کالمز
پراپر اشکومن کے موجودہ حالات اور ان کا ممکنہ حل
تحریر: صاحب مدد
کرونا وائرس کی بدولت علاقے کے حالات کو نزدیک سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے ۔ راقم کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع غذر، تحصیل اشکومن کے گاؤں اشکومن خاص سے ہیں جو اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں۔ یہاں کے خوبصورت لوگ، منفرد ثقافت، سرسبز و شاداب کھیت، خوبصورت جھیلں، دودھ کی طرح بہتے آبشار، برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں نے اس وادی کی خوبصورتی کو دوبالا کردیا ہے۔
بدقسمتی سے یہ علاقہ سیاسی، سماجی ، معاشی اور انتظامی طور پر لاوارث رہا ہے۔ جس نے بھی اس علاقے کی نمائندگی کی ہے اس علاقے کے وسائل اور لوگوں کے ساتھ کھیلواڈ کیا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو مزہب اور قومیت کے نام پر لڑوا کر اپنے مضموم مقاصدِ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
یہاں طاقتور ہمیشہ کمزور پر غالب آیا ہے، ہزاروں افراد کی قسمت کا فیصلہ ایک مفاد پرست ٹولہ کرتا ہے، سیاسی مخالفت کو ذاتیات کے ساتھ جوڈا جاتا ہے۔ مزہبی اداروں میں سیاست کا عمل دخل ہوتا ہے، مزہبی ادارے سیاسی اشخاص کی ڈکٹیشن پر چلتے ہیں، کسی بھی سیاسی یا سماجی کام کرنے سے پہلے اس مفاد پرست ٹولہ کو اعتماد میں لینا ضروری ہوتا ہے ورنہ سنگین نتائج کی دھمکی دی جاتی ہے۔
یہاں جماعتی اداروں میں عہدے میرٹ کے بجائے اثرورسوخ اور دوسروں کی خوشامد کرنے سے ملتے ہیں، عہدہ ملنے کے بعد کم از کم پندرہ سال تک ریٹائرمنٹ کا نام تک نہیں لیا جاتا ہے۔ اداروں میں بیٹھ کر اپنوں کو نوازنا ازل سے ان کا شیوہ رہا ہے۔ اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھانے والوں پر مزہب اور ملک کے خلاف سازش قرار دے کر پروپیگنڈے شروع کرتے ہیں۔
یہاں قومیت کے نام پر لوگوں کو تقسیم کیا جاتا ہے، یہ ایک غلط خیال ہے کہ پراپر اشکومن میں مختلف قوم آباد ہیں ۔ لفظ قوم کی تعریف کچھ یوں ہے” ایک ہی علاقے میں رہنے والے لوگوں کے مشترکہ مفادات، ترجیحات اور ایک زبان بولتے ہوں قوم کہلاتے ہیں۔ پراپر اشکومن میں الگ الگ قوم نہیں بستے ہیں بلکہ مختلف خاندان آباد ہیں جن کا اپس میں خونی رشتے ہونے کی وجہ سے سب رشتوں کی ایک زنجیر میں باندھے ہوئے ہیں ۔
یہاں لیڈر کا انتخاب مزہب، مسلک، خاندان اور ذاتی مفادات کی بنا پر ہوتا ہے، سوال اٹھانے والے کو غدار سمجھا جاتا ہے۔ علاقے میں شعور پھیلانے والوں کے خلاف اس حد تک سازش کرتے ہیں کہ وہ باغی بن کر بغاوت پر اتر آتا ہے۔
ان سب مسائل کا ممکنہ حل یہی ہے کہ یوتھ اور علاقے کے پڑھے لکھے افراد کو میدان میں اتر کر اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا، قومی تنظیموں میں دوسروں کے خلاف سازشوں کو بے نقاب کرکے ان شر پسند عناصر کی بھرپور حوصلی شکنی کرنا ہوگا۔
پراپر اشکومن ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن PIDOجو ایک زمانے میں ایک منافع بخش ادارہ تھا اب سیاست کی نزر ہوکر کنگال ہو چکا ہے کو فعال بنا کر علاقے کے مستقبل کے فیصلے اس ادارے کے تحت کرنا چائیں نہ کہ کچھ مفاد پرستوں کو یہ حق حاصل ہے کہ بند کمروں میں ہزاروں لوگوں کی مستقبل کے فیصلے کرے ۔ جماعتی اداروں کو سیاسی مداخلت سے بلکل آزاد کرانا ہوگا۔
اسماعیلی طریقے کے تحت اسماعیلی کونسل اور طریقہ بورڈ میں عہدیداروں کا مدت صرف تین سال ہوتا ہے۔ جماعتی اداروں میں عہدیداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ ہر تین سال بعد ریٹائر ہوکر نئے لوگوں کو خدمت کا موقع دے، نیز اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ جو بندہ جس عہدے کے لیے موزوں ہیں اس کو وہی عہدہ دیا جائے تاکہ ادارے کی ساکھ متاثر نہ ہو۔
پی ائی ڈی او سمیت دیگر اداروں میں یوتھ کی نمایندگی کو بقینی بنایا جائے تاکہ قابل اور بااعتماد لوگ اداروں کو بہتر انداز میں چلا سکے۔
اشکومن پراپر کے مختلف نالوں میں مختلف گروہوں کی شکل میں ناجائز زمینوں پر قبضہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے آئے دن علاقے میں سینکڑوں مسائل جنم لیتے ہیں اس کا ممکنہ حل یہ ہے کہ قومیت اور مسلک کے نام پر زمین تقسیم کرنے کے بجائے گاؤں سطح پر ( بنجر زمین) تقیسم ہونا چائیں جس سے علاقے میں ترقی کے ساتھ ساتھ قومیت کے نام پر تقسیم کرنے والے عناصر کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔
کروانا وائرس نے پاکستان سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس سے بچنے کا واحد علاج احتیاط اور سماجی دوری ہے۔ پراپر اشکومن میں کرونا کے پیش نظر تمام سیاسی، سماجی اجتماعات پر پابندی عائد کیا جائے۔ کرونا وائرس سے مشتبہ افراد کے خلاف سازشیں کر کے علاقے میں خوف و ہراس پھیلانے کے بجائے گاؤں سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی کر بیرونی ملکوں اور اندرونی ملک سے گاوں آنے والے حضرات کو متنبہ کی جائے کہ وہ کم از کم دو ہفتوں تک خود کو سیلف قرائنطین کرے۔