یاسین میں پائے جانے والے پرندے
تحریر: جاوید احمد ساجد
باز اور شہباز ( گشنج)
پرانے زمانے میں خا ص کر مغل دور میں ہندوستان میں ایک محکمہ شاکاریات ہو تا تھا جس کے کمانڈر یا داروغہ کو میر شکار کہا جاتا تھا جس طرح شاہی اصطبل کے انچارج یا کمانڈر یا داروغہ کو میر اخور کہا جاتا تھا جو یسن اور چترال میں تھوڑہ بگاڑ کے ساتھ مراخور بن گیا تھا ۔حالانکہ یہ دونوں عہدے تھے۔
یسن میں میر شکار کو بگاڑ کر مہہ شکار کہاجاتا تھا جو کہ شکار کے محمکمے کا انچارج ہو تا تھا اس کی زمہ داری میں ایک اہم زمہ راجہ یا حکمران کے لئے اچھے اچھے باز جن کو بروشو قوم گشنج کہتی ہے دور دراز ندی نالوں سے پکڑ کر لانا اور پھر ان کو پالنا، سکھانا اور سہلانا شامل تھا۔
اُن دنوں باز دو طریقو ں سے پکڑے جاتے تھے۔
پہلا طریقہ:
یورکھٹی کوٹو، یعنی ایک چھو ٹا سا کمرہ، بنایا جاتا تھاجاتا تھا جس میں ایک یا دو بندے مشکل سے سما سکتے تھے۔ اس کمرے کی چھت کو جھاڑیوں اور درخت کی ہری ٹہنیوں سے ڈھانپا جاتا تھا۔ درمیان میں ایک چھو ٹا سا روشندان یا سوراخ بنایا جاتا تھا۔ اس کمرے میں ایک دو افراد مُرغی یا چوزے کی ٹانگوں کو باندھ کر انتظار میں بیٹھ جاتے تھے۔ مرُغی یا چوزے کو روشندان سے باہر اس طرح رکھا جاتا تھا کہ باز کو یا دیگر شکاری پرندوں کو نظر آجائے۔ جب باز شکار کرنے کے لئے مُرغی یا چوزے کو اپنے پنجوں میں
پکڑ لیتا تو اس وقت چھپے افراد باز کو دبوچ کر اسۓ قابو میں کر لیتے تھے۔
ہاتھوں میں چرمی دستانیں پہنے افراد باز کو قابو کر لیتے تھے، اور اس کی آنکھوں کو ایک مخصوص چرمی ٹوپی سے ڈھانپ دیتے تھے۔ اس کے باز گرفتار شدہ باز کی تربیت کا آغاز ہوتا تھا۔
دوسرا طریقہ:
دوسرے طریقے کے لئے باز کی ایک عادت کا مشاہدہ کیا جاتا تھا۔ مشہور ہے کہ اگر باز ایک دفعہ کسی درخت پر رات گزارے تو یہ درخت گویا اس کا گھر بن جاتا ہے، اور وہ بار بار اسی درخت پر رات گزارنے آتا ہے۔ اس عادت کا فائدہ اُٹھائے ہوتے باز کے شکاری ایک لمبے ڈنڈے کا سہارا لیتے تھے، اُسے پکڑنے کے لئے۔ طریقہ یہ تھا کہ لکڑی کے ڈنڈے (جس کو مقامی زبان میں خرہ کہا جاتا ہے) کی نوک پر گھوڑے کے دُم کی بالوں سے تیار شدہ پھندہ لگایا جاتا تھا۔ اس طریقے میں لکڑے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی جلائے جاتے تھے، باز کو دیکھنے کے لئے، کیونکہ یہ طریقہ عموماً رات کو استعمال کیا جاتا تھا۔ درخت پر بسیرا کرنے والے باز کی چونچ میں ڈنڈے کے اوپر نصب شدہ پھندہ پھنسا کر باز کو نیچے اُتارا جاتا تھا، اور پھر اس کی تربیت شروع ہوتی تھی۔
دونوں صورتوں میں باز کی چونچ اور آنکھوں کو بند کرنے کے لئے چمڑے سے بنی ہوئی ٹوپی لگائی جاتی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض اوقات باز کی آنکھیں بند کرنے کے لئے ان میں دھاگے سے ٹانکیں بھی لگائے جاتے تھے، تاکہ و دیکھنے کے قابل نہ رہے۔
