غزر حلقہ نمبر 1 کی سیاست پر ایک نظر
تحریر: صاحب مدد
گلگت بلتستان سیلف گورننس آرڈر کے تحت وجود میں آ نے والی دوسری جمہوری حکومت 24 جون 2020 کو اپنی مدت پوری کر نے کے بعد گلگت بلتستان کا نظام و انصرام نگران وزیر اعلیٰ کی بارہ رکنی ٹیم کے سپردِ کر کے رخصت ہو گئی۔
صدر پاکستان نے گلگت بلتستان کے عام انتخابات کی سمری پر دستخط کر کے اٹھارہ اگست 2020 کو گلگت بلتستان میں عام انتخابات کرانے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ نگران وزیر اعلیٰ اور الیکشن کمیشن کے کاندھوں پر بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وبا کے دنوں میں صاف و شفاف انتخابات کو یقینی بنائیں۔
ستر سالوں سے گلگت بلتستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ کھبی بھی گلگت بلتستان کے باسیوں نے اس خطے کی اہمیت، معروضی حالات، اپنی پہچان اور موجودہ مسائل کے حل کے لیے اپنا لیڈر کا انتخاب نہیں کیا۔ اگر یہ کہے تو بے جا نہ ہوگا کہ اب تک گلگت بلتستان کے لوگوں کو اپنے اصل مسائل کا ادراک ہی نہیں ہے۔
یہ کبھی روٹی کپڑا اور مکان کے نعروں سے متاثر ہوئے تو کبھی مشرف کے ڈکٹیٹر شپ سے جنون کی حد تک پیار ہوا، کبھی نوازا شریف سے دلی لگاؤ رہا تو کھبی عمران خان کی جعلی تبدیلی کے دلدادہ ہوئے۔ اس ہجوم نے ایک قوم بن کر قومی جدوجہد کے بجائے منتشر رہنے کو عافیت سمجھا۔ اس غیر سنجیدگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ سات دہائیوں سے گلگت بلتستان آئینی حقوق اور اپنی شناخت سے محروم ہے۔
اس کالم میں چونکہ گلگت بلتستان کے عام انتخابات کی بات ہو رہی ہے جو رواں سال اگست کے مہینے میں متوقع ہیں۔ میں پوری گلگت بلتستان کے حلقوں کے بجائے اپنے حلقے کی موجودہ سیاسی حالات کے بارے میں قارئین کو اگاہ کرنے کی سعی کرو گا جو گلگت بلتستان کے دیگر حلقوں کے نسبت ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔
یہ حلقہ دریا کے اس پار شیرقلعہ پونیال سے شروع ہو کر اشکومن کے آخری گاؤں مترم دان تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ حلقہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ گلگت بلتستان کا پہلا گورنر بھی اس حلقے سے منتخب ہوا ہے، اس حلقے کو قوم پرستی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، نواز خان ناجی جیسے نڈر اور محب وطن قوم پرست رہنما دو دفعہ اس حلقے سے گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ہیں۔ پیر کرم علی شاہ مسلسل آدھی صدی تک اس علاقے سے گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے رہے ہیں جس کی مثال شاید عالمی دنیا میں سیاست کی تاریخ میں ایک عجوبہ ہی سمجھا جائے۔
اس حلقے سے گلگت بلتستان اسمبلی کے لیے ایکشن لڑنے والے متوقع امیدوں میں نواز خان ناجی، سید جلال فرزند پیر کرم علی شاہ، عاطف سلمان، ظفر محمد شادم خیل اور نعمت شاہ شامل ہیں۔
نواز خان ناجی کو ان سب میں زیادہ مضبوط امیدوار سمجھا جاتا ہے۔ ناجی اپنی نظریے اور بے لوث خدمات کی وجہ سے عالمی دنیا میں جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ اگر ناجی کی پچھلی دور کی کارکردگی کی بات کی جائے تو وہ گلکت بلتستان اسمبلی کے واحد رکن ہو گے جس کے حلقے میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا ہوا ہے۔ ناجی صاحب کی شخصیت میں یہ خامی ضرو ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کا سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر ڈھنڈورا نہیں پیٹتے ہیں وہ خاموش خدمات گار ہیں۔ اپنا عہدہ کبھی بھی اپنے زات یا کسی کو زاتی طور پر فائدہ پہنچانے کے لئے استعمال نہیں کرتے ہیں۔ وہ اپنے نظریہ پر کبھی بھی کمپرومائز نہیں کرتے ہیں، وہ نوجوان کو اپنا فخر اور معاشرے کا قیمتی سرمایہ سمجھتے ہیں۔
نواز خان ناجی صاحب کا دعویٰ ہے کہ "جب تک نوجوان اور پڑھے لکھے لوگ میرے کارواں میں شامل ہیں تب تک میں ہار ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں”.
