جبری قبضوں کے خلاف عوامی مزاحمت کو جوڑنا ناگزیر ہو چکا، عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان
اسلام آباد ( پریس ریلیز) عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کا ایک اہم اور ہنگامی اجلاس سب ڈویژن گوجال ضلع ہنزہ میں منعقد ہوا جس میں خطے بھر میں عوامی ملکیتی اراضی پر زبردستی قبضوں بالخصوص وادی چپورسن، گبمہ سکردو، گہوری تھنگ، کھنبری، زیریں دیامر، چھومک تھنگ، پھنڈر، اشکومن، سلپی، لنگر، جگلوٹ سکردو روڑ کے مضافات، پھسو، شمشال اور گلگت شہر کے مضافاتی علاقوں میں مقامی حکومت، ضلعی انتظامیہ، ایف ڈبلیو اور مقتدر اداروں کی طرف سے جبری قبضوں کی کوششوں کے مختلف واقعات پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ پارٹی نے اس عمل کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں متعلقہ اداروں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر اس غیر قانونی اقدام کو نہیں روکا گیا تو کسی بھی طرح کے ناخوشگوار نتائج کی ذمہ داری انتظامیہ پر ہوگی۔
پارٹی رہنماوں اکرام جمال، اختر امین، آخون بائے، ظہور الہی، آصف سخی، جلال الدین، احتشام خان، واجد بیگ، ڈاکٹر سعید تاجک ، ذاکر حسین، عابد طا شی، نوید احمد، رحیم خان، طارق عزیز و دیگر نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ پورا خطہ عالمی وباء کی وجہ سے معاشی و سماجی بحران سے دوچار ہے، مہذب دنیا اس وقت انسانوں کی جان بچانے، انہیں بہتر صحت، تعلیم اور روزگار فراہم کرنے کے لئے نئے متبادل ذرائع تلاش کرنے کے لئے وسائل کو یکجا کرنے پر غور کر رہی ہے تو دوسری جانب گلگت بلتستان میں عوامی ملکیتی زمینوں اور وسائل پر جبری قبضوں کی ایک نئی داستان رقم کی جا رہی ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال ایف ڈبلیو اور کی طرف سے چپورسن گوجال میں 30 کلومیٹر کی عوامی اراضی پر عوامی مشاورت کے بغیر کان کنی کا کام شروع کرنے کی ہے جس کو عوام نے بروقت رکوا دیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ زمینوں پر قبضے کی خطے بھر میں کوئی ایک کہانی نہیں۔ کوہستان (خیبر پختونخواہ) کی طرف سے ضلع دیامر کو مسلسل کاٹا اور قبضہ کیا جا رہا ہے۔ دیامر کے باسیوں کے مطابق وہ ہر 3 سے 5 سالوں میں کوہستان پولیس کے گشت کے حدود کو مسلسل دیامر کی طرف بڑھتا محسوس کرتے ہیں۔ضلع دیامر سے ہی گزشتہ سال 1100 کنال زمین محکمہ واپڈا کے نام پر اٹھا لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سکردو ائیرپورٹ کے دونوں جانب گمبہ اور ہوتوکی زمینوں کو ائیرفورس کے قبضے میں دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ چھومک تھنگ میں زمین کا تنازعہ گزشتہ سال زور پکڑ گیا تھا تاحال جاری و ساری ہے۔ گوری تھنگ کی زمین ضلعی انتظامیہ قبضہ کرنے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہے۔ بلتستان کے سیاسی کارکنوں کے مطابق گلگت سکردو روڑ کے متاثرین کے معاوضہ جات کا مسلہ تاحال جاری ہے مگر اطلاع یہ بھی ہے کہ ایف ڈبلیو او اس روڑ کے مختلف مقامات پر سیر گاہیں تعمیر کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے، جس پر مزید زمینوں کے اثرانداز ہونے کا خدشہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں گزشتہ سال گلگت شہر کے مرکز میں عوامی ملکیت پر مقتدر اداروں کی طرف سے قبضے کی کوششوں کو عوام نے احتجاج کے ذریعے ناکام بنا دیا تھا۔گلگت شہر اور اس کے مضافات میں بڑے پیمانے پر زمینوں پر قبضے کئے جارہے ہیں جس پر ضلع گلگت کے پشتنی باشندگان شدید تحفظات کا شکار ہیں۔ اس سے قبل سی پیک کے تناظر میں ممکنہ تجارتی سرگرمی کا واحد ذریعہ سوست ڈرائی پورٹ کو تمام شئیر ہولڈرز کو اعتماد میں لئے بغیر این ایل سی کے حوالے کیا گیا۔ ضلع غذر کے اہم سیاحتی مقامات پر انتظامیہ کی طرف سے قبضوں اور قبضوں کی کوششوں کا سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے عروج پر ہے۔ پھنڈر پر ڈیم کی تعمیر کے نام پر زمین قبضہ کرنے کی کوشش جاری ہے جس میں عوام کو کسی مشاورت کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ شندور پر خیبر پختونخواہ کی طرف سے جاری تنازعے کو گزشتہ سال یک طرفہ فیصلے سے زبردستی قبضہ کیا گیا اور پختونخواہ حکومت کی طرف سے ابھی لنگر اور پھنڈر تک ملکیت کا دعوی کیا جا رہا ہے۔ رواں سال ہی میں ہندرپ میں جو ناخوشگوار واقہ سامنے آیا یہ زمینوں پر پختونخواہ کی طرف سے قبضوں کی سلسلے کی ہی ایک کڑی کے طورپر دیکھا جا سکتا ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی ہنزہ کے نوجوان رہنماء سخی آصف نے ضلع ہنزہ میں زمینوں کے قبضوں کی صورتحال پر تفصیلی طور پر آگاہ کیا۔ حالیہ چپورسن کے واقعے پر انہوں نے کہا کہ شیری سبز تا یشکوک 30 کلو میٹر لیز ایک ایسے علاقے میں دیا گیا ہے جو کنزرویشن قوانین کے تحت ممنوعہ علاقہ ہے جہاں کسی بھی قسم کی کمرشل سرگرمیوں کی ممانعت ہے۔ یہ خود پاکستان کے تحفظِ ماحولیات کے قوانین اور اقوام متحدہ کے مستقل کمیشن برائے تحفظِ حقوقِ پُشتنی باشندگان کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے تمام علاقے جہاں پر زمینوں پر قبضہ جمانا ہو، انتظامیہ کی طرف سے وہاں پر ڈمی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں اور کچھ مقامی گروہ مختلف علاقوں میں لیز کے حصول کے لئے غیر مقامی کمپنیوں کی معاونت کر رہے ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایف ڈبلیو او کی ٹیم رات گئے مقامی کورونا والینٹئرز کی چھٹی کے بعد کے وقت میں گوجال داخل ہوئے اور چپورسن پہنچ گئے جہاں پر عوام نے انہیں اس بنیاد پر روکا کہ عوامی مشاورت کے بغیر کیسے کوئی کمپنی کان کنی کا کام شروع کر سکتی ہے۔ جب چپورسن کے عوام نے اس سلسلے میں ہم سے شواہد کے ساتھ رابطہ کیا تو ہم نے اس خبر کو میڈیا میں اٹھایا جس کے بعد اس معاملے پر تمام گلگت بلتستان کی عوام بالخصوص مزاحمتی حلقوں سے عوام چپورسن سے قابل ستائش یکجہتی دیکھنے میں آئی ہے۔
پارٹی اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازعہ خطہ ہے جسے جنوری 2019 کو پاکستان کے سپریم کورٹ کے بھی واضح فیصلے میں تسلیم کیا ہے مگر یہ انتہائی افسوس ناک اور جابرانہ عمل ہے کہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ خطے میں زمینوں کے قبضوں کے ذریعے نہ صرف خطے کے وسائل کو بے دریغ لوٹا جا رہا ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت خطے کی ڈیموگرافی بھی تبدیل کی جا رہی ہے۔ خطے بھر میں عوامی مشاورت ایک ڈھکوسلہ ہے، ڈمی کمیٹیاں بنا کر اور انہیں ڈرا دھمکا کر کئے جانے والے معاہدوں کو عوامی رضامندی کا نام دیا جاتا ہے۔ کسی بھی طرح کی مشاورت میں اس خطے کے ماحولیاتی صورتحال کی ابتدائی تشخیص (ای آئی اے) اور اس خطے پر ہونے والے ماحولیاتی و معاشرتی اثرات کی مفصل تشخیص (ای ای ای آئی اے) بین الاقوامی طور پر طے شدہ لوازمات ہوتے ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان خطے کے بدلتے داخلی و خارجی سیاسی منظر نامے پر خطے بھر کی تمام ترقی پسند اور وطن دوست سیاسی تنظیموں کو ایک وسیع اتحاد کی دعوت دیتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ زمینوں کے قبضوں کے خلاف خطے بھر میں عوامی تحریکیں موجود ہیں مگر سب آئسولیشن میں ہونے کی بنا پر جلد ہی ناکام ہو جاتی ہیں۔ ہمیں خطے بھر میں موجود قبضہ مخالف عوامی تحریکوں کے مابین یکجہتی کی بنیاد پر جڑت پیدا کرنی ہوگی تاکہ ایک مربوط تحریک کا جنم ہو سکے۔ عوامی ورکرز پارٹی اس ضمن میں خطے بھر کی سیاسی قیادت کو اکٹھ کی دعوت دیتی ہے۔ علاوہ ازیں پارٹی اپنے نظریاتی اساس پر کھڑی ہے اور خطے کے ایک ایک انچ زمین کو خطے کے عوام کی ملکیت سمجھتی ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے اور یہاں ابھی تک غیر آباد زمین مشترکہ ملکیت اور وہ کسٹمری قوانیں کے تحت محفوظ ہے جسے چند افراد یا گروہ من مانی کے ذریعے کسی باہر کے لوگوں کو بیچ نہیں سکتے اور نہ لیز پہ دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ عالمی وباء بھی اسی موسمیاتی تبدیلیوں اور کیمیائی ہتھیار اور دواوں کی وجہ سے رونما ہوا ہے اسلئے ضروری ہے کہ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ کان کنی کی بجائے متبادل ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مزید تباہی سے اس خطے اور دنیا بھر کے ماحول کو بھی بچایا جا سکے. ہم رضاکارانہ عوامی مشاورت کے بغیر زمین کے حصول کو قبضہ اور حاصل کرنے والوں کو مافیا سمجھتے ہیں اور گلگت بلتستان میں قبضہ مافیا کے خلاف اور عوامی ملکیت کے حق میں جدوجہد جاری رکھیں گے۔ قبضہ گیروں کا جبر یقینا ایک وسیع عوامی مزاحمتی اتحاد ہی توڑا جا سکتا ہے اور یہ اتحاد اب ناگزیر ہو چکا ہے.