کالمز

استاد کا شجر ہ 

خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی فخر اعظم وزیر اور جمعیتہ العلمائے اسلام کے منور خان دونوں قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان کی تقلید کر تے ہوئے صوبائی و زیر کی تقریر کے دوران بولنے کی کوشش کی تو قائد ایوان پرویز خٹک نے اُٹھ کر دونوں کی کلاس لے لی اراکین اسمبلی کو چُپ کرانے کے لئے انہوں نے استاد کا طعنہ دیتے ہوئے سوال کیا تمہارا استاد کون ہے ؟ پریس گیلر ی میں سر گوشیاں شروع ہوئیں کہ استاد تو معلوم ہے ان کا استاد ایچی سن سکول کا پڑھا ہوا ہے وہ ہر کسی کو ٹوکنے اور ہر کسی کے خلاف بولنے کا چمپےئن ہے بقول شاعر

تلخی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی

دراصل قائد ایوان اسمبلی کے اندر سب کا رول ماڈل ہو تا ہے اس کا لب و لہجہ ، اس کی گفتگو اس کے بیانات ، اس کی تقاریر نمو نہ بن جا تی ہیں دوسرے اراکین اس کی تقلید کرتے ہیں برٹش پارلیمنٹ میں چر چل کے زمانے میں اپوزیشن لیڈر بد تمیز تھا وہ گند ی زبان استعمال کرتا تھا سرعام لوگوں کو گالیاں دیتا تھا ایک بار اُس نے چرچل کے خلاف نازیباالفاظ استعمال کئے حز ب اقتدار کے اراکین نے چرچل سے کہا اپوزیشن لیڈر کو اُسی کی زبان میں جواب دینا چاہیے چرچل نے کہا ’’ میرا خیال ہے میری تربیت بہتر انداز میں کی گئی ہے اس لئے میں اُس کی سطح تک نیچے اتر نے کا سو چ بھی نہیں سکتا ‘‘ اس کو پارلیمانی اداب کہتے ہیں جب اسمبلیوں کا وقار تھا اراکین اسمبلی کا معیار تھا اُس زمانے میں غیر شائستہ طرز گفتگو کے لئے ’’ غیر پارلیمانی ‘‘ کی ترکیب استعمال کی جاتی تھی آج کل اسمبلی کے فلور پر شائستہ گفتگو کی جائے تو سامعین کوحیرت ہوتی ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ پتہ نہیں ووٹر وں کا معیار گر گیا ، جمہوریت کا معیار گر گیا اگر نہیں تو شاید سیاست کا معیار گر گیا یہ بھی نہیں تو لا محالہ پارلیمان کا معیار گر گیا ہوگا سیاستدان اپنی زبان پر اس لئے بھی قابو رکھتے ہیں کہ ان کا مخالف بھی منہ میں زبان رکھتا ہے مرزا غالب نے بڑے پتے کی اک بات کہی ہے

