کہیں دیر ہوجاے نہ ہو جاے!
تحریر عالم نور حیدر
کچھ دن پہلے بھارتی میڈیا نے موسم کی خبروں میں گلگت بلتستان اور آزاد۔کشمیر کا بھی حال بتانا شروع کیا ۔میرے لیے یہ کویی بات نہیں تھی کیوں کہ بھارت کا ابتدا سے ہی یہ دعوی رہا ہے کہ گلگت بلتستان ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔اور بھارت نے کویی ایسا لمحہ ضایع نہیں کیا جس میں گلگت بلتستان پر دعوی نہ کیا ہو۔
بھارت کا موسم کی خبروں میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو شامل اس فیصلے کے بعد کیا گیا جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے گلگت بلتستان میں نگراں سیٹ اپ کے حوالے سے وفاق کہ درخواست پر اپنا فیصلہ سنایا اس کے بعد بھارت کے تن میں آگ لگ گیی اور بھارتی دفتر خارجہ سے بھی اٹوٹ انگ کے بیانات آنا شروع ہوگیے جبکہ بھارتی جنرلوں نے بھی گیدڑ بھبکیاں دینا شروع کی جو شروع سے دیتے آرہے ہیں۔۔پریشانی یہ نہیں کہ بھارت نے موسم کی خبروں میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو شامل۔کیا یا بھارت اٹوٹ انگ کہتا ہے ۔بات دراصل یہ ہے کہ بھارت تو مسلسل دعوی پہ دعوی کرتا آرہا ہے لیکن۔۔۔۔ حالانکہ گلگت بلتستان کے عوام نے 1947میں ہی بھارتی ڈوگرہ فوج کو مار بھگا کے آزادی حاصل کی اور آزاد ریاست بنائی (جنگ آزادی اور آزاد ریاست اسلامی جمہوریہ گلگت کے حوالے سے الگ کالم لکھوں آزادی گلگت بلتستان۔کے حوالے سے کچھ سرکاری مورخوں۔نے اپنے ظرف کے مطابق لکھا ہے انشاءاللہ اس۔پہ تفصیل گفتگو بعد میں کی جاے گی کہ آزاد ریاست کن سازشوں کا شکار ہوگیی۔)۔
بعد میں ہمارے لوگوں نے اپنے آپ کو پاکستان کے سپرد کر دیا اور گزشتہ بہتر سالوں سے پاکستان کا آینی حصہ بننے کے انتظار میں ہیں حتی کہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت اور مسلم لیگ ن۔کے دور حکومت میں دوتہایی اکثریت نے پاکستان کا آینی صوبہ بنانے کے لیے قرارداد متفقہ طور پر منظور کی اسمبلی کے بعد آل۔ہارٹیز کانفرنس بلائی گئی اور اے پی سی نے بھی اس کی توثیق کی مگر ان قراردادوں کو ردی کی ٹوکری کی نظر کیا گیا اس کے ساتھ آزاد کشمیر کے کاغذی شیروں نے آزادکمشیر کی قانون ساز اسمبلی میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں منظور کی گیی قرارداد کی مخالفت میں قرارداد منظور کی اور واضح کیا کہ گلگت بلتستان کو کسی بھی صورت میں پاکستان کا آینی حصہ نہیں بننے دیں گے حالانکہ گلگت بلتستان نے 1947میں ہی ڈوگرہ کے خلاف جنگ لڑ کے آزادی حاصل کی اور کشمیر اور انڈیا دونوں سے الگ ہوگیا۔ اس کے باوجود ابھی تک گلگت بلتستان کے اوپر حق جتانا سمجھ سے بالاتر ہے پھر گلگت بلتستان کو متنازعہ بنا کر اقوام متحدہ لیجانا اسکے علاوہ28اپریل 1949کو گلگت بلتستان کی نمایندگی کے بغیر کشمیری لیڈر شپ کے زریعے معاہدہ کراچی کر کے انتظام و انصرام وزارت امور و کشمیر کو دینا۔
آخر گلگت بلتستان کے 28ہزار مربع میل پر پھیلے ہوے 20لاکھ سے زیادہ آبادی کے ساتھ دہرا معیار کیوں رکھا جا رہا ہے؟
اب جبکہ بارڈر کے دونوں طرف وادی کشمیر اور آزاد کشمیر میں بااختیار حکومتں قایم ہیں مگر گلگت بلتستان کے ساتھ سو تیلی ماں جیسا سلوک کیوں یہاں کے عوام کو کیوں نیشنل اسٹریم میں۔نمایندگی نہیں دی جارہی ۔جس خطے کے لوگوں نے ہر محاز پر دشمن کو شکست فاش دی چاہے معرکہ کرگل ہو۔وانا وزیرستان ہو۔سوات آپرشن ہو ضرب عضب ہو یا کویی اور جنگ اس خطے کے لوگوں نے قربانیاں دی اور گلگت بلتستان۔کے چپہ چپہ میں شہیدوں کی قبروں۔پر سبز ہلالی پرچم بلند ہے ۔۔ایسے میں ریاستی یہ کمزور موقف کہ گلگت بلتستان متنازعہ خطہ ہے ۔۔ریاستی اس موقف سے دشمن کو فایدہ پہنچ رہا ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ وقت ضایع کیے بغیر گلگت بلتستان کو آینی صوبہ بناے ڈیکلیر کرے قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمایندگی دے کر یہاں کے عوام کی احساس محرومی ختم کر دے اور ہمیں یقین ہے کہ یہ جراءت مندانہ فیصلہ وزیراعظم عمران جیسے بہادر ہی کریں گے اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر مسلہ کشمیر کے حل تک کے لیے گلگت بلتستان سمیت آزاد کشمیر کو الگ الگ عبوری آینی صوبے بنایں۔ایسا کرنا خود ریاست پاکستان اور عوام کے مفاد میں ہیں کیوں کہ جب سے سی پیک پر کام شروع ہوا ہے دشمن۔ملک بھارت بین القوامی ملکی اور گلگت بلتستان کے اندر اور باہر شازشیں کرنے میں۔لگا ہوا ہے اسلیے حکومت کو چاہیے کہ فورا گلگت بلتستان کے حوالے سے دبنگ فیصلہ کرے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجاے ۔۔