باز ہر آدمی نہیں پال سکتا تھا کیوں کہ جب تک وہ زیر تربیت ہوتا ہے تو اس کو روزانہ تازہ اور گرم گوشت کھلایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ باز کو باسی گوشت کھلایا جائے تو اس کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ اس لئے باز پالنا ایک مہنگا شوق تھا۔ یسن میں کوئی ایک ادھ بندہ شوقیہ پالتا لیکن راجے کے دروازے پر کئی کئی باز لکڑی کے ڈنڈوں پر باندھے نظر آتے راجوں کے علاوہ پیر لوگ جن میں یاسین کے جناب شاسلامت ، سندی کے شاہ پیر کی خاندان اور برنداس کے خاندان میں بھی باز پالنے کی روایت تھی۔ مکمل تربیت یا سُدھانے کے بعد باز کی آنکھوں سے پٹی یا ٹوپی اُتاری جاتی تھی۔ پھر ایک دن ایسا اتا کہ اس کو کسی چڑیا یا کسی پرندے کی شکار کلئے ایک خاص انداز سے چھوڑا جاتا اور پھر اگر باز شکار کو پکڑ کر کسی درخت پر بیٹھ جاتا تو اس کو ایک خاص انداز سے بلایا جاتا جس کو جیش کرنا کہا جاتا اور وہ اڑ کر اکر اپنے مالک کے ہاتھ پر بیٹھ جاتا۔ مالک خوش ہوکر پیار سے اس کے سر اور پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا
کریز ڈالنا ۔کریز ڈالنا اسُ عمل کا نام ہے جس میں باز کے بال و پر کاٹ دیے جاتے ہیں، اگر پر خراب ہوجائیں یا بہت زیادہ بڑھ جائیں۔ بال کاٹنے کے بعد باز کو ایک کھلی عمارت میں آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا، اور اس کی خوراک دگنی کردی جاتی تھی۔ روز کوشش کر کے باز کو تازہ چوہے یا دیگر جانور کھلائے جاتے تھے۔ اس طرح سے بال کے پرانے بال وپر گر جاتے اور نئے سرے سے خوبصورت انداز میں نکل آتے۔
اقسام : بروشاسکی میں باز کے کئی نام اور اقسام ہیں سب چھوٹا سائز کو چپ کہا جاتا اس سے بڑے قد والے کو بورج اور سے بڑے کو یورج یا کلو یورج پھر سایورج ، بجگی سایورج شمقار، قلع قولہ وغیرہ ، احباب سے گذارش ہے کہ میری مزید رہنمائی فرمائے ۔ باز کے بڑے بڑے دو اقسام ہیں ایک کو سیاہ چشم اور دوسرے کو زرد چشم کہا جاتا ہے ۔
شھویچ ( شوئچ)
شھویچ ایک موسمی پرند ہے جو گرمیوں کے موسم میں جب خوبانی پک جاتی ہے تو یہ بھی اسلام علیکم کر کے آتی ہے اور یسن کے مخلتف انواع و اقسام کی خوبانیاں، مثلاً دورکلی، میرزہ خنی، نوحیکان، چلی، قرمو، خرٹی، کھر بالیان، اور بہت سی اقسام جن کا نام مجھے نہیں آتا کھاتا۔ خوبانی کے موسم کے اختتام کے ساتھ ہی یہ پرندہ بھی غائب ہوجاتا ہے۔
شھویچ عموماً دو رنگوں، بھورے اور سُرخ، کے ہوتے ہیں۔ سُرخ رنگت کی وجہ سے اس پرندے کا شکار کرنا آسان ہوتا ہے، اس لئے غلیل سے لیس کھلنڈرے نوجوان اس بے زبان اور معصوم پرندے کا شکار بہت زیادہ کرتے ہیں۔
فاختہ اور کبوتر
فاختہ امن کا پرندہ کے نام سے بھی مشہور ہے اور ہوتا بھی بڑا شریف سا پرندہ ہے۔یاسین میں دو موسموں میں یہ آتا ہے اور پھر غایب ہو جاتا ہے اور کہیں کہیں کبھی کبھی سال میں ایک آ دھ دفعہ نظر بھی آتا ہے یہ سفید نُما رنگ کا ہوتا ہے اور قد میں بھی چھوٹا ہو تا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب ابراھیم علیہ سلام کو آتش نمرود میں ڈالا گیا تو یہ واحد پرندہ تھا جو اپنی چونچ میں پانی لا کر اس آگ پر ڈالنے کی کوشش کی تو دوسرے پرندوں نے پاکستانیوں کی طرح بغیر سوچے اس کا مذاق اڑایا تو فاختے نے کہا کہ مجھے میرے حصے کا کام کرنا ہے تو وہ شرمندہ ہوے۔
