کالمز

چلاس سانحہ

ہدایت اللہ اختر۔گلگت

بیٹے کا خون معاف  نہیں کرونگی ۔

یہ الفاظ ایک ماں کے ہیں  جس کا بیٹا حال ہی میں پیر اور منگل کی درمیانی شب کو کاونٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی) گلگت بلتستان کی ٹیم کے چلاس دیامر کے ایک گھر میں چھاپہ کے دوران ہلاک ہوا ۔ہلاک ہونے والے نوجوان کا نام اظہار اللہ بتایا گیا  ہے۔ اس واقعہ میں  اظہار کے ساتھ اس کا ایک رشتہ دار اور پولیس کے  پانچ جوان بھی مارے گئے ۔

ماں ماں ہوتی ہے اور جس ماں کے سامنے اس کا جوان بیٹا مارا جائے اس کی دل کی کیفیت کیسی ہوتی ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس ماں کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا میں وائریل بھی ہوگئی ہے ۔ اس کے الفاظ کو یہاں دہرانا   دہرائی کے سوا  کچھ نہ ہوگا ۔

اب تک اس واقعہ  کی ایف آئی ار  اور دیگر سرسری سی معلومات  بھی  میئسر ہیں ۔واقعے کی مزید تفصیل سے پہلے میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ سی ٹی ڈی  کے بارے قارئین کو کچھ معلومات فراہم کردوں کہ سی ٹی ڈی کس انداز اور طریقے سے اپنی کاروائی سر انجام دیتی ہے ۔تاکہ پتہ چل سکے کہ اس واقعے میں کہاں سقم پیدا ہوا یا جان بوجھ کر ایسا کیا گیا ۔

سی ٹی ڈی پہلے پولیس کرمنل انوسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ کہلاتا تھا ۔ہوا یہ کہ جب 2007 میں دہشت گردی کی انتہا ہوئی تو  ملک کی داخلی اور اندرونی سلامتی کے خطرے  سے نبرد ازما ہونے کے لئے  فوج کے علاہ ایک غیر فوجی ادارے کی ضرورت محسوس  کی گئی اور حکومت کا نظر انتخاب  ملک  کے سی آئی ڈی کے محکمے پر جا رکا ۔اس محکمے کو چننے کا مقصد یہ تھا کہ  اس ادارے میں موجود  اہل کاروں میں  انٹیلیجنس کی معلومات جمع کرنے کے ساتھ  دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات   اور مجرموں کو سزا دلوانے کا تجربہ بنسبت دوسرے اداروں کے زیادہ تھا ۔دوسرا فائدہ حکومت کے لئے یہ تھا کہ ان کے دفاتر  پہلے ہی سے تمام صوبوں میں قائم تھے ۔2010 میں سی آئی ڈی  کا نام تبدیل کرکے  اسے سی ٹی ڈی  کہا جانے لگا۔

  القصہ مختصر 2015 میں  سی ٹی ڈی کے لئے مخصوص پولیس سٹیشن قائم کر دئے گئے اوراسی  سی ٹی ڈی کے اندر ایک  کاؤنٹر ٹیررزم فورس بھی قائم کی گئی جنہیں  پاک آرمی  تربیت بھی فراہم کرتی ہے ۔یہ میں پاکستان لیول کی بات  کر رہا ہوں  گلگت بلتستان  میں اس قسم کی تربیت مہیا ہوئی ہے یا نہیں  اس   بارے    مجھے تصدیق  نہیں لیکن  امید  واثق ہے کہ  یہاں موجود سی ٹی ڈی  کی بھی اسی نہج پر تربیت  ضرور ہوئی ہوگی۔

معلومات کے مطابق سی ٹی ڈی کے پاس انٹیلی جنس اکٹھی کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کا موثر نظام موجود ہے۔ اس کی روشنی میں ادارہ اپنی کارروائیاں ترتیب دیتا ہے۔ یہ فورس ’ٹرینڈ ٹو کِل‘ ہوتی ہے۔ یعنی وہ دہشت گردوں کے خلاف ’جان سے مارنے‘ کی غرض سے کارروائی کرتے ہیں۔لازمی بات ہے کہ یہ ساری کاروائی وہ لوگ خود سے نہیں کرتے بلکہ احکامات کے مطابق انجام دیتے ہیں کہ سی ٹی ڈی کے آپریشنز کی منصوبہ بندی میں ’پورا تھِنک ٹینک شامل ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ایک افسر نے فورس اکٹھی کی اور آپریشن کرنے چل پڑے۔ اس میں دیگر اداروں کی رائے بھی شامل ہوتی ہے ۔

