اسلام آباد (خصوصی رپورٹ: زاہد علی) پاکستان بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی و درندگی کے المناک واقعات بدقسمتی سے عام ہو چکے ہیں تاہم روایتی و پرامن علاقہ سمجھے جانے والا گلگت بلتستان بھی اب بچوں کیلئے محفوظ نہیں رہا۔
تفصیلات کے مطابق ماہِ مارچ میں ضلع گانچھے کے گاؤں دم سم میں 6 سالہ بچے کے ساتھ جنسی درندگی کا واقعہ پیش آیا جسے مبینہ طور پر مقامی افراد اور پولیس نے ملی بھگت سے منظرِ عام پر نہ آنے دیا اور یوں ملزم صاف بچ نکلا۔ حاصل کردہ معلومات اور دستیاب شواہد کے مطابق جنسی درندنگی میں مبینہ طور پر ملوث دم سم گاؤں کے سائیکل مکینک ملزم گلزار جو کہ مبینہ طور پر جنسی زیادتی کے کئی واقعات میں پہلے بھی ملوث رہا ہے نے اپنی دکان پر سائیکل کی مرمت کے لئے آنے والے 6 سالہ بچے کو دکان میں لیجا کر زیادتی کا نشانہ بنایا جس سے بچے کی حالت غیر ہو گئی۔ بچے کی خراب حالت کے باعث اس کی والدہ بھی تین دن تک صدمے سے بیہوش رہی۔
مقامی تھانے نے نمائندے کے استفسار پر افسوسناک واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ شکایت موصول ہوئی تھی ہم نے فوری طور پر ملزم کو گرفتارکر کے تفتیش کی جس کے بعد ملزم کو دوبارہ ایسی حرکت نہ کرنے کی گارنٹی اور جرمانہ کر کے چھوڑ دیا گیا، تاہم جب متعلقہ تفتیشی افسر سے استفسار کیا گیا کہ سنگین جرم میں ملوث ملزم جو خود اقبالِ جرم بھی کر چکا ہے اُسے پولیس کیسے کیسے چھوڑ سکتی ہے؟؟ جس پر پولیس کا حیران کُن موقف سامنے آیا کہ آئندہ ایسا نہ کرنے کی گارنٹی لی گئی ہے اور اس حوالے سے باقاعدہ معاہدہ بھی ہوا ہے کہ اگر دوبار وہ یہ حرکت کرے گا تو جرمانہ بھی ہوگا اور ایف۔ائی۔آر درج کر کے جیل بھیجا جائے گا۔
نمائندے کے مزید استفسار پر یہ حیران کُن تفصیلات بھی سامنے آئیں کہ بچے سے زیادتی کے اس اندوہناک واقعہ کی ایف آئی آر درج کرنا تو درکنار معمول کے روزنامچے میں اندراج تک نہ کیا گیا ہے اور نہ ہی معاملہ مجاز افسران کے علم میں لایا گیا۔
سماجی حلقوں کا پولیس کے اس رویئے کے حوالے سے کہنا ہے کہ پولیس کی عجیب منطق ہے کہ معصوم بچے سے جنسی زیادتی کر کے اس کی زندگی تباہ کرنے والے درندے کو ایک موقع اور دینا مزید بچوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
علاقہ مکینوں کے مطابق ملزم عادی مجرم ہے اور اس سے پہلے بھی ایک بچی جس کی عمر تقریباً 10 سال ہے کو گاؤں کے پاؤر ہاؤس کے پائپ کے پاس لیجا کے منہ میں کپڑا ڈال کر زبردستی جنسی ذیادتی کا نشانہ بنا چکا ہے تاہم بچی کے ورثاء اُس وقت بھی جگ ہنسائی کے خوف سے محفوظ رہے۔
مقامی افراد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ بتایا کہ یہاں پولیس اور کچھ مقامی افراط ایسے جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرتے ہے۔ جس سے علاقے میں ایسے جرائم بڑھ رہے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ اگر کوئی فرد عزت نفس یا مفلسی کی واجہ سے ایسے افراد کے خلاف ایف۔آئی۔آر نہیں کرتا تو سرکار کی مدعیت میں ایف۔آئی۔آر کرائی جائے۔ اور ایسے درندہ صفت مجرموں کو عبرتناک انجام تک پہنچایا جائے