کالمز

گلگت بلتستان کی قوم پرستی، اور غلط فہم سوشلسٹس

تحریر: منیب شایان

قوم پرستی کو سمجھنے سے قبل قوم کی تعریف کو سمجھنا ضروری ہوگا۔ انسان کے وجود کے ساتھ ہی قوم کا بھی وجود عمل میں آیا۔ قوم کی تعریف انسان اپنی ضرورت کے مطابق کرتا رہا ہے. جیسے کہ پرانے زمانے میں جب ریاست کا وجود نہیں تھا اس وقت ایک فرد کی اولاد کو قوم کہا جاتا تھا اور اس فرد کی اولاد جو ایک قبیلے کی صورت میں اکٹھے ہوتے تھے, ان کے مفادات اور مشکلات مشترک تھیں تو وہ  ایک قوم کہلاتے تھے، پھر انسان کی آبادی جب اس زمین میں بڑھتی گئی اور حالات بدلتے گئے تو قوم کا تصور فرد کی اولاد سے آگے بڑھ کر ایک زبان بولنے والوں تک پھیل گیا. اس وقت ایک زبان بولنے والوں نے آپس میں اپنے مفادات اور مشکلات کو مشترک مانا اور  زبان کی بنیاد پر ایک قوم کہلانے لگے. پھر وقت گذرنے کے ساتھ دنیا میں اور تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں اور جب مذہب انسانی معاشرے میں اہم انصر بنا تو ایک مذہب کے لوگوں نے اپنے مفادات اور مشکلات مشترک مان کر ایک مذہب کے ماننے والوں کو ایک قوم کا نام دیا اور مذہب کی بنیاد پر قوم وجود میں آئی اور  وقت کے ساتھ انسان جدید بھی ہوتا گیا اور انسان گلوبلائزیشن کی وجہ سے مختلف مذاہب کے لوگ دوسری جگہوں پر منتقل ہوتے گئے اور ہر ایک مذہب کے لوگ ہر ایک جگہے پر وجود رکھتے گئے. ریاست کی بھی شکل وجود میں آئی تو مذہبی قوم پرستی ریاست میں بھی رہی اور آج بھی اس کی شکل ایران جیسی ریاستوں کی شکل میں موجود ہے لیکن بعد ازاں انسان کی مسلسل ترقی اور دنیا میں پھیلاو سے مذہبی قوم پرستی کو وطنی قوم پرستی نے آہستہ آہستہ ختم کر دیا اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم وطنی قوم پرستی ضرورت بن گئی۔ موجودہ دور میں مثلا امریکہ کا مسلمان پہلے اپنے آپ کو امریکن مانتا ہے ، فرانس کا عیسائی اپنے آپ کو پہلے فرانسیسی کہتا ہے، رشیا کا عیسائی یا مسلمان اپنے آپ کو پہلے رشین مانتا ہے، انڈیا کا مسلمان اپنے آپ کو پہلے انڈین کہتا ہے اسی طرح پاکستان کا عیسائی اپنے آپ کو پہلے پاکستانی کہتا ہے۔

تو اس کی وجہ سے اب جدید دور میں قوم پرستی کی تعریف کچھ یو بنتی ہے کہ ” مخصوص جغرافیائی حدود میں سکونت رکھنے والے  لوگ، خواہ وہ جس نسل، جس مذہب، جس زبان یا جس بھی ثقافت سے تعلق رکھتے ہوں, اگر وہ اپنے مجموعی مفادات کو حاصل کرنے کا عہد کرتے ہیں تو وہ ایک قوم ہے” اور دور حاضر میں آپ دیکھ سکتے ہیں ہر قوم ایک جغرافیائی وحدت میں اقوام عالم کے ایک فورم میں اکھٹے اپنے مفادات کو حاصل کرنے میں مگن ہیں ماسوائے گلگت بلتستان اور جموں و کشمیر کے۔

ہم گلگت بلتستان کے قوم پرست یہی کہتے ہیں کہ جب امریکہ اتنے مختلف مذاہب اور نسلوں تک کے فرقوں میں منقسم ہونے کے باجود ایک قوم بن کر دنیا میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے، چائنہ اتنے نسلوں میں بٹا ہوا آج ایک قوم کی شکل میں ترقی کر رہا ہے، پاکستان اتنے مذہبی فرقوں اور نسلی تفریق کے باوجود ایک قوم بن کر دنیا کی بھاگ دوڈ میں شامل ہے روس، جرمنی ، انڈیا، ترکی، برطانیہ تمام مثالیں آپ کے سامنے ہیں کون سی قوم ہے جو مذہبی ، نسلی اور زبانی تفریق کے بغیر ہے؟

تو ہم شینا، بلتی، کھوار ، بروشاسکی ، وخی وغیرہ زبانیں بولنے والے اور  مختلف النسل ایک قوم کیوں نہیں بن سکتے؟ ہمارے پاس تو دیگر اقوام سے بھی بڑے جواز موجود ہیں۔ ہماری تاریخ ایک رہی ہے، ہماری ثقافت ایک دوسرے سے ملتی ہے،  ہم ایک دوسروں سے کسی نہ کسی شکل میں ملتے جلتے ہیں مثلا بلتی النسل ہنزہ میں بروشاسکی بھی بولتا ہے، وخی النسل شینا بولنے والا بھی ہے، شینا بولنے والے بلتستان میں بھی موجود ہیں، دیامر  چلاس کا یشکن، غذر اور ہنزہ میں بھی ہے، گوجال کا وخی بولنے والا اشکومن غذر میں بھی ہے بلتی نسل گلگت میں بھی آباد ہے اور  بہت ساری ایسی وجوہات ہیں کہ ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک قوم کی شکل میں رہنے پر مجبور کرتی ہیں۔

