ہماری خدمات حاضر
امریکی ریاست مینی سوٹا میں سفید فام پولیس اہلکار نے سیاہ فام شہری کو زمین پر پٹخ دیا پھر اس کی گردن پرپاؤں رکھ کر اس کو قتل کردیا ڈاکٹر کی رپورٹ نے تصدیق کی کہ شہری کی موت دم گھٹنے کی وجہ سے واقع ہوئی۔پولیس اہلکار کے خلاف پرچہ کٹ گیا،ایف آئی آر درج ہوئی وہ معطل بھی ہوا گرفتار بھی ہوا مقدمہ بھی چلے گا مگر عوام کو یہ سب قبول نہیں عوام نے12ریاستوں میں بغاوت برپا کررکھی ہے یہ بغاوت کسی پولیس اہلکار کے خلاف نہیں،سسٹم کے خلاف ہے،ریاست کے خلاف ہے سفید فام آبادی کے خلاف ہے سفید فاموں کی حکومت کے خلاف ہے سفید فام صدر کے خلاف ہے یہاں تک کہ واشنگٹن ڈی سی کا وائٹ ہاؤس بھی باغیوں کی دست برد سے محفوظ نہیں ہم میں سے جو محب وطن لوگ آزمائش کی اس گھڑی میں امریکی عوام اور امریکی حکومت سے گہری ہمدردی رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہماری خدمات حاضر تھیں کاش امریکیوں نے ہم سے پوچھا ہوتا ہماری خدمات سے استفادہ کیاہوتا تو ان کو یہ دن دیکھنے کی نوبت نہ آتی مثلاًواقعہ رونما ہوتے ہی ہمارا ٹیلیفون کھڑکاتے توہم ان کو بتاتے کہ سی سی ٹی وی کیمرے کو شارٹ سرکٹ سے آگ لگادو،ثبوت ختم ہوجائے گا ایف آئی آر درج کرنے میں تامل کرو پیٹی بند بچ جائے گا،ڈاکٹر کو ڈرا دھمکا کررپورٹ لکھواؤ کہ مرنے والے کو راہ چلتے دل کا دورہ پڑا چنانچہ اس کی موت واقع ہوگئی.
بقول فیض احمد فیض
نہ مدعی نہ شہادت حساب پا ک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
لیکن کمبخت امریکیوں نے ہماری خدمات سے استفادہ نہیں کیا اور بُری طرح پھنس گئے اس لئے ہمارے دل کی حسرت دل میں رہ گئی”کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا“.
بات یہ نہیں کہ ہم ہرکام میں ترقی یافتہ ممالک مغربی ممالک خصوصاًامریکہ کے محتاج ہیں بات یہ ہے کہ ہم بھی ان کی مدد کرسکتے ہیں مگر ہمارے پاس جو ٹیکنالوجی ہے اس کی مارکٹینگ نہیں ہوئی ہمارے ہاں جو بہترین کیس سٹیڈیز پایے جاتے ہیں وہ دنیاکے کسی بڑے تربیتی ادارے میں پڑھائے نہیں جاتے.
مثال کے طورپر ہمارا ساہیوال ماڈل دنیا بھر کے تربیتی اداروں میں پڑھائے جانے کے قابل ہے کہ پولیس اگر معصوم بچوں کے سامنے ان کے بے گناہ والدین کو آناًفاناًگولی مارکر کھڑ کا دے تو پولیس کے قاتل اہلکاروں کو سزا سے بچانے کا بہترین ماڈل ہے۔اس ماڈل کے اہم پہلو ہیں پہلا پہلو یہ ہے کہ پولیس سچ بولتی ہے اور جان اللہ کو دینی ہے دوسرا پہلو یہ ہے کہ مرنے والے واپس آکر گواہی نہیں دے سکتے،تیسرا پہلو یہ ہے کہ وقوعہ کے وقت موٹر سے نکلنے والے معصوم بچوں کی عمریں 3سال5سال کے درمیان تھیں ان کی کوئی گواہی نہیں ہوتی چوتھا پہلو یہ ہے کہ سی سی ٹی وی کیمرہ میرا ہے،پولیس سٹیشن میرا ہے،ڈاکٹر بھی میرا دوست ہے تم میرا کیا بگاڑ سکتے ہو ان چار پہلووں پر جوبڑی چھتری ہے وہ میری اپنی عدلیہ ہے میری جیب میں پیسہ ہے جاؤ جو کرنا ہے کرلو.
کمبخت امریکیوں نے ہم سے رابطہ نہیں کیا. ساہیوال ماڈل میں ان کے مسائل کا پورا حل موجود تھا ویسے اگروہ لوگ ہم پر اعتبار کرتے اور ہم سے پوچھ لیتے تو ہمارے پاس پاکستان کی پولیس کا ایک اور ماڈل بھی تھا اس کا نام پولیس انکاونٹر ہے ہمارے خدمات سے استفادہ کرتے تو ہم ان کو آسانی اور سہولت کے ساتھ بتاتے کہ راہ چلتے سیاہ فام شہری کو پولیس کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے بھی ماراجاسکتا تھا مارے جانے کے بعد اس کو بدنام ترین ڈاکو،اغواکار یا دہشت گرد ثابت کیا جاسکتا تھا کیونکہ مرنے کے بعد کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں ہوتا کہ اپنی صفائی پیش کرے۔اگر کمبخت امریکی حکام ہماری خدمات سے استفادہ کرتے تو ہم ان کو ایک تیربہدف اور آزمودہ نسخہ بتاسکتے تھے نسخہ یہ ہے کہ سفید فام پولیس کی دن دیہاڑے دہشت گردی کے خلاف جولوگ احتجاج کررہے ہیں ان کو ملک دشمن یاوطن دشمن اور غدار قرار دیا جائے تاکہ کوئی شہری ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہارنہ کرسکے اگرچہ امریکیوں نے ہماری خدمات سے استفادہ نہیں کیا تاہم واشنگٹن ڈی سی میں واقع چرچ کے پادری نے ایسا کام کیا کہ جی خوش کردیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے لان میں اخبار نویسوں سے ملاقات کے بعد جب چرچ کا دروازہ کھول کر انجیل مقدس ہاتھ میں لیکر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کی تو پادری نے کہا”مسٹر پریذیڈنٹ!چرچ اکھاڑہ نہیں،انجیل ترپ کا پتہ نہیں اور خداکسی کا کھلونا نہیں“.
یعنی سیاسی شعبدہ بازی اپنے پاس رکھو فوٹو شوٹ کے لئے چرچ کو، دھوکا دہی کے لئے انجیل کو اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے خدا کو استعمال کرنے سے گریز کرو۔آخری خبریں آنے تک امریکہ کی12ریاستوں میں احتجاج کرنے والے بلوائیوں سے نمٹنے کے لئے فوج بلائی گئی ہے۔کاش کمبخت امریکی ساہیوال پولیس سے رابطہ کرتے توان کو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