نواز خان ناجی گلگت بلتستان کے لئے کیوں اہم ہے؟
تحریر: حسین علی شاہ
نواز خان ناجی کو اس الیکشن کی یا پھر اسمبلی کے اس سیٹ کی ضرورت ہو نہ ہو لیکن ہمیں اس سیٹ سمیت ناجی صاحب کی ضرورت ہے۔ ناجی صاحب اب ہماری ضروت کے لئے الیکشن لڑے گا اور ہم اپنی ضرورت کے لئے ناجی صاحب کو سپورٹ کریں گے۔ آنے والے وقتوں کے اندر اسمبلی کے اندر ایک ایسی توانا آواز کی ضرورت ہے جو ہمارے دلوں کی ترجمانی کرسکے۔ جو بے لوث بغیر کسی لالچ کے یہاں کے لوگوں کی ترجمانی کرسکے۔ اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ حلقہ نمبر 1 غذر کی یوتھ، عوام اہل قلم اور اہل علم اس الیکشن میں نواز خان ناجی کے لئے کام کریں گے۔
پڑوسی ملکوں کی جنگی جہازوں کے انجنوں کی جس طرح صفائی ہو رہی ہے جس طرح آگ کے لئے ایندھن جمع کیا جارہا ہے اس سے لگتا ہے کہ ہم بہت جلد کسی سوکھی لکڑی کی طرح اس آگ میں ایندھن کی طرح شامل ہونگے جو پڑوسی ملکوں کی طرف سے لگائی جانے والی ہے۔ اس لئے ہماری رہبری کے لئے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو ہمیں سمجھائے اور ہمیں بتائے کہ کس راہ پہ ہماری بقاء ہے۔ ہم ناجی صاحب کے اس نظرئے اور تحریک کے ساتھ تو تھے ہی جس کا اس الیکشن اور اس اسمبلی کی سیٹ کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں تھا لیکن اب ہمیں ناجی صاحب اپنے نظرئے اور سیٹ کے ساتھ چاہئے۔ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ ناجی صاحب پھر سرخرو ہو۔ اور ہم اپنے سامنے ناجی صاحب کی زبان کے سہارے اپن آواز کو اسمبلی فلور اور ٹی وی اسکرینز پر گونجتے سنیں گے اور دیکھیں گے اور آنے والے وقتوں میں اس خطے کے فیصلے میں ناجی صاحب کے شخصیت کے سہارے ہم اپنا حصہ ڈالیں گے۔
کسی کے پاس بھی کوئی ویژن نہیں ان سارے معاملات کو سمجھ سکے اور اس کے اوپر بات کرسکے۔ کسی کے پاس بھی پلان نہیں کہ اگر کسی طرح ہمارے اوپر اس جنگ کے بادل گرجنے لگیں اور اس سے اگربرسات ہونے لگے تو گلگت بلتستان کی اس کچی آبادی کو کیسے بچایا جاسکے۔
ہمارے ایک طرف ہے یاجوج ماجوج جیسی قوم ہے جس کے اندر اخلاقیات، رسم و رواج، قدراور احترام نام کی کوئی چیز نہیں سوائے اپنے مفاد کے، تو دوسری طرف ہمارے سروں پہ منڈلانے وہ ایٹم بم جو ہمیں خوف سے سے نکلنے نہیں دیتے۔ ایسے میں ہم محفوظ سانسیں تبھی لے سکتے ہیں جب ہم کسی راہ پہ چلیں گے۔ اور یہ تب ممکن ہے جب رہبر درد رکھنے والا ہو۔ ناجی صاحب ہمیں وہی رہبر بن کر ہماری رہنمائی کریں گے۔
کئی رنگوں والے یہ جھنڈے جو وفاق سے ہمارے اوپر جن جانوروں کے اوپر لاد کرلایا جارہا ہے وہ ہماری بقاء کی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ بقاء کی جنگ، جنگ میں نہیں امن کے راستے میں ہے اور ہماری یہ چھوٹی سی ٹولیاں اُس وقت کام نہیں آنے والی جب ہمیں فیصلے کا وقت ملے۔ اُس وقت ہمارے لئے کام آئیں گی وہ آوازیں جو ہمارے حق میں بول آٹھیں گی اور یہ آوازیں صرف ناجی جیسی سوچ میں موجود ہیں اور وہ شخصیات اس خطے میں بہت محدود ہیں۔ ناجی صاحب کے علاوہ بھی ہمیں ان آوازوں کو پہچان کر انہیں ووٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ جو وقت آنے پر ہمارے سنگ کھڑے رہ سکے۔ جب وقت آئے گا تو رنگ، نسل، مذہب، گاوں کے اندر بسنے والے خاندانوں کی سیاست کوئی کام نہیں آئے۔ ہمیں چاہئے وہ رہبر جو آصل مانوں میں مشکل وقت میں ہمارے ناتواں کندھوں کا سہارا بنے۔ ہماری لرزتی آوازوں کا سہارا بنے اور ہمارے گھبرائے دلوں کا حوصلہ بنے۔ آئیں عہد کرتے ہیں ہم اپنے اپنے حلقے میں ان آوازوں کو پہچانے جو ہمارے حق میں بول اُٹھتی ہیں اور انہیں اسمبلی کے اندر اپنی آواز بنا کے بھیجیں اس اطیمنان کے ساتھ کہ ہم سوئے بھی تو وہ جاگ رہے ہیں۔ ہم خاموش رہے بھی تو وہ بول اُٹھیں گی۔ ہم وقت کو اپنا فیصلہ کرنے کا آختیار کبھی نہیں دیں گے۔ وقت کو موڑ نہیں سکتے نہ اس سے روک سکتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حالات کو اپنے لئے بہتر بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
گلگت بلتستان مختلف پہاڑوں کا صرف جنکشن ہی نہیں یہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی جنگ کا بھی جنکشن ہے۔ یہاں سپر پاور ملک ٹکراتے ہیں یہاں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک وار کیا جاسکتا ہے۔ یہاں صرف لمبا دریا اور بلند و بالے پہاڑ ہی نہیں یہ دنیا کی سب سے بڑی طاقتوں کے ٹکراو کا میدان بھی ہے۔ یہاں ہر فن تعمیر اور ہر شاہکار کے پیچھے بھی اپنی ایک کہانی ہے۔ دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر دوسرے کونے پر نظر رکھنے کی کہانی۔۔ ایک پاور کو دوسرے پاور سے ملانے سے روکنے کی کہانی۔ ایک سمت کو توڑنے کی کہانی اور ایک سمت کو جوڑنے کی کہانی۔ اس لئے اس بار ہم غلطی نہیں کریں گے۔ ہمیں فیصلہ دینا ہوگا اپنے حق میں اپنے مستقبل کے حق میں ہمیں فیصلہ دینا ہوگا اپنی آنے والی نسلوں کو یاجوج ماجوج کے رحم کرم سے نکالنے کے حق میں۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقتوں کی آپسی رنجشوں کے درمیان سے بحفاظت نکلنے کے حق میں۔ ہمیں ووٹ کرنا ہوگا لیڈروں کو۔ ہمیں ووٹ کرنا ہوگا حقدار کو جو ہماری رہبری کا حق رکھتے ہیں۔ آخر میں نواز ناجی، اہل عقل، اہل علم، اہل قلم اور ایک ہی فکرو سوچ کے سب لیڈروں اور جوانوں کو سلام۔