اب آئیں چلاس سانحہ  یا واقعہ کی طرف   دیکھتے ہیں کہ  اس کیس میں سی ٹی ڈی نے  کیا طریقہ اپنایا ! کیا یہ طریقہ مذکورہ بالا طریقے کے ہو بہو تھا یا نا اہلی سے  اس کیس کو ہینڈل کیا گیا ؟۔اس کیس کی ایف آئی آر بھی درج ہوگئی ہے  اور جس نے یہ ایف آئی آر درج کروائی ہے  وہ خود اس چھاپہ مار  سی ٹی ڈی  ٹیم کی سربراہی کر رہا تھا ۔

میرا یہ کام نہیں کہ میں ایف آئی آر میں درج باتوں پر تجزیہ کروں  یا ان لوگوں کے بیانات پر جو مقتول اظہار اللہ کے رشتہ داروں  نے اب تک دئے ہیں۔ ان پر بحث کروں ۔ایف آئی آر کے مطابق    یہ  بات معلوم  ہوئی کہ  یہ سب کاروائی ایک مخبر کی اطلاع پر کی گئی ہے  ۔مخبر کتنا با اعتماد ہےیا ایسے مخبروں  کی اطلاعات پر پہلے  کتنے کیسیز کامیابی سے ہمکنار ہوئے   اس بات  کو بھی جانچنا ضروری ہے  ۔یہ تو متعلقہ ادارے ہی بتا پائینگے ۔کیا اس کیس میں دیگر اداروں کی مشاورت حاصل کی گئی ؟ کیا اس کیس کو سی ٹی ڈی  کے طریقہ کار کے مطابق تھنک ٹینک میں ڈِسکس کیا گیا؟  اور کیا  اس کیس کو  ایک منظم طریقے سے ترتیب دے کر  چھاپہ مار ٹیم کو تیار کیا گیا؟  اور ایک بات یہ کہ پولیس کو وردی کے بغیر رات کے پچھلے پہر مخبر شدہ گھر پر چھاپے کی حکمت عملی میں کیا راز تھا ؟ ۔

ایف آئی آر کے مطابق  یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملزمان (جو بھی ہیں) وہ غیر قانونی اسلحے کے کاروبار میں ملوث تھے جس باعث عوام میں  اضطراب پایا جاتا ہے ۔اس حالت میں ۔یہی وہ سوالات ہیں جو عوام ، گلگت بلتستان  کے حکمرانوں اور اسلام آباد  میں قائم نگرانوں  سے پوچھنا چاہتی یا  پوچھ رہی ہے مگر  اس بارے  گلگت بلتستان کے صوبائی حکمرانوں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے   اور نہ  کوئی سرکاری بیان  جس سے شکوک و شہبات بڑھنے کے ساتھ   عوام  کی بے چینی میں مزید اضافہ  ہو رہا ہے  اگر یہ کاروائی  کسی منظم اور ترتیب کے بغیر ایک مخبر کی اطلاع پر کی گئی ہے تو کل کلاں کوئی بھی مخبر ذاتی رنجش کی بنا پر کسی بھی گھر کی نشاندہی  کر سکتا ہے یا کرے گا  تو کیا  سی ٹی ڈی  کا   ذمہ دار  ادارہ  ایسی ہی کاروائی کرے گا  جیسے چلاس میں کیا گیا؟ اور   کیا ایسی  ہی کاروائیوں  میں یوں  بے گناہ افراد اور پولیس فورس  کا مر جانا ہی  اس خطے کا مقدر  ٹھیرا  ہے؟

کون ہے  اس کا ذمہ دار؟  اور  کون اس  بوڑھی ماں کی فریاد سنے گا یا کون   ہے جو ا ن پولیس  جوانوں  کی  ماوں  کو دلاسا  دےگا  ۔  کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اس بارے عوام کو آگاہ کرکے انہیں  اعتماد میں لے؟

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button