کورونا کی جنگ کے جانباز سپاہیوں کو سلام
بارہ مئی کو عالمی یومِ نرسزکی مناسبت سے ایک کالم کیا لکھ دیا کہ فیس بک انبکس میں نرسوں نے مسائل کے انبار لگا دئیے۔ ساتھ ہی ڈاکٹروں کی جانب سے پروین شاکر کے اس مصرعے کی مانندگلے شکوے بھی ’اسی کوچے میں کئی اس کے شناسا بھی تو ہیں‘۔ ڈاکٹر گلسمبرصاحب نے تو سرِعام کومنٹ میں جھاڑ پلادی کہ مجھے کورونا وائرس کی وباء کی روک تھام میں ڈاکٹروں کی خدمات پر بھی خامہ فرسائی کرنی چاہیے تھی۔چونکہ کالم نرسز کے عالمی دن کی مناسبت سے تحریر کیا تھا تو نرسزکی خدمات کا تذکرہ ہی لازم تھا۔ مگرکالم میں میں نے عہدِ کورونا میں ڈاکٹروں سمیت طبی عملہ کی خدمات کو بھی میں نے وسیع القب سلام پیش کیا تھا۔
یاسین برکلتی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرگلسمبرخان کا شمار میرے ان محسنوں میں ہوتا ہے جنہوں نے انتہائی برُے وقت میں میرا ہاتھ تھام کر دنیاوی حادثات میں حوصلے سے جینے کا ہنر سکھایا ہے۔چنانچہ ان محسنوں کے ہر جائزمطالبے کے سامنے سرتسلیم خم ہونا میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ڈاکٹرصاحب کا اس قدر دست شفقت صرف مجھ پر ہی نہیں بلکہ ہراس بندے پر ہے جسے کسی نہ کسی حوالے سے پریشانی لاحق ہو۔چاہے وہ پریشانی طبی لحاظ سے ہو یا مالی ڈاکٹرصاحب خلوص دل اور خندہ پیشانی سے مدد کے لئے آگے بڑھتے ہیں۔
وہ ایک شاہانہ مزاج کے کھرے اور حقیقت پسندانسان ہیں۔ دوسرے ڈاکٹروں کی طرح بے شمار پیسہ ودولت کمانے کی کوئی حرص لالچ میں نہیں۔ بس رزق حلال عین عبادت پر اکتفا کرتے ہوئے فرصت کے لمحات سماجی کاموں میں گزارتے ہیں۔تبھی تو مادیت پرستی کے اس دور میں عرب ممالک میں پرُتعاش ملازمت چھوڑ کر گلگت میں آکر اپنی دنیا بسائی۔یہاں آکرمختصر عرصے میں انہوں نے ایک معروف ماہرِامراضِ اطفال کے طورپر خود کومنوایا۔ کافی عرصے تک وہ آغاخان میڈیکل سنٹرگلگت سے وابسطہ رہے مگر اب ان کی خدمات محکمہ صحت گلگت بلتستان کے سپرد کی گئی ہیں۔
ڈاکٹرگلسمبروہ پہلے ڈاکٹر تھے جنہوں نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور لاک ڈاؤن کے سبب اسپتالوں اور طبی مراکز تک رسائی نہ ملنے والے مریضوں کی مدد کے لئے موبائل، فیس بک اور واٹس ایپ پر ٹیلی میڈیکیشن سروس شروع کردی۔ساتھ ساتھ اس وائرس کی علامات، خطرات اور بچاؤ سے متعلق مقامی زبان میں لیکچرز کے ذریعے عوام الناس میں شعورواگاہی پیدا کرنے میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
میری زندگی کے نشیب وفراز میں جن ڈاکٹروں سے واسطہ پڑا ان میں ڈاکٹرگلسمبرخان، آغاخان میڈیکل سنٹرگلگت کے مایہ ناز سرجن ڈاکٹررحمان شاہ،معروف ارتھوپیڈک اینڈ اسپائن سرجن ڈاکٹر کلیم اللہ،معروف ارتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر شیرباز خان،مشہورومعروف ریڈیالوجسٹ ڈاکٹرموسیٰ کریم،معروف ماہرامراضِ چشم ڈاکٹرقیوم علی خان،نوجوان ڈاکٹرافضل سراج چوہدری اور آغاخان اسپتال کراچی کے ماہرامراضِ سرتان ڈاکٹرعاطف اور گائناکالوجسٹ ڈاکٹرعروج کاشف کا تجربہ منفرد اور متاثرکن تھا۔ ان ڈاکٹروں نے اپنے دروازے مجھ جیسے دنیا کے ستائے ہوئے لوگوں کے لئے ہمیشہ کھلے رکھ دئیے اورمریضوں کے ساتھ مثالی برتاؤ کے ذریعے اپنے پیشے کی لاج رکھی ہے۔ ورنہ آج کل اس ملک میں عطائی ڈاکٹروں کی طرح قصائی ڈاکٹروں کی بھی ایسی بہتات ہے جوپیسہ کمانے کے چکروں میں معمولی بیمارکوبھی مستقل مریض بناکر چھوڑ دیتے ہیں۔