ہم نے مجنون پہ لڑ کپن میں اسد
سنگ اُٹھا یا تھا کہ سر یاد آیا

سیاست اور اخبارات کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے سیاستدان موچی دروازہ ، چوک یاد گا یا نشتر پارک میں جو زبان استعمال کرتا ہے وہ ز بان اخبارات میں رپورٹ ہوتی ہے 1970 کے عشرے کی بات ہے سیاستدان عوام کا نام لیتے تھے روٹی کپڑا ، مکان اور مساوات کی تکرار کر تے تھے اخبارات میں یہی باتیں آتی تھیں اسمبلی کے فلور پر یہی باتیں ہوتی تھیں پھر 1980 کا عشر ہ آیا جلسوں اور جلوسوں میں نظام مصطفے ٰ ، نفاذ شریعت اور اسلامی قوانین کی با تیں ہو تی تھیں۔ اخبارات میں یہی باتیں رپورٹ کی جاتی تھیں اور اسمبلیوں میں بھی انہی باتوں کا چرچا ہوتا تھا لیڈر رائے عامہ کی تربیت کرتا ہے رائے عامہ کی تشکیل کرتا ہے اور رائے عامہ کو سنوارتا ہے 2010 کے بعد جو عشر ہ آیا ہے یہ عشر ہ اپنے ساتھ سیاست میں نئی لغت لیکر آیا ہے اس لغت میں ایک لفظ’’ چور‘‘ ہے جو سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے دوسرا لفظ ’’ بے ایمان ‘‘ ہے جو بار بار استعمال ہوتا ہے اس طرح ’’ ڈاکو ‘‘ کا لفظ بار بار آتا ہے ’’ کرپشن ‘‘ کا لفظ بار بار آتا ہے یادش بخیر خالد خان عمر زی جب تک سروس میں تھے بڑے دبنگ ، جی دار اور غیرت مند افسروں میں شمار ہوتے تھے اصول کی بات ہوتو بڑے بڑوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے 2014 ؁ء میں سول سکرٹریٹ پشاور کی ایک اہم میٹنگ میں قومی سطح کے سیاسی لیڈر نے جب کہا ’’ یہ سب بے ایمان اور چور ہیں ‘‘ تو خالد خان عمر زی سے رہا نہ گیا انہوں نے فائل اُٹھا لیا اور لیڈر کو بے نقط سنا کر میٹنگ سے واک آوٹ کیا شستہ اور نستعلیق انگر یز ی میں خالد خان عمرزی کے الفاظ آج بھی سول سکرٹریٹ پشاور کے افسیروں کو یا د ہیں ایک زمانہ تھا جب اسمبلی کے اراکین سب سے زیادہ مطا لعہ کر تے تھے ارباب نو رمحمد ، صاحبزادہ عبدالقیوم ، اسلم خٹک ، عنا یت اللہ گنڈ اپور ڈاکٹر محمد یعقوب ، قادر نوا ز خان اور ان کے ہم عصر پارلیمنٹرین صاحب مطالعہ لو گ تھے ، مولانا کوثر نیازی ، خان عبدالولی خان ، نوابزادہ نصر اللہ خان ، مولانا مفتی محمود ، شاہ احمد نورنی ، پروفیسر غفور احمد ، ذولفقار علی بھٹو اور خان عبدالقیوم کا مطالعہ بہت وسیع تھا ان کی پارلیما نی تقریر یں سننے کے قابل ہوا کرتی تھیں ذوق مطالعہ ان کا استاد تھا آج کل اسمبلی کے ہر ممبر سے پو چھنا پڑتا ہے کہ تمہارا استاد کون ہے ؟ اگر استاد کا پتہ لگ گیا اور وہ تمہارا بھی استاد نکلا تو کیا کرو گے ؟

استاد شہ سے ہو پر خاش کا خیال
یہ تاب یہ محال یہ طاقت نہیں مجھے

ویسے خدا لگتی کہئے تو ہماری جمہوریت مادر پدر آزاد جمہوریت ہے اس میں استاد کی چنداں ضرور ت نہیں استاد کا شجرہ در کار نہیں یہاں لیڈر نے کیا کہا ؟ اس کی قدر و قیمت نہیں کتنی اونچی آواز میں وہ بولتاہے اس کی قدر ہے متن پر کوئی غور نہیں کرتا آواز کا والیو م (Volume) دیکھا جاتا ہے جو شخص سب سے زیادہ اونچی آواز میں بولتا ہے اس کی بات سنی جاتی ہے یہاں استاد کی اہمیت نہیں جس کا کوئی استاد نہ ہو وہ سب سے زیادہ کا میاب سمجھا جاتا ہے یہاں استاد کا نام نہیں لینا ، صرف استادی دکھا نے کے لئے ہے اور ما شا ء اللہ استادی دکھا نے میں ہم کسی سے پیچھے نہیں ہیں

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button