کالمز
تعلیم کی زوال پذیری کا زمہ دار کون؟
تحریر: صاحب مدد
تعلیم کا مقصد سمجھ بوجھ ، غور و فکر اور تدبر ہے۔ معاشرے کی اصلاح میں تعلیم اور تعلیم یافتہ لوگوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، وہ اپنی علم اور تجربے کی بنیاد پر بہتر مشورے اور بہتر انداز میں راہنمائی کر سکتے ہیں۔ ایک تعلیم یافتہ انسان معاشرے کے لیے رول ماڈل ہوتا ہے، اس کی چال چلن، انداز گفتگو، سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں سے معاشرے میں نکھار آتا ہے۔
ڈاکٹر ھود بھائی کا کہنا ہے اس کے ایک شاگرد نے بذیعہ ای میل کچھ مواد بھیج کر شکایت کی کہ کیمپس میں ان کو آؤٹ ڈیٹڈ مواد پڑھایا جاتا ہے۔ جب مواد دیکھا تو معلوم ہوا کہ بیسویں صدی کے کسی دھائی میں ہاتھ سے لکھے گے نوٹس ہیں جس کی آج کے زمانے میں کوئی وقعت نہیں ہے۔
راقم کو بھی پیچھے ہفتے جماعت نہم دھم کے لیے بنایا گیا کمبائنڈ انگریزی کا ہوم اسائمنٹ ملا ، پڑھ کر بہت دکھ ہوا اس کے پہلے صفحے پر ہی تقریباً اٹھ دس غلطیاں تھیں۔ میں یہاں پر کسی استاد پر براہ راست الزام نہیں لگاتا ہوں بلکہ استاد کی لاپرواہی پر بات ضرور کروں گا۔ یہ ہوم اسائمنٹ محکمہ تعلیم کے زیلی دفتر میں بنا کر ضلعے کے تمام سکولوں کو بھیجا گیا ہے۔ چونکہ انگریزی کا اسائمنٹ تھا اس میں گرامر، املا، جملوں کی ساخت اور مضموں نویسی کے اصولوں کو بلکل نظر انداز کیا گیا تھا۔ تشویش اس بات پر ہوتی ہے کہ جب ہوم اسائمنٹ محکمہ تعلیم کے دفاتر سے بن کر سکولوں میں پہنچتا ہے تو متعلقہ سکول کے ہیڈماسٹر اور سبجیکٹ ٹیچرز کی زمہ داری ہوتی ہے کہ اس کو ایک بار ضرور پڑھیں ، غلطیوں کی درستگی کر کے بچوں کو بیجھا جائے تاکہ استاد کی عدم موجودگی میں طلباء کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تعلیم کی زوال پزیری کا الزام صرف اساتذہ پر نہیں لگایا جا سکتا ہے بلکہ بلاواسطہ یا بلواسطہ جو بھی محکمہ تعلیم سے وابستہ ہیں سب تعلیم کی زوال پذیری کے زمہ دار ہیں۔
بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں تعلیم کی اہمیت اور افادیت پر ہر دوسرا بندہ لکچر دیتا ملے گا، مگر المیہ یہ ہے کہ تعلیم کی اصل حقیقت سے تعلیم یافتہ لوگ بھی واقف نہیں ہے، اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ تعلیم کی زوال پذیری میں پڑھے لکھے افراد کا کردار بہت نمایاں ہے۔
قارئین کے دل میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہوگا کہ تعلیم زوال پذیری کا شکار کیسے ہے؟ اس کا آسان سا جواب ہے, اس وقت پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی دنیا کے 500 ٹاپ یونیورسٹیوں میں شمار نہیں ہے ، بورڈ کے امتحان میں 1050 میں سے 1049 نمبر لے کر بھی کسی طالب علم نے ادب ، سائنس یا ٹیکنالوجی میں کوئی ایسا شاہکار تخلیق نہیں کی ہے جس پر دنیا واہ واہ کہہ سکے۔
کل ہی کی بات ہے فیس بک پر ایک پوسٹ پڑھنے کو ملا جس میں ایک استاد محترم اپنے سٹوڈنٹس کو مخاطب کر کے فرما رہیں کہ جناب نے بہت محنت اور مشقت سے ایف اے پارٹ ون اور ٹو کے طلبا کے لیے نوٹس تیار کی ہیں جن میں پانچ سالہ حل شدہ پیپرز اور امتحان میں متوقع سوالات کی بھی نشانی کی ہے جو فلاں بک شاب سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ استاد محترم نے بہت مشقت اور لگن سے نوٹس تیار کیے ہوں گے تاکہ اس کے سٹوڈنٹس بورڈ امتحان میں اعلےٰ نمبر لے کر کامیاب ہو سکے۔ اس پر اعتراض اس لیے ہیں کہ اساتزہ اب تک روایتی درس و تدریس کو استعمال کیوں کرتے ہیں، اگر اساتزہ اسی طرح پانچ سالہ پیپرز کو خود حل کر کے اور خود نوٹس بنا بنا کر بچوں تب پہنچائے گے تو بچوث کی تخلیقی صلاحیتیں کیسے بڑھے گی، ان میں خود اعتمادی کیسے پیدا ہوگی، کل وہ پروفیشنل لائف میں چیلنجز کا مقابلہ کسے کریں گے؟