ڈاکٹروں کا یہ رجحان اب گلگت بلتستان میں بھی تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ جہاں یہ پیٹ کے پجاری نیم حکیم خطرہ ِ جان کی مانندکلینکس کھول کر حالات کے ہاتھوں مجبور مریضوں کے گردن پر چھرا گھونپنے میں مگن رہتے ہیں۔ یہ محض بہتان تراشی نہیں بلکہ ذاتی مشاہدہ بھی ہے۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران خاندان کے افرادکو لاحق بیماریوں کے علاج ومعالجے کے سلسلے میں دردر کی ٹھوکروں سے ڈاکٹروں، نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف کے ساتھ ایسے ایسے تجربات سے گزارے جوہ الفاظ میں بیاننہیں کئے جاسکتے۔ ایک انتہائی سنیئرڈاکٹر کے پاس پیٹھ میں تکلیف لے کرگیا تونشے کی دوائی دیکر سات ماہ تک ڈپریشن میں مبتلا رکھا۔ بڑی مشکل سے اس دوائی سے جان چھڑاکر ایک اور سنیئرڈاکٹرکے پاس گیا تو انہوں نے اسے الرجی کا مرض قراردیکرمیڈیسن کمپنی کی خوشنودی کے لئے بھربھرکے دوائیاں لکھ ڈالیں۔جس کے نتیجے میں پیٹھ کی تکلیف کے ساتھ ساتھ معدے کا بھی ستیاناس ہوگیا۔
یوں معدے کے علاج کی غرض سے دوچار ڈاکٹروں کے پاس گیا مگر کسی ایک کا بھی تُکے میں لکھا گیا نسخہکاریگرثابت نہ ہوا۔ ایک دوست نے معدے کے علاج کے حوالے سے ایک نوجوان ڈاکٹرکی بڑی تعریف کی تو بلاتاخیرکلینک میں حاضری دی۔ اندر داخل ہوتے ہی تمام ڈاکٹروں کے نسخے ٹیبل پر چھوڑ دئیے۔ مگرڈاکٹرصاحب کو کوئی پرواہ نہ ہوئی۔ وہ فون کال پر کسی کے ساتھ گاڑی کے لین دین میں مصروف تھے۔فون سے فراغت پر تھوڑی دیرڈاکٹروں کے نسخے ادھر ادھر کردیئے اور ایک پرچی پر لکھ کر دیا کہ آپ فوری طورپر پتے کا اپریشن کروائیں۔ حیرت سے استفسار کیا سرمجھے پتے میں نہیں معدے میں تکلیف ہے۔ مختصر جواب ملا نہیں جی آپ کے پتے کا مسئلہ ہے۔ اگلی صبح نہار منہ آغاخان میڈیکل سنٹر پہنچ گیا۔ ڈاکٹرنے دوبارہ الٹراساونڈ کرکے بتایا کہ آپ کے پتے میں پتھری معمولی نوعیت کی ہے۔ اپریشن کی کوئی ضرورت نہیں۔
کہنے کا مقصد یہ کہ ڈاکٹری ایک پیغمبرانہ پیشہ ہے۔ یہ انسانیت کی خدمت کا وہ مظہرہے جس میں ربِ کائنات کی خوشنودی ہے۔ یہ ایک ا نتہائی نازک اورحساس شعبہ ہے جس میں انسانی زندگی کا براہِ راست سوال ہے۔ چنانچ احساس ذمہ داری اور پوری دیانت داری سے انسانیت کی خدمت کرنا ڈاکٹروں کا عین فریضہ بنتا ہے۔مگر ہمارے یہاں بعض ڈاکٹرز پیسہ کمانے کے چکروں میں خود کوہرفن مولا سمجھ کر ہرمرض کی دوا کے لئے اپنا نسخہ آزماتے ہیں۔ جس کا مریض کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اس سے ان کو کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ بہت کم ایسے ڈاکٹرز ہونگے جو ڈاکٹر گلسمبرخان یاڈاکٹررحمان شاہ کی طرح اپنے متعلقہ شعبے سے ہٹ کے مریضوں کو ہاتھ لگانے سے معذرت کر تے ہوں۔ ایسی صورتحال میں ان ڈاکٹروں کی عوام کے لئے کیا خدمات ہوسکتی ہیں؟
لیکن بات ایسی بھی نہیں۔ مجموعی طورپر گلگت بلتستان کے ڈاکٹروں کی کارکردگی بالخصوص کورونا وائرس کی اس ایمرجنسی میں قومی خدمت کا جذبہ قابل فخرولائق تحسین رہا۔ ان لوگوں نے کورونا وائرس کے خلاف اس جنگ کے ابتدائی دنوں میں تمام ترحفاظتی سہولیات کی عدم فراہمی کے باوجود قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکراس خطرناک وائرس کا انتہائی دلیری اور شجاعت مندی سے مقابلہ کیا جس نے چین، امریکہ، ایران اور اٹلی جیسے کئی ممالک کی نا ک میں دم کررکھا ہے۔ چنانچہ کورونا وائرس کے خلاف محاذ جنگ کے ان جانباز سپاہیوں کو ایک بارپھرسلام چاہے وہ ڈاکٹرز ہوں یا نرسز یا کوئی اور میڈیکل کا عملہ۔