کالمز

برساتی مینڈک اور لوٹے

تحریر ڈاکٹر زمان خان
doctorzaman@gmail.com

کہتے ہیں پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ایک مسلمان کانگریسی رکن پارلمنٹ نے کسی کے ذریعے قائد اعظم محمد علی جناح کے پاس پیغام بھجوایا کہ وہ مسلم لیگ میں شامل ہونا چاہتا ہے تو قائد اعظم نے ان کو شامل کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جو ان کو دھو کہ دے کر ہمارے ساتھ شامل ہوسکتا ہے وہ کل مشکل وقت میں ہمارے پیٹھ میں چھرا گھو نب کر ہمارے مخالفین کے ساتھ جامل سکتا ہے لہذا ان کو کہو کہ وہ ادھر ہی رہے جو ایک مرتبہ مارکیٹ میں اپنے بکنے کی بولی لگا دیتا ہے وہ بکاؤ مال ہمیشہ بکنے کیلئے تیار ہوتا ہے یہ ساری خرید وفروخت ذاتی مفادات کے لئے ہوتی ہیں ان بکاؤ مال لوٹوں کی زندگی گزار نا مال بنانا ہوتا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے بکنے والے اور خرید نے والے دونوں اس مفاداتی خرید وفروخت میں اصل عوامی مسائل سے کوسوں دور اقتدار کی جنگ وجدل میں مصروف ہوتے ہیں خرید وفروخت کے اس کھیل میں کچھ تو انفرادی طور پر بکتے ہیں تو کچھ اجتماعی طور پر بکتے ہیں یہ مفاداتی ٹولہ اقتدار کے بغیر بے آب ماہی کی مانند تڑپتے رہتے ہیں وہ اس ذاتی خواہشات کی تڑپ کو کبھی جمہوریت تو کبھی مذہب یا علاقائی مفادات کا نام دیتے ہیں اور بار وبار یہ بہروپیئے انداز بدل کر وہی پرانے چہرے نئے نعروں کے ساتھ اقتدار کے شیش محل میں نقب لگارہے ہوتے ہیں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اقتدار کی کرسی میں شراکت ملنے کے بعد شیرو شکر ہوجاتے ہیں ۔ان ضمیر فروشوں کو عرف عام میں لوٹے کہا جاتا ہے.

