کالمز

کرنل کی بیوی یا سماجی تربیت کا نفسیاتی پہلو

تحریر: فیض اللہ فراق

اب تو سوچنے لگا ہوں کہ سابق وزیر اعظم ایک ایسی قوم کیلئے موٹر وے بنا گئے جو اس کی اہمیت سے ہی بے خبر ہے۔ جس قوم کی رگوں میں شارٹ کٹ، خودساختہ خاندانی دبدبہ اور عہدے کا گھمنڈ تیزی سے سرایت کر گیا ہو ایسی قوم کیلئے ڈویلپمنٹ کا روڈ میپ محض وقت اور وسائل ضائع کرنے کا سبب تو ہو سکتا ہے لیکن سماجی تشکیل میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ گزشتہ دنوں ہزارہ موٹر وے پر پولیس کے ساتھ غم و غصے کی انتہا کرنے والی تربیت سے عاری ایک خاتون نے طوفان بدتمیزی کا نیا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے ہمارے سماج میں رائج بدترین رویے کی ترجمانی کی ہے۔ تاریخ شاید ہے کہ قوموں کی تشکیل میں تربیت کا بنیادی کردار ہے اور یہ تربیت ہر شخص اپنے گھر سے لیکر زندگی کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں پیش آنے والے افسوس ناک واقعے نے اس نوعیت کے کئی اور واقعات کے اوپر سے پردہ ہٹایا ہے۔۔۔ اس ملک میں بیوررکریٹ کے بیٹے کی کہانی سے لیکر وزیر اور ایم این اے کی اولادوں کی عیاشیاں اور وکیل اور ڈاکٹروں کی بدمعاشیوں سے لیکر انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے ججز کے وارثوں کے اللے تللے دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ ملک تو مخصوص لوگوں کیلئے بنایا گیا ہے جہاں طاقت کا سر چشمہ غریب عوام نہیں بلکہ عہدہ ہے۔ طاقت کے حصول کیلئے اس ملک کے درو دیوار کو خون میں نہلانے سے نہیں

کترانے والے کیا جانے غریب کا درد، ملک سے وفا اور انسانوں سے پیار، یہ لوگ بس طاقت کے چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ کرنل کی بیوی اس سماج کے ان تمام کرداروں کی ترجمانی کرتی ہے جو اپنے مناصب، عہدے اور ٹیگ کا غلط استعمال کرتے ہوئے شرماتے نہیں بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم نے اس ملک میں ایم این اے کے بیٹوں کا غریب ہاری کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے دیکھا ہے اور انصاف نہ ملنے کے ہم شاید ہیں، ہم نے کراچی کے سڑکوں پر وڈیرے کے بیٹے کا شاہ زیب کی خوبرو جوانی کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا اور وڈیرے کی اولاد فتح کا نشان بناتے ہوئے عدالت کا طواف کرتی نظر آئی، ہم نے ججز کے بیٹوں کو قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے دیکھا، ہم نے کرنل کی بیوی کو ہزارہ موٹر وے پر قانون روندھتے ہوئے دیکھا، ہم نے بیورو کریٹ کے بیٹوں کو مظلوموں پر گولیاں برساتے دیکھا، اگر کچھ نہیں دیکھا تو ہاری کی بیٹی پر ہونے والے ظلم پر انصاف، شاہ زیب کے قاتلوں کی سزا اور قانون کی حکمرانی۔ طاقت کے نشے میں دھت معاشرے کے چند کردار اس ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں، ان کیلئے قانون کی کتاب ایک تماشے سے کم نہیں، یہ اشرافیہ مختلف شکلوں میں کبھی آپس میں گھتم گھتا بھی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے جیسے ہم کم فہم لوگ جمہوریت کی جنگ اور عدلیہ کا وقار سمجھتے ہیں مگر اصل میں چار کرداروں کے درمیان طاقت کی جنگ ہوتی ہے جبکہ ہمارے سماجی شعور میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ اس ملک میں ہر جائز کام نے بھی طاقت یا تعلق سے نکلنا ہے اسلئے معاشرے کا ہر فرد طاقت کے حصول میں پیش پیش ہے، یہی وجہ ہے مساوات، انصاف اور برابری مظلومیت کا شکار ہیں۔ ہر منصب اینے اختیارات سے متجاوز ہے، ہر عہدہ طے شدہ قوانین سے مبرا ہے اور ہر فرد کے عمل میں انتقام کے جذبے ہوتے ہیں ذمہ داری اور قانون کے نہیں، ایسے عالم میں معاشرتی برائیوں کو ایک کرنل کی بیوی سے منسلک کر کے خود کو بری الزمہ سمجھنا خام خیالی سے کم نہیں۔ ہمیں قدم قدم پر اس نوعیت کی کرنل کی بیویاں ملیں گی۔۔۔ کہیں بیوروکریٹ، کہیں سیاستدان کہیں جج کہیں صحافی اور کہیں اور ایسے کردار بھی جو عہدے دار تو نہیں ہوتے مگر انہیں علم ہے کہ اس ملک میں ٹیگ کے بغیر کام نہیں نکلتا پھر وہ جعلی کرنل، جعلی جج، جعلی صحافی اور جعلی بیورو کریٹ بن جاتے ہیں اور سماجی تشکیل کی رگوں میں اپنے ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ کرنل کی بیوی کے خلاف تو پوری طرح کاروائی ہونی چاہئے لیکن ایک خاتون کی اخلاقی پستی کا ذمہ دار ادارے نہیں ہوتے۔۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا اس معاملے پر نوٹس لینا اہم پیش رفت ہے۔ اس ملک میں کوئی جنرل، کرنل، جج، صحافی، بیورو کریٹ کو قانون سے اونچا نہیں ہونا چاہئے اور یقینا سماجی شعور میں برابری کا تصور لانے تک بہت وقت لگے گا مگر ہمیں اس سمت سفر تو شروع کرنا چاہیے اور ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے جس طرح ہم سب نے کرنل کی بیوی کے رویے کے خلاف آواز اٹھا کر ایک مثال قائم کی ہے مگر اپنی انفرادی زندگیوں میں موجود اس نوعیت کے رویے کے خلاف جہاد کا اعلان کب کریں گے؟

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button