کبوتر اور فاختہ ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان کی خاندان کو انگریزی میں کو لمبائڈ ہ COLUMBIDAE لکھا گیا ہے ان کی خاندان کی کوئی 344 اقسام اور 49 نسلیں بتائیں جاتی ہیں انگریزی میں چھو ٹی قسم کو فاختہ یعنی DOVE اور بڑے کو کبوتر PIGEAN کہا جاتا ہے کہتے ہیں کہ pigean فرانسیسی لٖفظ ہے جو کہ ایٹالین کے pipio سے ماخوز ہے جو کہ جھانکنا یعنی peeping chicks اور Dove جرمنی کا لفظ ہے جو کہ ڈائیونگ یعنی غوطہ لگانے والا پرندہ ہے یہ شاید اس کی اڑان یا پرواز کے انداز سے متعلق ہے۔
جنت یسن میں ہم کبوتروں یا فاختوں کے اوپر اتنا تحقیقات کہاں کر سکتے ہیں؟
پاکستان کے مختلف علاقوں میں ابتہ بہت سے لوگ کبوتر پالتے ہیں اور ان کو ان پرندوں کے اطوار اور عادات کے بارے میں زیادہ معلوم ہیں۔ ہمارے یہاں پرندوں کے بارے تحقیق کرنے کی فرصت کس کو ہے بھلا؟
ہم کبوتروں کی دو اقسام جانتے ہیں۔ ایک اشقم تل یعنی بلیو ”نیلا“ یا جنگلی کبوتر اور دوسرے پالتو یا گھریلو کبوتر۔ جنگلی کبوتر موسم گرما میں بھی اور سردیوں کی موسم میں بھی پائے جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد بھی بہت کم ہوئی ہے یہ بلیو رنگ کے بڑے بڑے قد کے ہوتے ہیں۔ پالتو کبوتر بیسوں رنگ کے ہوتے ہیں، براؤن، بھی سفید اور سرخ بھی۔ کالے اور سفید بھی اور ایک ہی کبوتر بہت سے رنگوں میں بھی پایا جاتا ہے۔
فاختہ جو موسمی ہو تا ہے وہ اپریل مئی اور پھر ستمبر اکتوبر میں آتا ہے، سرخی مائل ہوتا ہے اور جو ایکا دکا سال بھر کہیں کہیں نظر آتا ہے وہ چھوٹا بھی ہوتا ہے اور سفیدی مائل ہوتا ہے ا س کو قملی کہا جاتا ہے ”جیسا کہ کھوار شعر کہتا ہے چھوئی بی چھوئی میون چلی جان یور دی کو قملی عمر برابر بیتی مقصدی نو توری“، لیکن میں اپنے ناظرین کی خدمت میں جو تصاویر پیش کرونگا وہ بہت زیادہ اقسام پر مشتمل ہے انڈین فاختہ داغی ہوتا ہے جس کو ہم سدفی کہتے ہیں۔
چکور اور رام چکور( گاؤو کا بلامو)
بروشاسکی زبان میں ایک مقولہ ہے کہ باہر کا چکور گھر کے چکور کو نکال باہر کرے گا۔ یعنی ہولم گاؤو ہالم گاؤو دیوشیمی۔ بروشاسکی میں چکور کو گاؤو اور رام چکور کو بلا جمع بلومو، کھوار میں کولو اور تو تیرو جبکہ شینا میں کانکس اور بلیش کہا جاتا ہے۔ یہ پرندے ان پہاڑی علاقوں میں ہر موسم میں پائے جاتے ہیں۔ مسلسل شکار کی وجہ سے یہ پرندے ناپید ہوتے جارہے ہیں۔
میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ جب سے یاسین میں محکمہ بے محمکمہ جنگلا ت کا دفتر کھل گیا اور فارسٹ گارڈ یا راکھا ملازم بن کر آگیا اور کسی فرد کو بغیر لائسنس کے شکار کر نے پر پہلی مرتبہ جرمانہ عائد گیا گیا اس دن سے اس صید یعنی شکار میں بے برکتی شروع ہو گئیہ ے۔ چاہے یہ شکار مرغابی کا ہو یا فاختہ کا یہ شکار چکور کا ہو یا رام چکور کا ہر ایک پرندے کی آمد میں کمی اور بے برکتی آگئی ہے، چونکہ اللہ تعالیٰ نے حلال جانوروں کو انسان کے لئے رزق کے طور پر پیدا کیا۔
ایک زمانہ تھا کہ سلطان آباد کے دریا کنارے جب مرغابیوں کے موسم میں لوگ ان پرندوں کی شکار کے لیے جب مرضی جس کی مرضی جاتے تھے تو ہر شام کو ہر گھر میں مرغابی کا گوشت پکتا تھا جنوری سے مارچ کے آخر تک یہ پرندے غول کے غول آتے تھے پھر کم ہوتے ہوتے مئی کے آخر میں ایکا دکا نظر آتے تھے، پھر فاختوں کا موسم آتا اور درختوں پر ایک طوفان دکھائی دیتا اتنی تعداد میں آتے تھے کہ ہم حیران ہو تے تھے۔
