر زمانے میں عالمی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ 1947 سے قبل یہاں ڈوگرہ حکومت کر رہے تھے مگر انگریز نے گلگت بلتستان پر روس کے اثرات سے خائف ہو کر اس علاقے کو ڈوگرہ سے لیز پر لیتے ہوئے اپنی موجودگی کا عملا احساس اجاگر کیا، اور اگست 1947 کو انگریز ان علاقوں کو از خود دوبارہ ڈوگرہ سرکار کے حوالہ کرتے ہوئے ایک ہی شرط رکھ دی کہ میجر براون کو مقامی سکاوٹس کا کمانڈنٹ مقرر کیا جائے۔ میجر براون کی موجودگی دراصل روس کے چین کے ساتھ رابطے کو روکنا اور سوشلزم کے اثرات سے اس علاقے کو دور رکھنا تھا۔
انقلاب گلگت کے بعد گلگت ایک نو مولود آزاد ریاست کے طور پر ابھرا مگر ریاستی صدر شاہ رئیس خان اور اس کے ساتھی سرکاری ملازمتوں کا مطالبہ کرتے ہوئے حکمرانی پر نوکری کو ترجیح دی اور سردار عالم نے علاقے کا نظم و نسق سنبھالا، جبکہ قبل ازیں میر آف ہنزہ اور میر آف نگر اس علاقے کو پاکستان میں شامل کرنے کے حوالے سے قائد اعظم کو خطوط لکھ چکے تھے۔ مقامی آبادی عوامی سطح پر پاکستان سے غیر مشروط وابستگی کے خواہاں تھی، دستاویزی طور پر گلگت بلتستان کے الحاق کا کہیں ریکارڈ کا مجھے نہیں معلوم تاہم عملا یہاں کے لوگوں کی پاکستان کے ساتھ نظریاتی وابستگی ایک حقیقت ہے اور نظریہ کسی سرکاری دستاویز کا محتاج کبھی نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کے دفاع کیلئے گلگت بلتستان کے لوگوں کی لازوال قربانیاں ہیں۔۔ ریاست کے وسیع تر مفاد کیلئے اس خطے کو تنازعہ کشمیر سے جوڑا گیا حالانکہ خود آزادی لینے کے بعد گلگت بلتستان کا کسی تنازعہ سے کوئی تعلق نہیں بنتا تھا۔ گلگت بلتستان کے لوگوں نے پھر بھی ریاستی بیانیے کو سپورٹ کیا اور تہتر برسوں سے ” کشمیر بنے گا پاکستان” کے نعرے سے گلگت بلتستان کے درو دیوار بھی مانوس ہوتے ہوئے آ رہے ہیں۔
تنازعہ کشمیر کے تین حصے تھے اور تینوں حصوں کی یکساں متنازعہ حیثیت ہونی چاہئے تھی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روز اول سے ان تینوں علاقوں پر مختلف نوعیت کے سیاسی نظام قائم رہے اوراقوام متحدہ کی قراردادوں پر کوئی فرق نہیں پڑا۔۔۔ مظفر آباد کو وزیر اعظم اور صدر دے کر ریاستی سیٹ اپ دیا گیا، مقبوضہ کشمیر کو پہلے اندرونی خودمختاری اور عبوری آئین دیا گیا اور اب وہاں کی متنازعہ حیثیت ختم کر کے بھارت نے اپنے آئین کا حصہ بنا لیا۔۔۔ لیکن کہیں پر بھئ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر کوئی فرق نہیں پڑا۔۔ 1960 کی دہائی میں گلگت بلتستان کے علاقہ شمشال کے مقام پر کچھ ایریا چین کو تحفے میں دیا گیا مگر اقوام متحدہ کی قراردادیں وہاں بھی خاموش رہیں ۔۔
آخر گلگت بلتستان کے 15 لاکھ محب وطن پاکستانیوں کو کیوں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو رکاوٹ کے طور پر سامنے لایا جاتا ہے؟ یہاں کے 15 لاکھ لوگ ہم نظریاتی پاکستانی ہیں کا نعرہ لگاتے ہیں وہاں سے بھارت اپنا حصہ قرار دیتا ہے اور ہمارا دفتر خارجہ ہمیں متنازعہ قرار دے کر ہمارے زخموں پر نمک پاشی کا مرتکب ہوتا ہے۔
ایسے حالات میں مقامی محب وطن نوجوان نسل کا غم و غصہ بجا ہے اور خدشہ ہے یہ غم و غصہ کوئی اور رخ اختیار نہ کرے کیونکہ اب گلگت بلتستان پر کچھ اور ہونے جا رہا ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی نمبرداری کو روکنا آمریکہ کیلئے لازم ہو چکا ہے اور چین اپنی معیشت سے دنیا کو پیچھے چھوڑنے جا رہا ہے۔ چین کی 80 سے 90 فیصد کاروبار کا رستہ ساوتھ چائنا سی( south china sea) ہے۔ مگر امریکہ یہاں ویتنام، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ ملکر چین کا رستہ روکنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ اس سارے عمل میں بھارت بھی امریکہ کا ہمنوا ہے۔ اس وقت امریکہ کیلئے چیلنج قراقرم ہائی وے کا رستہ ہے جہاں سے سی پیک نے گزرنا ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی کوشش ہے کہ چین کیلئے خنجراب والے رستے کو بھی مسدود کیا جائے، اس عمل کیلئے بھارت سے تعاون لیا جا رہا ہے ۔
