کالمز

” گلگت بلتستان کا وارث اور مظلوم طبقہ”

گلگت بلتستان کا تاریخی پس منظر، جیو اسٹریٹجک اہمیت اور یہاں کے متنوع مسالک، ثقافتوں اور زبانوں کو اگر مواقعے میں بدل لیا جائے تو یہ علاقہ زمین پر جنت کی عملی تصویر بن سکتا ہے کیونکہ اس علاقے میں موجود پوٹینشل اور حسن اپنے باطن میں ایک جنت ارضی رکھتا ہے۔ تاریخ کے اوراق پر بکھری معلومات کے مطابق اس زمین کو انڈس تہذیب کی لہریں چھو کر گزرتی ہیں اور قبل مسیح کے نقوش کے گواہ یہاں کی چٹانیں ہیں۔۔۔

یہاں کے باسیوں کی تاریخ اس قدر قدیم ہے کہ یہاں کئی مذہبی روایات زوال پذیر ہوئیں ہیں اور ان گنت نسلوں کی گزر گاہ یہاں کا سلک روٹ رہا ہے۔۔۔۔ بدھ مت تاریخ کے مستند حوالے چٹانی کندہ کاریوں کی روپ میں آج بھی موجود ہیں۔۔۔ صرف ماضی نہیں بلکہ مستقبل کے وسیع امکانات اس دھرتی کے مقدر ہیں۔۔

یہاں کے باسی خوش قسمت ہیں اگر یہ اپنی قسمت کے ستاروں کو سمجھ پائے تو۔۔۔ یہاں کا نوجوان مستقبل کے ہیرو ہیں اگر وہ اپنی اہمیت کو سمجھ سکے تو۔۔۔ سلک روٹ ایک گزرگاہ خیال نہیں بلکہ شاہراہ ریشم ہے جس کے ساتھ چین جیسی طاقت کے مستقبل کے خواب وابستہ ہیں، یہ شاہراہ محض ایک روڈ نہیں بلکہ عالمی معیشت کا روڈ میپ ہے۔۔ اگر یہاں کے مکین اپنی اہمیت کو نہیں سمجھ سکے تو تاریخ کا حوالہ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔۔۔ اس جنت کے حق دار ہم تب ہوں گے جب ہم اپنے فرقے کی جنگ لڑنے کی بجائے گلگت بلتستان کے مقدر کا مقدمہ لڑیں گے۔ یہاں کے فرقے، قومیں، زبانیں ایک خوبصورت گلدستہ تب ہیں جب ہم اس تنوع کو موقع میں بدل لیں گے۔

میں مایوس ہوں اہل سنت والجماعت اور ملت تشیع سے کہ وہ دونوں اس خطے کو امتحان میں ڈالنے کیلئے کوشاں ہیں۔۔ یہ دونوں طبقے اپنی اپنی بات کیوں کرتے ہیں؟ کیا یہ لوگ صرف اپنے مسالک کے وارث ہیں یا پورے گلگت بلتستان کے؟ ان کا ایجنڈا تقسیم کیوں ہے؟ کیا تقسیم شدہ قومیں ترقی پا سکتی ہیں ؟ یہاں شعیوں کے حقوق اور سنیوں کے حقوق کے بجائے انسانوں کے حقوق کی بات کیوں نہیں ہو رہی ہے؟۔۔ کیا یہاں اور طبقے نہیں بستے؟ یہاں تو خطے کے مظلوم ترین طبقے اسماعیلی اور نوربخشی بھی بستے ہیں۔۔ کیا ان کے حقوق نہیں ہیں؟

میری تحقیق اس بات کی گواہ ہے کہ گلگت بلتستان کا اصل وارث اسماعیلی طبقہ ہے جس نے آج تک فرقے کی بنیاد پر عہدوں کی تقسیم کی بات نہیں کی؟ جنہوں نے اپنے مناصب کیلئے گلگت بلتستان کے امن کو آزمائش میں نہیں ڈالا، یہ مظلوم طبقہ اصل میں گلگت بلتستان کا وارث ہے۔ اس طبقے نے جنگ آزادی کے ہیرو صوبیدار صفی اللہ بیگ سے لیکر حوالدار لالک جان (نشان حیدر) تک قدم قدم پر اپنی لہو رنگ قربانیوں سے دھرتی ماں کے سینے کو دشمن کے عزائم سے محفوظ رکھا۔۔ یہ مظلوم طبقہ روز ایک شہید کو ملکی پرچم میں لپیٹ کر ضلع غذر اور ہنزہ کی قبرستان میں دفناتا ہے۔

سلام ہو اس طبقے پر جب گلگت بلتستان کے حقوق کی بات آ جائے تو نواز خان ناجی اور بابا جان قومی آواز بن جاتے ہیں۔ دھرتی ماں کے حقوق کیلئے جیلیں یہ طبقہ کھاتا ہے۔۔ اور افسوس ہے دیگر دونوں طبقوں پر جو محدود دائروں میں بٹے ہوئے ہیں۔۔۔

اگر نشان حیدر لالک جان کے بجائے دیگر دونوں طبقوں کے پاس ہوتا تو پتہ نہیں یہ لوگ اپنی قربانیوں کو جتاتے ہوئے گلگت بلتستان کے سارے اعلی مناصب پر براجمان ہونا اپنا حق سمجھتے۔۔غور طلب بات یہ ہے کہ اپنے مخصوص دائروں کے یہ مسافر گلگت بلتستان کے اصل ہیرو، یہاں کے وارث مگر مظلوم طبقہ اسماعیلیوں سے کچھ سبق کیوں نہیں لیتا؟؟؟ اور اہل سنت والجماعت اور ملت تشیع ایک دوسرے کے خلاف تقاریر اور قراردادیں پاس کرنے کے بجائے مشترکہ طور پر یہ کیوں نہیں کہتے کہ آنے والے پانچ سال حکومت کا حق اس مظلوم طبقہ کو دیا جائے جو اس خطے کے اصل وارث ہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button