کالمز

ایک عہد جس کا اختتام ہوا

تحریر: ظفر اقبال 

سوشل میڈیا کے توسط سے معلوم ہوا کہ بزرگ سیاست دان اور ہر دل عزیز شخصیت پیر کرم علی شاہ قلیل علالت کے بعد دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں ، اپ ایک مخلص اور دوراندیش سیاستدان کے ساتھ ساتھ دینی رہنما تھے ،  علاقے کے لئے اپ کے خدمات پر کچھ لکھنا سورج کو چراغ دیکھانے کے مترادف ہے ، اپ کا خاندان بیسویں صدی کے اوائل میں یاسین برنداس سے ہجرت کر کے چٹورکھن میں آباد ہوئے تھے ، پیر صاحب کے جد امجد اور پدر بزرگوار بدخشان سے سترہویں صدی کے اواخر میں  یاسین برنداس میں اکر آباد ہوئے تھے اور وہی پر مدفون ہیں۔

یہ وہ خاندان ہے جس نے بدخشان سے لے کر چترال اور یاسین سمت ضلع غذر میں انتہائی گٹھن اور نا مساعد حالات میں دینی امور کو احسن طریقے سے چلاتے رہے ہیں  ، کئی دفعہ اس خاندان کے بزرگور کو نا موافق سیاسی حالات کے پیش نظر اپنے گھر بار  اور جائیداد  کو بھی خیرباد کہہ کر ہجرت کرنا  پڑا اور کئی دفعہ بزور شمشير ان کو علاقہ بدر کیا گیا لیکن حق گوئی کی جس راہ پر چلنے کی ان کو ہدایات ملی تھیں ان سے زرہ بر  بھی انحراف نہیں کیا۔

چترال میں بلبل پیر اور یاسین میں پیر شاہ کلان ً”جن کا تعلق اسی خاندان سے تھا “  کو مقامی حکمرانوں کی طرف سے کئی دفعہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ، چترال میں جب کھٹور خاندان  مقامی آبادی کو طاقت کے بل بوتے پر مسلک تبدیل کرنے کی پالیسی پر گامزن تھے تو بلبل پیر ان کے راہ میں سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے رہے جس کے پاداش میں ان کو کئی دفعہ شہید کرنے کی کوششیں کی گئیں اور کئی دفعہ دندان کی صعوبتیں  برداشت کرنی پڑی ، بلاخر بلبل پیر کو جائیداد سے بھی محروم ہونا پڑا ۔

یاسین میں پیر شاہ کلان کو بھی انہی حالات کا سامنا کرنا پڑا ، کئی دفعہ جان کو درپیش خطرات کے پیش نظر رات کے اندھیروں میں خاندان سمت درے پھلانگ کر دوسرے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ، اور 1876  میں زبردستی یاسینی فوج کی کمان دے کر پونیال کر حملہ کرایا گیا ، پونیال والوں کو جب پتہ چلا کہ ان کا پیر لاولشکر سمت پونیال پر حملہ کرنے ائے ہیں تو انہوں نے گولی نہ چلانے کا عہد کیا ، اور گلگت سے کمک مانگنے پر مجبور ہوئے ۔

پیروں کے پاس جب اختیارات تھے تو علاقائی مسائل ان کی قیادت میں حل ہوتے تھے چاہے وہ مسائل سیاسی نوعیت کے ہوں یا دینی نوعیت کے ، کیونکہ پیر علاقے کے معروضی حالات سے واقفیت  رکھتے تھے ان ادوار میں پاور سنٹریلاز تھا ، لیکن جونہی اختیارات کی کراچی منتقلی ہوئی یہاں پر ہر قبیلہ خودمختار ہو گیا اور تقسيم در تقسیم ہوتے رہے اور آج حالات انتہائی نازک دوراہے پر پہنچ چکے ہیں اور ان مخدوش حالات کا تذکره میں یہاں نہیں کرنا چاہتا ۔

ایک وقت تھا جب فاطمیوں نے دور دراز علاقوں کو جزائر میں تقسيم کر دیا تھا  اور ہر جزیرے کا ایک حجت مقرر ہوتا تھا جس کو خلیفہ وقت کی طرف سے اختیارات تفویض ہوتے تھے ، جو زیادہ تر سیاسی نوعیت کے ہوتے تھے ، اور آج بھی ہمارے جتنے مسائل ہیں وہ سب سیاسی نوعیت کے ہیں ، جس میں مداخلت عالمی رہنما نہیں کر سکتے اور وہ کرنگے بھی نہیں اور ہمارے مسائل جو کے تو ہی رہنگے نہ ہماری حالت بدلے گی  ، آج بھی وقت اور حالات کے نزاکت کو دیکھتے ہوئے جزائر اور حجت کو مقرر کرنا دانشمندی ہے ورنہ پانی سر سے گزر جائے گا  ۔
آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے اباؤاجداد کے دینی خدمات کے عوض مرحوم کے گناہ معاف فرمائیں ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button