قبل از وقت اختیارات منجمد: کیا یہ بھی جمہوریت ہے؟
تحریر: محبوب حسین
جمہوریت کی ایک معروف تعریف کے تحت اسے عوام پر عوام کے ذریعے عوام کی حکومت قرار دیا گیا ہے۔ اس تعریف میں لفظ عوام کی تکرار یہ ظاہر کرتی ہے کہ جمہوری طرز حکومت کا اصل مقصد کاروبار مملکت میں عوام کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کو یقینی بنانا ہے جمہوریت میں عوام، یا ان کے نمائندے ہی ملک کے حکمران ہوتے ہیں اور ریاستی امور ان کی خواہشات کے مطابق طے کیے جاتے ہیں۔ کوئی ایسی حکومت جو عوام کی خواہشات کی نمائندگی نہ کرتی ہو جمہوری حکومت کہلانے کی حقدار نہیں ہوسکتی ہے۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے معاملات میں عوام کی شمولیت کو کیسے یقینی بنائی جاسکتی ہے؟ ظاہر ہے کسی بھی ملک کے عوام کی خواہشات اور امنگوں کے تعین کے لیے آئین میں طے شدہ طریق کار کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ چنانچہ جمہوری ریاست کا آئین دراصل عوام کی اجتماعی خواہشات اور امنگوں کی عکاسی کرتا ہے اور جب ایسی کسی ریاست میں مقننہ کے مقتدر ہونے کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اقتدار کا اصل سرچشمہ عوام ہی ہیں ۔ جمہوریت میں حکومتیں صرف اس وقت تک اقتدار ہی میں ری سکتی ہیں جب تک انہیں عوام کا اعتماد صاصل ہو۔ عوام کے سامنے حکومت کی جواب دہی کا تصور جمہوریت کا بنیادی اصول ہے۔ کوئی حکومت جیسے عوام نے منتخب نہ کیا ہو ان کے حقوق کی نگہداشت کی اہل قرار نہیں دی جاسکتی ہے۔
گلگت بلتستان میں اس وقت پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت ہے جو جمہوری طریقے سے عوام نے اپنے نمائندوں کو باقائدہ الیکشن اور ووٹ کے زریعے پانچ سال کے مدت کے لیے انتخاب کیا ہے۔ اور انکی مدت 25 جون 2020 کو مکمل ہونے والی ہے، چیف الیکشن کمشنر آف گلگت بلتستان نے ارڈر 2017 کے تحت موجودہ گلگت بلتستان حکومت کے اختیارات منجمد کیے ہیں ان میں، گلگت بلتستان میں تمام بھرتیوں پر مکمل پابندی عائد کردی گئ ہے، تمام ترقیاتی سکیموں پر عملدرآمد اور ٹینڈر اگلی حکومت کے انتخاب روکنے کا حکم البتہ پہلے سے جاری ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری رہے گا۔ تمام سرکاری ملازمین کی پوسٹگ کرنے سے پہلے چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان کو آگاہ کرنا لازمی قرار اور اگلی ایلکشن کے انعقاد تک سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کو نئی پوسٹوں کے لیے اقدامات سے روک دیا۔
قبل از کسی بھی منتخب جمہوری حکومت کوبغیر کسی جواز کے انکے اختیارات منجمد کروانا پاکستان کے کسی بھی آئین میں لکھا ہوا نہیں ہے ،دراصل ہونا تو یہی چاہے کہ وفاقی حکومت پاکستان تحریک انصاف، گلگت بلتستان میں موجودی حفیظ سرکار کی حکومت مدت مکمل ہونے دے اور اسکے بعد جمہوری طریقے سے تین مہینوں کے لیے نگران سیٹ اپ کا قیام عمل میں لائے اور انکی موجودگی میں صاف و شفاف الیکشن کا انعقاد کروا کے ایک جمہوریت پسند ملک ہونے کا ثبوت دیں۔ یہ کہیں بھی لکھا ہوا نہیں ہے کہ وفاق میں جو بھی سیاسی پارٹی برسر اقتدار میں ہو اور صوبوں میں بھی انکا حکومت ہو، عوام تو سیاسی پارٹیوں کی کارکردگی اور انکی کام کو دیکھتے یوئے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کا بہت رونا رویا گیا ہے اور عام تاثر یہ ہے کہ جمہوریت ہمارے عمومی مزاج کے خلاف ہے۔ کئی مصنفین نے جمہوریت کی ناکامی کا ذمہ دار ملک کی خود غرض ، بدعوان اور نااہل قیادت کو قرار دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا دائرہ کار صرف حکومت تک محدود نہیں ہے۔ جمہوریت کسی بھی ملک کے نظام کو بطریق احسن چلانے کے لیے مساوات ، احتساب ، انصاف ، آزادی اور جواب دہی جیسے بنیادی اصول وضع کرتی ہے۔ہر وہ طرز حکومت جو ان اصولوں پر مبنی ہے چاہے وہ پارلیمانی ہو یا صدارتی جمہوری کہلائے گا۔اگر ساست دانون کا کوئی گروپ ان زرین اصولوں کو پس پشت ڈال کر جمہوریت کی بیخ کنی کا فیصلہ کر لے تو عوام کو جمہوریت کے لیے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر جمہوریت کو ترقی کرنا دیکھ سکتے ہو اور جمہوریت کی نشونما کے لیے ضروری ہے کہ یہاں یہاں سیاسی اداروں کو کھل کر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ اور تمام ادروں کو چاہے کہ وہ اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں اور ملک معاشرے کو ترقی کی طرف گامزن رکھیں نہ کہ عوام کو مایوس کر کے انتشار اور بدامنی پھیلائے۔