گزشتہ دنوں سے بھارت کے گلگت بلتستان پر بیانات، بھڑکیں، اور جعلی ٹویٹر اکاونٹ اس کی ایک کڑی ہے۔ اب تو یہ صرف انڈیکٹرز ہیں آگے بہت کچھ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ وہاں سے گلگت بلتستان ہر بھارتی دلچسپی کے بیانات آتے ہیں یہاں سوشل میڈیا پر اچانک فرقہ وارانہ منافرت کی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ کہیں کوئی تو کنیکشن ہے۔ گلگت بلتستان میں گزشتہ 5 سالوں سے خوبصورت امن قائم رہا مگر آج اچانک منافرت پر مبنی تبصروں کا سر اٹھانا سوال پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔
گلگت بلتستان کی سب سے بڑی فالٹ لائن فرقہ وارانہ منافرت ہے۔ چونکہ یہ علاقہ مختلف النوع فرقوں کا اقوام متحدہ ہے۔ یہاں یک رنگی نہیں ہے۔ دشمن ہماری اس فالٹ لائن سے ہمیں کمزور کر سکتا ہے۔۔ اس نازک مرحلے پر ہمیں سوچنا ہے کہ آخر ہم نے کیا کرنا ہے؟ یہ بات ذہن نشین کرنی کی ضرورت ہے کہ بھارت سے وہاں کے مسلمان آج بھی ناخوش ہیں، ان کی زندگی وہاں اجیرن ہے، لاکھوں کشمیری بھارتی ظلم کے خلاف اپنی جانیں دے چکے ہیں۔ وہاں انسانی، بنیادی اور مذہبی حقوق قدم قدم پر پامال نظر آ رہے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ بھارت کسی لداخی، کشمیری اور گلگتی و بلتی کا خیر خواہ ہو سکے گا ۔۔۔
اور دوسری اہم بات گلگت بلتستان کے لوگ قومی سطح پر اتنے بالغ بھی نہیں کہ وہ اس مختلف النوع مسالک، ذاتوں ، قوموں اور زبانوں میں ایک ریاستی ڈھانچے کی شکل میں بقا کو یقینی بنا سکے۔ ہم اندرون خانہ ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم سے آج تک ایک جامعہ قراقرم نہیں سنبھالی جا سکی۔ ہم آج بھی فرقہ، زبان اور قوم کی بنیاد پر اپنے قلم کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم چھوٹے چھوٹے دائروں میں بٹے ہوئے ہیں۔۔۔۔ ہمارا قبلہ فرانس، ایران اور سعودی عریبیہ ہے۔ ہم گلگت بلتستان اور پاکستان سے وفادار رہیں یا نہ رہیں ایران، فرانس اور سعودی عرب کے ساتھ وفاداری کا حلف لے چکے ہیں۔۔ ہمارا اپنا کوئی اجتماعی ایجنڈا نہیں۔۔ ہم ہر آنے والے کا تالیاں بجا کر استقبال کرتے ہیں اور جانے والے کو ڈھول کی تھاپ پر رخصت کرتے ہیں۔۔ ایک اسسٹنٹ کمشنر کی پوسٹنگ پر مبارکبادیاں ہمارے فیس بک کا ٹاپ ٹرینڈ بن جاتا ہے۔
ہماری حالت تو یہ ہے اور پھر بھی اللہ نے ہمیں بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے اور ہم نا شکرے ہیں۔ ہمارا جینا، مرنا پاکستان ہے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔۔ گلگت بلتستان و پاکستان سے سچی محبت ہی یہاں کی ترقی ہے۔ اگر ہم نے کسی کو خوش کرنے کیلئے ایک بار پھر فرقہ واریت کو فروغ دیا تو یاد رکھیں نقصان گلگت بلتستان کا ہوگا۔۔ نقصان گلگتیوں اور بلتیوں کا ہوگا۔۔ ۔ماضی پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ ماضی میں فرقے کئ بنیاد پر ہم نے صرف نفرتوں کی مارکیٹنگ کی ہے، بے گناہوں کا خون بہایا ہے اور اپنے علاقے کو اپنے لئے نوگو ایریاز بنایا تھا ۔۔ مگر۔۔ آج تک کوئی کسی کو فتح نہ کر سکا۔۔ آگے بھی ایسا ہوگا۔۔ کوئی کسی کو فتح نہ کر پائے گا۔۔ اپنی مٹی جہنم بنے گی۔۔۔ اپنے کھیت کھلیان سوکھ جائیں گے، اپنا ہی کاروبار ملیا مٹ ہوگا۔۔
ہمیں چاہئے کہ ایک قوم بن کر بھارتی عزائم کے خلاف پاکستان کے دفاع کیلئے آگے بڑھیں اور اپنی سیاسی محرومیوں کیلئے ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کریں اور ان سے حقوق لیں جو ہمارے حقوق کے مجاز ہیں۔۔گلگت بلتستان کے لوگوں نے بھارتی دھمکیوں اور عزائم کو مسترد کیا ہے اور یہاں کے لوگ بھارتی ہندووں کے خلاف لڑنا فخر سمجھتے ہیں لیکن وفاقی حکومت اور مقتدر حلقوں کو چاہئے کہ وہ گلگت بلتستان پر عوامی ریفرنڈم کرائیں اور عوامی مطالبے پر ملک کے تمام بڑے ایوانوں میں مسلئہ کشمیر کے حل تک باقاعدہ نمائندگی دے دیں۔۔ اور گلگت بلتستان کو جتنی جلدی ہو سکے آئینی چھتری فراہم کریں۔