کالمز

سائنس،عقل اور اسلام

عافیت نظر

آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل فاطمید سلطنت اور دعوت سے وابستہ، ایک فارسی شاعر ، سیاح اور فلسفی ناصر خسرو نے ایک انتہائی اہم پشن گوئی کی تھی۔ آپ نے کہا تھا کہ لوگ خلاء میں جائیں گے اور اس سے بھی آگے جائینگے۔ مثلاً ایک شعر میں آپ نے لکھا ہےکہ

درخت تو گر بار دانش بگیرد        بزیر آوری چرخ نیلوفری را

یعنی اگرآپ کے علم کا درخت پھلدار ہوگا تو آپ اپنے علم سے آسمان کو اپنے پاؤں کے نیچے لے آئیں گے۔

اسی طرح ایک اورشعر میں آپ نے  لکھاکہ:

گرازعلم و طاعت برآریم پَر               ازین جا بہ چرخ برین بَرپَریم

سراز چرخ نیلوفری برکشیم              بدانش کہ دانندہ و با فریم۔

یعنی اگرہم اس زندگی میں علم اور اطاعت الٰہی کے پَر حاصل کریں تو اس صورت میں ہم اس دنیا کی پستی سے آسمانوں کی بلندی میں پرواز کرسکتے ہیں۔ہم علم کی بدولت اپنا سر فخرسے نیلے آسمان سے بھی اُوپر اُٹھا سکتے ہیں۔ بشرطیکہ ہم علم وحکمت سے  اپنے آپ کو مزّین کریں۔

 قابل غور بات یہ ہے کہ انھوں نے یہ پشن گوئی تقریباً ایک ہزار سال قبل کی تھی۔ ناصرخسرو کے دورمیں اگرچہ سیاروں اورستاروں کا علم بہت ہی محدود تھا، تاہم مختلف لوگ ان افلاکی اجسام پرغوروفکر میں ضرور مگن تھے۔لیکن خلاء میں جانے کی باتیں اُس دور کے حساب سے دیوانگی اور تعجب کی باتیں تھیں۔اُن کی اس پیشن گوئی کو صحیح ثابت ہونے میں پورے ایک ہزار سال کا عرصہ لگا۔وہ کیا عوامل تھے جن کی بدولت وہ اس قابل ہوئے کہ وہ ایسے پیشن گوئی کر سکے؟ یقیناً وہ اُس وقت کے بہت سے مروجہ علوم بشمول قرآن پاک کی تعلیمات سے مستفید ہوئے تھے۔ حتٰی کہ انھوں نےعلم حساب کے حوالے سے بھی کوئی کتاب لکھیں، مگر وہ کتاب شاید مفقود ہوچکی ہے یا ابھی تک منظرعام پر نہیں لایا جاسکا۔ تاہم اُن کے دوسرے بہت سے تصانیف جن میں ایک اہم تحریر سفرنامہ بھی ہیں محفوظ رہے جو مختلف لائبریریوں میں مخطوطہ اورطباعات شدہ دونوں صورت میں دستیاب ہیں۔ چونکہ موضوع سخن ناصر خسرو نہیں بلکہ سائنس اور عقل کا استعمال ہے۔ لہذا ہم ان سے متعلق اتنے ہی باتوں پر اکتفاء کرتے ہیں۔ البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلام کے پیروکاروں کوکائنات کے حقائق کو جاننے میں مانع نہیں بلکہ اس کی تعلیمات کائیات کے اسرار ورموز کو سمجھنے کے لیے عقل کے استعمال کی بھر پور حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

اگر قرآنی تعلیمات کی روشنی میں چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ تعجب کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ کائنات پر تدّبروتفکراوران کی تسخیر، تحقیق، تجزیہ و تحلیل عقل کے استعمال کا تذکرہ قرآن پاک میں بار بارآیا ہے۔مثلاً سورۃ آل عمران کی آیات ۱۹۰اور۱۹۱ سورۃ حٰم سجدہ کی آیت نمبر ۵۳ اور سورۃ الغاشیۃ کی آیات ۱۷تا۲۰میں کائنات پر غوروفکر اورتسخیر کا تذکرہ موجود ہے۔مختلف علوم کے حصول اور تحقیق پر بارباز زوردیا گیا ہے۔ علاوہ ازین مختلف جانوروں اورحشرات کاتذکرہ قرآن پاک میں موجود ہیں۔ بلکہ کئی سورتوں کے نام جانوروں مثلاً گائے، چیونٹی، شہد کی مکھی، ہاتھی وغیرہ کے ناموں پر مشتمل ہیں۔ مزید برآں علم اور سوال کی اہمیت پر کئی احادیث مبارکہ احادیث کے مختلف مجموعوں میں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے۔ کہ اسلام ہمیشہ سے تدّبرو تفکراورغوروفکر کےساتھ عمل کے ذریعے کائنات کی اسرار ورموز کو افشاء کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اسی لیے اقبالؒ نے کہا تھا:

یہ دنیا دعوتِ دیدار ہے فرزند آدم کو     کہ ہر مسطور کو بخشا گیا ہے ذوق عریانی

مگر تعجب کہ بات یہ ہے کہ اسلامی دنیا کے تعلیمی اداروں اور جامعات کا کردارے سائنس، تحقیق اور ایجادات کی میدان میں کہیں بھی موجودہ دورمیں نمایاں نہیں۔پاکستان کی مثال لیجیےجہاں اب بھی تقریباً ڈھائی کروڑ بچے سکول سے باہرہیں اورجو سکول جاتے ہیں ان کے پڑھنے کے معیار کا اندازہ اَیسر، الف اعلان اور دوسرے رپورٹوں سے عیان ہے۔ اوراس سےبھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کی ہمارے معاشرےکے پڑھے لکھے لوگوں میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو اب بھی اس بات کو جھوٹ سمجھتے ہیں کہ لوگوں نے چاند پر باربار قدم رکھا ہے اور اب عنقریب مریخ پر بھی جاکرآباد ہونگے۔ابھی تک ہم اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ زمین اور دوسرے سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔اس لحاظ سے مسلم دنیا دوسری اقوام کے حساب سے بہت  ہی پسماندہ ہیں۔ کیونکہ وہ ابھی تک حقائق کا سامنا کرنے کے لیے تیارنہیں۔ ایسے میں مسلم معاشروں کے لیے بیروںی دشمنوں کی کیا ضرور ہے کہ وہ انہیں مزید پسماندگی کی طرف دھکیل دے؟ کیونکہ وہ ابھی تک خواب غفلت میں ستاروں پرکمند ڈٓال رہے ہیں۔

مسلم معاشروں کے موجودہ ناگفتہ بہ صورتحال کے ذمہ دارکون ہیں؟ یقیناً اس کے بہت سے محروکات ہیں۔ لیکن سب سے اہم محرک مذہب اور سیاست کا گٹھ جوڑ ہے، جس کی بدولت سیاست دان اپنے ذاتی مفاد کے لیےعلماء کا استعمال کرتےہیں اوربدلے میں علماء اپنے مفادات کی خاطرحکمرانوں کی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ اوردونوں طبقات عوام الناس کو تعلیم وتحقیق سے دور رکھنے میں پیش پیش ہیں۔ایک سوال کرنے اور تحقیق سے اس لیے منع کرتا ہے کہ یہ ملکی مفادات کے خلاف ہے اور دوسرے تحقیقات سے اس لیے منع کرتا ہے کہ کہیں متلاشی حقائق جان کر کفر میں مبتلا نہ ہوں۔لہذا عوام الناس کومصروف رکھنے کے لیے ایسے مباحثوں اورمسائل میں الجھایا گیا ہے کہ اُ ن توجہ دنیا کے حقیقی مسائل کی طرف نہ ہوں۔ البتہ ایک شعبہ جس میں سب کو چھوٹ دی گئی ہےکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مسلکی مسائل میں الجھے رہیں، لیکن وہ بھی بغیر تحقیق کے۔لہذاہمارے سوچ اورتوانائی اس بات پر صرف ہورہا ہے کہ دوسرے کون کون سے مسالک کے لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرناہے۔

ماضی میں سائنسی سوچ کے حامل بہت سے مفکرین کی مسلم جماعت پیدا ہوئیں جنھوں نےعلم کے مختلف شعبوں میں خاطرخواہ اضافے کرنے کے ساتھ ساتھ نئےعلوم و فنون کی بنیاد رکھیں۔۔ ناصرخسرو کا متذکرہ پشین گوئی کی بنیاد بھی سائنسی فکر کا نتیجہ تھا۔ اور ان مفکرین کے تحقیقات میں قرآن کی تعلیمات کا کردار کلیدی ہے جس میں کاتنات کو تسخر کرنےاورعقل کو استعمال کرنے سے متعلق بکثرت آیات موجود ہیں۔ کتنی تعجب کی بات ہے کہ یورپ کو مختلف علوم و فنون کے ذریعے روشنی سے ہمکنار کرنے والے خود گھٹا ٹوپ اندھیروں میں کھو گئے۔

مسلم معاشروں کی نشاط ثانیہ صرف اُس صورت میں ممکن ہے کہ مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ رکھا جائے۔ یقیناً انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں معلومات اور علم پر کنٹرول کسی حد تک مذکورہ تحقیق اور سائنس مخالف قوّتوں کے گرفت سے آزاد ہوا ہے۔ لیکن ساتھ ہی انٹرنیٹ بجائے فائدے کے مسلم معاشروں میں مزید دقیانوسی سوچ کی ترویج کا بھی باعث بن رہاہے۔تاہم اب لوگوں کو ایک ہی مسئلہ کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور پرکھنے کا بھی موقع دستیا ب ہوا ہے۔

 لہذا ایسے میں دانشوروں اورپڑھے لکھے نوجوانوں پرمزید ذمہ داری آید ہورہی ہے کہ وہ مختلف پلیٹ فارمز پرایسے سائنسی و تحقیقی مقالاجات اوربات چیت کی طرف لوگوں کو راغب کرنے میں زیادہ سے زیادہ اپنا کردارادا کریں۔ساتھ ہی ساتھ علماء اور حکمران طبقات کو بھی حقائق کے ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ اب مزید معلومات اورسوالات پر بندوشوں سے کام نہیں چلے گا۔ اس لیے سب کی بھلائی اسی میں ہے کہ سائنسی فکرکے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں۔

اس آرٹیکل کی پہلے ہم سب میں  اشاعت ہوئی ہے۔

https://www.humsub.com.pk/322501/aafiyat-nazar/

آپ کی رائے

comments

عافیت نظر

عافیت نظر تعلیم و تربیت اور پیشےکے لحاظ سے ماہر تعلیم ہیں۔

متعلقہ

Back to top button