اس حلقے سے دوسرا بڑا مضبوط امیدوار مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما راجا شکیل احمد تھے جنہوں نے 2015 کے انتخابات میں دوسرے نمبر پر رہیں تھے۔ 2015 سے اج تک راجا شکیل احمد صاحب سیاسی منظرنامہ سے غائب ہیں ، اطلاعات ہیں کہ راجا صاحب اس بار الیکشن لڑنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔
ظفر محمد شادم خیل نے بھی اس حلقے سے آزاد امیدوار کے طور پر 2015 کے انتخابات میں حصہ لیا تھا جو 5200 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہیں ہیں۔ ظفر محمد کو پہلی دفعہ اتنا ووٹ پڑنا کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ چند وجوہات کی بنا پر ظفر محمد شادم خیل کو 5200 ووٹ ملا تھا: پہلی بات جب 2011 میں پیر کرم علی شاہ گورنر منتخب ہوئے تھے اور اس حلقے کی سیٹ پر زمینی الیکشن کروائے گے اس وقت نوازا خان ناجی الکیشن جیت کر اسمبلی پہنچنے ، تب اسمبلی کی مدت کے پانچ سالوں میں سے ڈھائی سال گزر چکے تھے۔ ناجی صاحب کو دھائی سالوں کی قلیل مدت میں ڈیلور کرنا شاید ممکن نہیں ہو سکا ہوگا تب لوگ ناجی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہو کر ناجی کی مخالفت میں 2015 کے انتخابات میں ظفر محمد شادم خیل کو ووٹ دیا ہوگا۔ دوسری بات اس وقت ظفر محمد سیاست میں نئے تھے اور ہماری علاقے میں ایک عام رواج ہے کہ نئے بندے کو جانچنے کے لیے موقع دیا جاتا ہے۔ تیسری بات نواز خان ناجی کا تعلق پونیال سے ہیں اشکومن سے کچھ انٹی پونیال ووٹ بجی پڑا ہوگا۔
اس بار ممکن نہیں ہے کہ ظفر محمد کو اتنا ووٹ پڑے گا ، ان پانچ سالوں میں چونکہ وہ گرونڈ پر موجود رہیں ہیں، مگر عوامی مفادِ میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی بنا پر وہ عوام سے ووٹ لینے میں کامیاب ہو سکے گے ۔ جناب نے ان پانچ سالوں میں چار سیاسی پارٹیاں تبدیل کر کے نیا ریکارڈ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ نفرت کی سیاست کو بھی ہوا دی ہے، سیاسی مخالفین کے ساتھ محاذ آرائیوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ، عوام کی آواز بننے کے بجائے اداروں کی خوشامد میں بھی پیش پیش ہوئے ہیں ، دوسروں کے کاموں کا کریڈٹ لینے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے ۔ وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت برسر اقتدار آنے کے فوراً بعد جعفر شاہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے تبدیلی سرکار کی گاڈی میں سوار ہوئے ہیں ، اس وقت پی ٹی آئی جی بی میں آتنے دھڑے ہیں کہ سمجھ نہیں آرہا ہے اگر یہ گروہ گلگت بلتستان میں حکومت بنانے میں کامیاب بھی ہوا تو کیا ڈیلور کرے گا؟
پیر سید کرم علی شاہ کے فرزند سید جلال بھی اس حلقے میں انتخابات کے حوالے سے سرگرم دیکھائی دیتے ہیں۔ وہ بھی پی پی پی کی گاڈی میں سوار ہو کر گلگت بلتستان اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے کے خواب دیکھتے ہیں، حلقے میں اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ اگر سید جلال اپنے والد محترم کی نسبت سے الیکشن میں اترے ہیں تو ناکام ہیں یہ 2000 نہیں بلکہ 2020 ہے پیر کا احترام اپنے جگہ، سیاست میں پیر اور مرید کا کیا تعلق؟ سید جلال صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نوجوان ہیں لوگوں کی خدمت کر کے خود کو ثابت کرنے کی کوشش کرے۔
پی ٹی آئی کی گاڈی میں سوار اشکومن پراپر سے عاطف سلمان سکریٹری انفارمیشن غزر اور بوبر پونیال سے پی ٹی آئی غزر کے صدر نعمت شاہ بھی اپنے آپ و تاب سے میدان میں اترنے کے لئے بےتاب ہیں۔ دونوں کا تعلق پی ٹی آئی گورنر گروپ سے ہیں۔ عاطف سلمان بھی پچھلے کچھ سالوں سے اپنے سیاسی خیرخواہ بنانے میں مصروف ہیں، اور کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ عاطف سلمان کا دعویٰ ہے کہ اگر پارٹی نے ٹیکٹ عنایت کی تو ظفر محمد شادم خیل سے زیادہ ووٹ لے کر سرپرائز دوں گا۔
حلقے کی موجود صورت حال کچھ یوں ہیں:
پونیال سے ابھی تک ناجی اور نعمت شاہ کے علاؤہ کسی نے بھی الیکشن لڑنے کے لیے اپنی خواہش کا اظہار نہیں کیا ہے۔ ناجی اور نعمت شاہ کا موازنہ قارئین بہتر جانتے ہیں۔ تحصیل اشکومن میں پونیال کے نسبت امیدوار بہت زیادہ ہے۔ اشکومن پراپر میں اتنی گروپ بندی ہوچکی ہے شاید ہر گروہ سے ایک امیدوار الیکشن میں یقینی طور پر حصہّ لیتا ہوں۔