ہم کب تک ہیرے کھوتے رہیں گے
تحریر: ڈاکٹر اسد رحمٰن
سا ت اگست انیس سو ترنسٹھ کو امریکی صدر جان ایف کینڈی اور ان کی بیگم جیکو لین کینڈی کے ہا ں ان کے بیٹے پیٹرک کینیڈی کی ولا دت ہوئی ۔ پیٹرک حمل کے مقررہ وقت سے چا ر ہفتے پہلے یعنی چھتیس ہفتے کے بعد پیدا ہو ا تھا ۔ میڈیکل کی زبان میں اس پری میچور ڈلیوری یا قبل از وقت پیدا ئش کہا جا تا ہے ۔ جو بھی نو مو لو د سینتیس ہفتے کی حمل سے پہلے پیداہوتاہےاسے پریی میچورکہاجاتاہے۔پیٹرک کا وزن دوکلوگرام تھا۔قبل از وقت پیدا ہونے کی وجہ سے پیٹرک کے پھپھڑو ں نےکام کرنا چھوڑدیا۔ڈاکٹروں نے چالیس گھنٹے تک پیٹرک کو بچانے کی کو شش کی مگر اس معصوم کو نہ بچاسکے۔ کیونکہ یہ بچہ امریکہ کے ایک مو جودہ صدر کا بیٹا تھا ۔ میڈیکل فیلڈ میں کھلبلی مچ گئی ۔ اسی سال اس سے دو مہینے قبل کینیڈا کے ا یک ڈاکٹر نے ایک چونتیس ہفتے میں پیدا ہو نے والے بچے کو پہلی دفعہ وینٹیلیٹر پرڈالنے کے بعد بچانے میں کا میاب ہوا تھا ۔ یہ بھی امر یکی ڈاکٹروں کے لئے انا کا مسلہ تھا ۔ اس کے بعد کیا ہوا اس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے ۔ تر قی یا فتہ اورقو مو ں کا رد عمل ایسے واقعات پہ کیسے ہو تا ہے ۔ امر یکی اسے خدا کی رضا سمجھ کر بھول نہیں گئے ۔ نہ ہی اس بچے کو شہیدقرار دیا ۔ اور نہ اپنے محبوب صدر کی تعز یت میں لا ئنیں لگا دی ۔ انہوں نے قبل از وقت پیدا ہونے والے بچو ں کی علاج پہ ریسرچ کو مز ید تیز کر دیا ۔ اورکچھ ہی عرصے میں جدیدوینٹیلیٹر بنا دیا ۔ سر فیکٹیننٹ نام کی ایسی دوائی تیار کی جو نو مو لود بچے کے پھپھڑوں کو بالکل نارمل کر دیتا ہے ۔ آج کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ چھتیس ہفتے کا بچہ پھپھڑے کام نہ کرنے کی وجہ سے زندگی سے ہا تھ دھو بیٹھے گا ۔آج با ئیسس سے چو بیس ہفتے کی حمل میں پیدا ہو نے والے بچےجن کا وزن ادھا کلو کےقر یب ہو ان کی بھی ا کثریت بچ جاتی ہے
کل ہمارے ایک بہت ہی ہر دل عز یز اور اہم شخصیت محترم عا دل غیاث صا حب ہم سے جدا ہوے ۔ ا طلا عات کے مطا بق ان کو دل کی تکلیف ہو ئی تو ان کو گا ہکو چ ہیڈ کوا ٹرز ہسپتال پہنچا یا گیا ۔ مگر ہمارے یہ عز یز بھا ئی جا نبر نہ ہو سکے ۔ ہر انکھ اشکبار ہے ۔ ہر دل سو گوار ہے ۔ سوشل میڈیا پہ تعز یت کے بے شمار پیغا مات نظر آ رہے ہیں ۔ لیکن کیا کسی نے سو چنے کی زحمت کی کہ گا ہکو چ ہسپتال میں ہارٹ اٹیک کی ایمر جنسی کو ڈیل کر نے کی کتنی سہو لیا ت مو جو د ہیں ۔ کیا وہ ایمر جنسی دو ا ئیا ں جو اس حالت میں جان بچا تی ہیں ۔ کیا سیسی یو کا ایک بیڈ بھی مو جود ہے ۔ کیا امراض قلب کا ماہر ڈاکٹر اور سٹا ف مو جود ہے ۔ اگر ان سب سو الو ں کا جواب نا میں ہےتو کیا ارباب اختیار اس کو حل کر نے کی کو شش کر ینگے ؟۔ یا پھر صرف ہم اپنے قیمتی جا نو ں کا ما تم ہی کر ینگے؟ ۔ ہر وا قعے کو اللّہ کی رضا سمجھ کر اپنے اپ کو تسلیاں دینگے اور چند دن مر حوم کی خاندان سے تعز یت کے لئے لا ئن لگا دینگے اور پھر سب کچھ بھول کر اگلے واقعے کا انتظار کر ینگے ۔ آ ج گلگت بلتستان کے ڈاکٹروں نے طب کے ہر شعبے میں مہا رت حا صل کی ہے ۔ مگر علاقے میں سہو لتو ں کی فقدان کی وجہ سے خدمات سر انجام نہیں دے سکتے ۔ کیا ہم ان وا قعات سے کچھ سبق سیکھ لینگے جو امر یکہ وا لو ں نے ستر سال پہلے سیکھا تھا