اسی طرح سردیوں کے موسم میں چکور ہمارے کھیتوں میں اور خا صکر ریخشہ کے کھیتوں آتے تھے لیکن جوں جوں اس محکمہ کی اجارہ داری بڑھتی گئی توں توں ان پرندوں کی تعداد میں بھی کمی آتی گئی۔
یہ دونوں پرندے شکل و صورت سے ایک ہی نسل کے ہیں۔ لیکم چکور تھوڑا چھوٹا اور رام چکو بڑے سائز کا اور لمبوترا سا ہو تا ہے ان کے پر بھورے اور سفید اور کالے ہوتے ہیں چونچ سرخ ہوتا ہے۔
رام چکور کا چونج سرخ نہیں ہوتا۔ چکور کے شکار کے لئے ایک خاکی کپڑے سے پترانچ تیار کیا جاتا تھا دونون اطراف میں کان کی شکل بنا کر اس میں کسی ٹہنی کا ٹکڑا لگا جاتا تاکہ کان کھڑے نظر آجایئں اور آنکھوں کے سامنے آںکھ کی سائز کا سراخ بنا کر دھاگے سے پپوٹے بنائے جاتے تھے۔ شکاری چھپ چھپا کر یہ کپڑا چہرے پر چڑھائے جب چکور کے نزدیک پہنچ جاتا تو آہستہ آہستہ سے گردن نکال کر اس طرح کی حرکت کرتا کہ چکور یہ سمجھتے کہ لومڑی ہے اور وہ آوازیں نکال کر ایک جگہ پر دفاعی نقطہ نظر سے جمع ہوجاتے۔ اتنے میں شکاری نشانہ بنا کر فائر کرتا تو چھرے دار گولی کی زد میں آکر بہت سارے چکور گرجاتے۔ اس کا گوشت بھی فاختے کی طرح بہت لذیز ہو تا ہے ۔ لیکن رام چکور کافی اونچائی پر رہنے والا جانور ہے اس کے شکا ر کے لئے پھر ایک پورا دن کا خرچہ بھی ساتھ لے کر جانا پڑتا تھا ۔
مرغابیاں (پھریا )
مرغابیاں پوری دنیا میں پائی جاتی ہیں لیکن ہمارے علاقے میں یہ بھی موسمی پرندے ہی ہیں ۔ان کو شکا رکیا جائے یا نہ کیا جائے جو نہی ان کا موسم ختم ہو گا یہ بھی ختم ہو ں گے کوئی ایک آدھ کہیں گمشدہ کی مد میں رہ جائے تو ممکن ہے اور سال میں یہ دو موسم میں آتے ہیں پہلا موسم جنوری کے مہینے میں چیلاگی یعنی انتہائی سردی کے موسم میں اور پھر آہستہ آہستہ ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ مارچ کے آخر سے یہ کم ہو نا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر اپریل مئی سے یہ غایب ہو جاتے ہیں کچھ عرصے کے لئے ستمبر اکتوبر میں بہت معمولی تعداد میں دیکھی جاتی ہیں۔
مرغابیوں کے بہت مختلف مقامی نام ہیں جو سب سے پہلے دریا ئے یاسین میں اترتا ہے اس کوٹھس گوؤٹی کہا جاتا ہے اس سے بہتر حالت والا مغن گوؤٹی پھر مغن، گرگر، غشپ غرئی، سیخ دوم، جوٹھائی، یٹ باردم، مسی خور، منڈاغ (بگلہ) بلبات، پزیک یہ سب سے بڑا ہوتا ہے اس کے بعد دوسرے نمبر پر بلباط ہو تا ہے اور بگلہ بھی قد کا بڑا ہو تا ہے لیکن یہ انتہائی لاغر یعنی کمزور ہوتا ہے اس کے گردن میں وہ سفید پر ہوتے ہیں جن کو گلگتی ٹوپی پر سجا لیتے ہیں ان کو مقامی زبان میں چل کہا جاتا ہے اور بہت مہنگے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک سب سے بڑا نسل کا مرغابی ہوتا ہے جس کو طُرنائی (یا طور نائی) کہا جاتا ہے لیکن یہ کسی سال آتا ہے اور کسی سال نہیں جب آتا ہے تو بہت بڑی تعداد میں ایک خاص ڈسپلن کے تحت آتے ہیں اور اگر کسی علاقے میں ان کی آمد رات کے وقت ہو تو ان کی آواز کی شور سے لوگ جاگ جاتے ہیں۔