پتہ نہیں یہ لوٹے کا لفظ کیوں ان بے ضمیر وں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے لوٹا تو وفا دار ہوتا ہے وہ کام کے وقت ساتھ چھوڑ کر بھا گتا نہیں جب تک وہ استعمال کے قابل ہوتا ہے اپنے استعمال کرنے والے کے ساتھ نبہاتا ہے بے وفا ئی نہیں کرتا الیکشن کے جلسوں میں ہر کوئی قائد اعظم کے فرمودات اور اقبال کے خوابوں کی تاویلیں باندھتا ہے مگر الیکشن جیتنے کے بعد پاکستان کو مضبوط کر نے کے بجائے ہر کوئی اپنی کرسی کی فکر میں پڑجاتا ہے اور قائداعظم کے فرمودات سے منہ موڑ لیتا ہے اقتدار کا سورج جاتی عمرہ رائیونڈ پر طلوع ہوا ہے اس لئے مشرف کے یار زرداری کے غدار سائیکل کے سوار سب میا ں نواز شریف کے شیر کی کھال میں پناہ کے طلب گار ہیں میاں صاحب نے بھی ان سب لوٹوں کو اپنے دروازے کھلے چھوڑہوئے ہیں جو کل تک مشرف کو اپنا لیڈر ماننے والے میاں نواز شریف کی چھتری تلے جمع ہیں خدا جانے کب تک ان سے وفاداررہتے ہیں یہ تو وقت بتا ئے گا لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ یہ کسی کے ساتھ وفادار نہیں ہوتے ۔یہ چڑھتی سورج کے بجاری ہوتے ہیں یہ اقتدار کے بھوکے ہوتے ہیں جہاں اقتدار کا سورج طلوع ہوگا برساتی مینڈکوں کی طرح نکل آتے ہیں جب وفاق میں اقتدار کی بساط لپیٹی گئی تواس کی دیکھا دیکھی گلگت بلتستان میں بھی لوٹوں نے وفاداریاں بدلنا شروع کیا ہے لیگیوں میں خوشیاں اور پیپلیوں میں افراتفری صاف دیکھی جاسکتی ہے لوٹا با زی کا یہ کھیل گلگت بلتستان میں کچھ زیادہ پروان چڑھا ہے اب تو وفاداریاں بدلنے والوں نے اپنا کھیل شروع کیا ہے مسلم لیگ (ن )میں شامل ہونے کیلئے ہر کوئی بے قرار ہے جس مسلم لیگ کو پنجاب کی پارٹی کہا جاتا تھا اس میں شامل ہونے کیلئے بہت سارے لوٹے سر گرم ہیں بے ضمیر ی کی بھی کوئی حدہوتی ہے ایک پارٹی کے حق میں لگائے جانے والے نعروں کی گونج ہوا میں اور چاکنگ دیواروں پر موجود ہوتی ہے وہ اچانک دوسری پارٹی میں چلے جاتے ہیں ۔پورے پاکستان میں آج کل سب سے بڑا لوٹوں کا کاروبار اپنے عروج پر ہے لوٹوں کا سب سے بڑا جمعہ بازار جاتی عمرہ رائیونڈ میں لگا ہے جہاں لوٹوں کی برسات ہے بلکہ سیلاب آیا ہے برساتی مینڈک ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لئے جان کی بازی لگارہے ہیں آج سے پانچ سال قبل یہ لوٹوں کا بازار نوڈیرو میں لگا تھا جہاں آصف علی ذرداری پر جان نچھا ور کرنے کے وعدے کرنے والے ایک مرتبہ اپنا نیا روپ دھا ر کر رائیونڈ کا رخ کرچکے ہیں قدم بڑھا و مشرف ہم تمھارے ساتھ ہیں کا نعرہ لگانے والے وہی لوٹے دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا کے فلک شگاف نعرے لگارہے ہیں وفاداریاں تبدیل کرنے کا سیلاب اب گلگت بلتستان میں اتنے زوروں سے آیا ہے کہ لیگیوں کو اپنے وجود کو خطرہ محسوس ہونے لگاہے اس لئے لیگی قیادت نے ہاوس فل ہونے کا اعلان کیا ہے مگر اس کے باوجود بھی لوٹے رکنے کانام نہیں لیتے اور دھڑا دھڑ مسلم لیگ کی چاردیواری پھلانگ کر اندر داخل ہورہے ہیں ان میں سے اکثریت اقتدار میں شمولیت چاہتے ہیں ان میں سے بہت ساروں نے تو گورنر کی خالی ہونے والی کرسی دبوچنے کا تہیہ کیا ہوا ہے کچھ تو اپنی گذشتہ کرپشن اور اقربا پروری سے بچنے کے لئے شیر کی کھال میں داخل ہونا چاہتے ہیں ۔ان تمام وفاداریاں بدلنے میں سے چند ہی ایسے ہونگے جو ذاتی مفادات حاصل کرپائینگے مگر بہت سارے سوائے بدنامی اور ناکامی کے کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے میاں نواز شریف کو اللہ نے تیسری بار اقتدار نصیب کیا ہے یہ لوٹے میاں نواز شریف کو کئی مرتبہ دے چکے ہیں امید ہے کہ میاں صاحب ان بے ضمیر لوٹوں کے فریب میں نہیں آئینگے یہ مداری نہ تو خود کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی کو کرنے دیتے ہیں قوم کو بے شمار اندرونی اور بیرونی مشکلات درپیش ہیں مہنگائی بے روزگاری بجلی کا لوڈ شیڈنگ تعلیم صحت جیسے بڑے بڑے مسائل پر قابو پانے کیلے میاں صاحب کو دن رات ایک کرنا ہوگا پانچ سال کا عرصہ وہ بھی اقتدار کی عیا ش محل میں گزرتے ہوئے پتہ نہیں چلتا ہے لہذا سالوں کا کام مہینوں میں کرنے کا تقاضا ہے قوم نے میاں نوازشریف کے کاندھوں پر بہت بڑا بوجھ رکھا ہے وسائل کم مسائل بے شمار یکسوئی محنت اور لگن میں کمی قوم کو مایوس کرسکتی ہے قوم کی مایوسی ذرداری صاحب چکھ چکے ہیں اب شاید اقتدار کا سورج دوبارہ نوڈیرو میں طلوع ہو اگر میاں صاحب سے بھی وہی غلطیاں ہوئیں تو جاتی عمرہ میں طلوع ہونے والی اقتدار کی سورج کو بھی گرہن لگنے کا قوی امکان ہے گلگت بلتستان کے 20 لاکھ عوام کی پسماندگی کے ذمہ انسانی اور آئینی حقوق نہ ملنے کی سب سے بڑی وجہ وفاداریوں کا بدلنا دن کو ایک تو را ت کو دوسری پارٹی میں جانے والے مفاداتی گروہ جس نے اپنی ذات کے خاطر قوم علاقہ اور مذہب کا ہر کارڈ استعمال کیا ان بھکاریوں اقتدار کے بھوکوں کے بدولت آج وفاق سے ملنے والی خیرات ان لوٹوں کی اپنی ذاتی عیاشیوں میں خرچ ہوتی ہے عوام کے حصے میں صرف پریشانیاں آتی ہیں ۔اب گلگت بلتستان کے عوام کو بھی لوٹوں سے ہوشیار رہنا ہوگا جن کی عیاری مکاری سے قوم فرقہ پرستی اور افرتفری کے دلدل میں جکڑے جارہے ہیں اب مسلم لیگ کو بھی اپنے سیاسی مداریوں سے بھی اپنے آپ کو دوررکھنا ہوگا جن کے بدولت قوم پتھر دور کے جانب دھکیلی گئی ہے.

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button