بلاگز

والدین کی سنجیدگی، وقت کی ضرورت

تحریر: اکرم شاہ

 کورونا کے پھیلاو کے ساتھ ہی حکومتوں نے سب سے پہلے تعلیمی اداروں کو بندکردیا۔ انہیں حساس ترین قرار دیا گیا ، کیونکہ تعلیمی اداروں میں بچوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ہوتی ہے، اور انہیں بٹھایا بھی اس طرح جاتا ہے کہ وبائی امراض کے پھیلنے کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے۔

تعلیمی نظام کے اس طرح طویل مدت تک بند رہنے سے سب سے زیادہ متاثر بچے اور وہ نوجوان ہو رہے ہیں جن کے کالجز اور جامعات بند ہوچکے ہیں۔ پڑھائی نہ ہونے کے نقصان کو کم کرنے کے لئے جہاں تعلیمی ادارے  ان کی مختلف صورتوں میں مدد اور معاونت کر رہے ہیں، وہیں بچوں تک لاک ڈاون کے دوران پڑھنے اور سیکھنے کے عمل کو رواں رکھنے کے لئے درسی مواد Study packs کی فراہمی ،ان مواد کی رہنمائی کے لئے متعلقہ ٹیچروں کو سماجی دوری کا خیال رکھتے ہوئے گھروں تک رسائی ۔ان کے ساتھ مسلسل رابطہ یہ مختلف سرگرمیاں AKESP اور دیگر تعلیمی اداروں کی طرف سے جاری ہیں ۔

بچوں کے تدریسی مسائل کے لئے جہاں والدین فکر مند ہیں ۔ان سے زیادہ اساتذہ بچوں کی پڑھائی کے حوالے سے پریشان اور فکرمند ہیں ۔جہاں جس استاد سے بات چیت ہوتی رہتی ہے وہ بہت زیادہ اپنے طالب علموں کے لئے فکرمند ہیں ۔اس لئے کہ گھروں پر  بچے اس طرح پڑھائی کے لئے سنجیدہ اور دلچسپی کا اظہار نہیں کرتے جتنا وہ اسکول سسٹم کے اندر موجود رہ کے کرتے ہیں۔

گھروں پر والدین کے لاڈ پیار اور دوسرے عوامل ان کے سیکھنے کے عمل میں حائل رکاوٹیں ہیں۔جن والدین نے ان دنوں میں اپنے بچوں کی تعلیمی لحاظ سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہوا ہے انہوں نے بڑی حد تک اس نقصان کو کم کرنے کی کوشش کی ہے اور جن والدین نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں  کیا صرف فکر مند ہی  رہے ان کے بچوں کو کافی مشکلات ہونگی ۔کیونکہ بچے کی تربیت کے لئے والدین ہی سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔اساتزہ کی طرف سے بچوں کی ہر ممکن مدد جاری رہے گی ۔کیونکہ ان کے بچے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔اساتذہ کے ساتھ والدین کی مدد اور رہنمائی انتہائی لازمی ہے ۔اگر بچوں کے تاثرات دیکھے جائے تو بہت مختلف ہیں ۔بچے چاہتے ہیں کہ ان کے اسکول دوبارہ کھل جائے جہاں ان کی روزمرہ اسکول کے ماحول میں رہ کر ہی تعلیم حاصل کرنا  ممکن ہے۔اساتذہ کے بھی خیالات یہی ہیں اور ہونگے کہ تعلیمی ادارے کھل جائے اور وہ اپنے ڈیوٹیوں پر واپس جائے ۔اس وبا کی وجہ سے تعلیم کے اندر جو تسلسل تھا وہ بری طرح متاثر ہوا ہے ۔بہت سارے والدین بچوں کے لحاظ سے سنجیدہ ہیں ۔لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم جتنا بھی کوشش کرے وہ مدد اور رہنمائی جو  اساتذہ بچوں کو فرہم کرتے ہیں اس حساب سے نہیں دے سکتے ۔بچے اپنے اساتذہ کو بہت یاد کرتے ہیں ۔بچوں اور اساتذہ کے درمیان  روحانی رشتہ ہے اور یہ بہت مظبوط رشتہ ہوتا ہے ۔آج بچے اساتذہ اور اسکول سے دور اپنے گھروں میں مقیم ہیں لیکن ان کے دل میں ،خیالات میں وہی بچے آتے رہتے ہیں جنہیں ان کی مدد اور رہنمائی کی ضرورت ہے ۔بچے ہی اس قوم کے معمار ہیں ۔آج کے بچے کل کے ڈاکٹر،انجینئر،پائلٹ،آفیسرز،وکیل ،اساتذہ اور وہ تمام  شعبے ہیں وہ ان درسگاہوں اور اساتذہ کے زیر سایہ تعلیم سے آراستہ ہو کر پہنچ جاتے ہیں۔وہ اپنے لئے اور جس معاشرے میں رہتے ہیں اسکے کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں ۔اج یہ خیالات قلم بند کرنے کا مقصد ہی یہی ہے  کہ آج بچوں کے لئے جن کی بہت زیادہ مدد اور رہنمائی کی ضرورت ہے وہ والدین ہی ہیں  ۔والدین کو بچوں کی تعلیمی اور تربیت کے حوالے سے غیر معمولی سنجیدگی کی ضرورت ہے ۔یہ وقت اسکا تضاضا کرتا ہے کہ والدیں بچوں کو حقیقی معنوں میں مدد کریں۔ جب تک اسکول اور مدارس کھل نہیں جاتے بچوں کو سیکھنے کے عمل سے دور ہونے سے بچائے تاکہ بچے کو تعلیمی لحاظ سے جو نقصان پہنچا ہے اسک ازالہ ہو اور مزید نقصان سے بچے۔اختتام اس دعا کے ساتھ کہ اللہ اس وبا کو مزید پھیلنے سے روکے اور دوبارہ وہ نظام جس سے ہمارے بچے تعلیمی لحاظ سے رواں دواں تھے جاری رکھے ۔اور بچوں کو اپنے درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنا نصیب ہو آمین۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button