لہذا ہم کہتے ہیں کہ ہم بھی دنیا میں اقوام عالم میں اپنا شمار کرائیں ہمیں دنیا کی کوئی قوم بحثیت  قوم تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہم اس لیول پر ہیں. ہم بحثیت گلگت بلتستان کی قوم اس لیول پر آنا چاہتے ہیں اور اقوام عالم کے شانہ بشانہ ترقی کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں. یہ ہمارا عزم ہے. اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں بنتا کہ ہم کسی شین، یشکن، بلتی، بروشو، یا کسی ایسی قومیت کا دعوی کرتے ہیں جو کہ سوشلسٹ دوست ہماری قوم پرستی کو ایسے ٹال مٹول کر پیش کرتے ہیں اور ہماری قوم پرستی کو جبر کی وجہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ محنت کش عوام پر ظلم ہوگا۔

جہاں تک ظلم و جبر کی بات ہے تو ماضی میں جتنا ظلم سوشلسٹوں نے اقتدار میں ہوتے ہوئے کیا ہے اتنا ظلم شاید ہی انسانی تاریخ میں ہوا ہو۔ جی ہاں جب برطانوی سامراج دنیا بھر میں قبضہ جمائے دنیا پر ظلم کر رہی تھی ، پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم بھی لڑنے تک کے سفر میں برطانیہ کی "لیبر پارٹی” ہی ذیادہ تر اقتدار میں رہی تھی جو کہ سوشلسٹ پارٹی تھی۔

اور دوسری طرف روس میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد سوشلسٹ اور محنت کش عوام کے علمبردار سٹالن کی جارحیت جو کہ(Red terror in Russia)اور سووئیت سوشلیزم کو  satellite and Baltic states اور دیگر جگہوں پر جو سووئیت رشیا کے ڈومین میں تھے ان پر ذبردستی سوشلیزم امپوز کرنا دنیا سے پوشیدہ نہیں اور بھی مثالیں موجود ہیں جیسے سرمایہ داری کو انسان دشمن سمجھنے والی "کمیونسٹ پارٹی چائنہ کئی دہائیوں سے اقتدار میں آئے وہی سرمایہ داروں کی باپ بنی ہوئی ہے. یہ سب حقائق ہیں جن کو آج تک سوشلسٹ لولی لنگڑی جسٹفکیشنز سے جسٹیفائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دنیا میں انسان کے مسائل شروع دن سے ہیں. اس میں کوئی شک نہیں سوشلسٹ بھی ان مسائل کو ایڈرس بالکل درست طریقے سے کرتے ہیں. مگر ان مسائل کا حل سوشلسٹ جو پیش کرتے ہیں وہ بالکل بھی حقیقت پسندانہ نہیں. وہ ایسے کہ "کلاس لیس سوسائٹی” کی بات کرتے ہیں وہ ممکن اس وجہ سے نہیں ہے کیونکہ کسی بھی معاشرے کو ایک نظم و ضبط میں چلانا ضروری ہوتا ہے اور نظم و ضبط قائم کرنے کے لئے کسی نہ کسی کو اقتدار اور اختیار دینا لازمی ہوتا ہے. جب اقتدار اور اختیار دیا جاتا ہے وہی پر کلاس سسٹم جنم لیتی ہے اور سوشلیزم میں اقتدار میں آنے والے کوئی فرشتے عرش سے نہیں اترتے بلکہ یہی نفس رکھنے والا انسان ہی ہوگا اور وہی ہوا بھی ہے، سوشلسٹ روس میں، وہی ہوا  کمیونسٹ چائنہ میں، وہی ہوا کیوبا میں۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقت کو خواہشات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا. ہاں البتہ تھرڈ ورلڈ اور اور فرسٹ ورلڈ میں کچھ اقوام کی طرح اقتدار اور اختیار کا بے حد غلط استعمال اور حد سے ذیادہ سرمایے کی ہم بھی مخالفت کرتے ہیں لیکن ان کو محدود کیا جا سکتا ہے. جیسے شمالی یورپ اور شمالی امریکہ کے کچھ اقوام نے کیا ہے. لیکن یہ جو سوشلسٹ  ایک خواب دیکھ رہے ہیں اور اس کے رومانیت میں ہیں, وہ خواب ایسا خواب ہے جو اس دنیا اور معاشرے یا انسان کی روح سے دیکھا جانے والا خواب نہ ہو۔

ہم سمجھتے ہیں گلگت بلتستان میں سوشلیزم اور کمیونیزم تیسری چوتھی بحث ہو سکتی ہے لیکن ایسے حالات کے اندر ہم گلگت بلتستان کی وجود کو تسلیم کرانے اور اس قوم کو دنیا کے شانہ بشانہ ترقی کی راہ پر لانہ لازمی سمجھتے ہیں۔

اور میری گذارش ہوگی تمام گلگت بلتستان کے سوشلسٹوں سے کہ مہربانی فرما کر اپنی طرف سے ٹال مٹول کر قوم پرستی کو پیش نہ کریں پہلے سوشلسٹ رومانوی دنیا سے نکل کر دنیا کی حقیقت کو تسلیم کریں اور ایسے حالات میں قوم پرستی کو سمجھنے کی کوشش کریں ورنہ گلگت بلتستان کی قوم کو پچھلے ساتھ دہائیوں سے صوبہ بنانےکی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا گیا تھا اب جب گلگت بلتستان کے قوم پرست ان کو اصل  مسئلے کی طرف لے کر آئے ہیں جو کہ ہماری شناخت اور وجود کی ہے تو اب پھر ایک اور سوشلسٹ ٹرک کی بتی کے پیچھے  لگانے کے چکر میں ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button