یہ ایک استاد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پورے ملک کا المیہ ہے۔ معاشرے کی ترقی کے لیے آچھے لکھاری، دانشور، سائنس دان، استاد ، فوجی ، ڈاکٹر، بینکر، صحافی اور مصنف کی ضرورت ہے ، ان حضرات کو کسی کارخانے میں تیار نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ سکول، کالج اور یونیورسٹی میں ان کی بہتر تربیت اور خاض طور پر ان میں تخلیقی صلاحیتیں پیدا کر کے کی جاتی ہے۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ بھی ہے کہ معاشرے میں شعور پیدا کرنے والوں کے خلاف سازشیں کی جاتی ہے ان کو خاموش رہنے کی وارننگ دی جاتی ہے، نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو سنگین نتائج کی دھمکی دی جاتی ہے ۔ حال ہی میں ملک کے نامور استاد ڈاکٹر پرویز ہودبھائی اور ڈاکٹر عمار عملی جان کو ایف سی کالج لاہور سے نکلا دیا گیا ، ان کا قصور یہ تھا کہ وہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں پر کام کرتے تھے، وہ بچوں کو سوال کرنے اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا طریقہ سکھا رہیں تھے، وہ روایتی درس وتدریس کے خلاف ہیں اور جامعات میں جدید درس وتدریس کے طریقہ کار کو متعارف کرنے کے حامی تھے۔
ڈاکٹر ھود بھائی کا کہنا ہے اس کے ایک شاگرد نے بذیعہ ای میل کچھ مواد بھیج کر شکایت کی کہ کیمپس میں ان کو آؤٹ ڈیٹڈ مواد پڑھایا جاتا ہے۔ جب مواد دیکھا تو معلوم ہوا کہ بیسویں صدی کے کسی دھائی میں ہاتھ سے لکھے گے نوٹس ہیں جس کی آج کے زمانے میں کوئی وقعت نہیں ہے۔
راقم کو بھی پیچھے ہفتے جماعت نہم دھم کے لیے بنایا گیا کمبائنڈ انگریزی کا ہوم اسائمنٹ ملا ، پڑھ کر بہت دکھ ہوا اس کے پہلے صفحے پر ہی تقریباً اٹھ دس غلطیاں تھیں۔ میں یہاں پر کسی استاد پر براہ راست الزام نہیں لگاتا ہوں بلکہ استاد کی لاپرواہی پر بات ضرور کروں گا۔ یہ ہوم اسائمنٹ محکمہ تعلیم کے زیلی دفتر میں بنا کر ضلعے کے تمام سکولوں کو بھیجا گیا ہے۔ چونکہ انگریزی کا اسائمنٹ تھا اس میں گرامر، املا، جملوں کی ساخت اور مضموں نویسی کے اصولوں کو بلکل نظر انداز کیا گیا تھا۔ تشویش اس بات پر ہوتی ہے کہ جب ہوم اسائمنٹ محکمہ تعلیم کے دفاتر سے بن کر سکولوں میں پہنچتا ہے تو متعلقہ سکول کے ہیڈماسٹر اور سبجیکٹ ٹیچرز کی زمہ داری ہوتی ہے کہ اس کو ایک بار ضرور پڑھیں ، غلطیوں کی درستگی کر کے بچوں کو بیجھا جائے تاکہ استاد کی عدم موجودگی میں طلباء کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
پاکستان میں تعلیمی نظام کا بھانڈا تب پھوٹا جب کرونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کو بند کر کے ان لائن کلاسوں کا احتمام کیا گیا، کچھ نجی تعلیمی اداروں کے علاوہ کوئی بھی تعلیمی ادارہ ایسا نہیں تھا جس کے پاس فعال کمپیوٹر لیب، پروفیشنل ائی ٹی سٹاف اور انٹرنیٹ کنکشن میسر ہو ۔
گلگت بلتستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کے طلبا پاکستان اور بیرون ملکوں کے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں یہاں ناقض انٹرنیٹ کی وجہ سے اکثر طلبہ کا آن لان کلاسوں تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ کچھ دن پہلے internet4GilgitBaltistan# ٹیوٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا اور مختلف ضلعوں میں گلگت بلتستان کے طلبا نے ناقض انٹرنیٹ کے خلاف احتجاج مظاہرے بھی کئے گئے مگر زمہ داروں کے سروں پر جوں پر نہیں رینگی۔
تعلیم کی زوال پزیری کا الزام صرف اساتذہ پر نہیں لگایا جا سکتا ہے بلکہ بلاواسطہ یا بلواسطہ جو بھی محکمہ تعلیم سے وابستہ ہیں سب تعلیم کی زوال پذیری کے زمہ دار ہیں۔